پچھلے دنوں دیکھا کہ بلاگستان ”افسانہ افسانی“ ہوا پڑا تھا۔ اپنے عمر بنگش، ریاض شاہد، علی حسان اور خرم ابن شبیر کی کیا ہی بات ہے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ بھلا کسی کی کیا مجال کہ انہیں کچھ کہے۔ اس سب کے بعد بھی ہمارا قلم حرکت میں نہ آئے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سوئی ہوئی حس چھلانگ مار کر اٹھی۔ یوں برگر تو برگر، بریانی بھی ہم پر ہنسی۔ اسی اثنا میں ہماری ملاقات اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء، ساغر صدیق، حکیم ناصر اور ممتاز مفتی صاحب سے ہوئی اور ہماری پوٹلی← مزید پڑھیے
اردو بلاگرز کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز تلاوت کلام پاک کے بعد ناہید مصطفیٰ کی بات چیت سے ہوا۔ اس کے بعد کینیڈین کیٹی مرسر نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ چائے کے وقفے میں محمد حسن معراج نے مذاق میں رضیہ پھنسی غنڈوں میں محاورہ بولا۔ جس کی بعد میں انہوں نے وضاحت کی۔ فرحت عباس شاہ نے کہا کہ میڈیا پالیسی کا پابند ہے جبکہ بلاگر آزاد ہے۔ اردو بلاگر میڈیا کا متبادل بن جائے کیونکہ پاکستان کے لئے جو اردو بلاگر کر سکتا ہے وہ کوئی دوسرا نہیں← مزید پڑھیے
آپ کے پاس وقت ہے تو پڑھیے اور سوچیئے کہ اردو کے ان رضاکاروں کو کیا ملا؟ کئی تحاریر لکھیں مگر شائع نہیں کیں، لگتا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شہرت کے بھوکے ہیں۔ اب بات برداشت سے باہر ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات دل پر لے کر اردو اور بلاگنگ سے کنارہ کشی کر جاؤں← مزید پڑھیے
آج گھر کا بھیدی لنکا ڈھا گیا۔ اب توپیں لے کر میرے پیچھے نہ پڑ جائیے گا کہ میں نے اس طرح کیوں کہا؟ چور ڈاکو چوہدری بنے ہوئے ہیں اور لُنڈی عورت پردھان یعنی سربراہ، نگران، وزیر اور معتبر بنی بیٹھی ہے۔ چوہدریوں کی طاقت کی وجہ سے انہیں سؤر تو نہ کہہ سکے مگر سؤر کا نام چوہدری رکھ دیا گیا← مزید پڑھیے
حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے کیونکہ ہمارا آج کچھ یوں ہے جس میں عبدالقدوس ڈیٹا سنٹر کے مالک کی بجائے ریٹرھی پر پانچ پانچ سو میں ڈومینوں کی سیل لگا رہا ہے۔ ڈفر، جعفر، محمد سعد، خورشید خان، عدنان شاہد، افتخار اجمل بھوپال، تانیہ رحمان، عثمان، عمیر ملک، محمد بلال خان، محمد صابر، یاسر عمران مرزا، محمد وارث، فہد، محمد اسد، یاسر خومخواہ جاپانی اور خاور کھوکھر← مزید پڑھیے