سنو تو سہی! کوہِ سوز کے دامن میں، دکھی وادی کے فریبی جنگلوں کے درمیاں، اک حقیر و لاغر ہوں میں۔ انا پرستی کے گرداب میں میری سانسیں ڈوب جاتی ہیں۔ میری روح بادِ صبا کے اک جھونکے کو ترستی ہے۔ مُردار کا گوشت نوچنے والی گِدھوں کی اولادیں، جب اونچے برجوں پر براجمان ہوتی ہیں تو ان کا نزلہ بھی مجھ پر گرتا ہے۔ یوں میری رہی سہی عزت کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ میری خودی کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ میری روح دھاڑیں مار کر روتی← مزید پڑھیے
صبح کے پانچ بجے پتہ چلا کہ بڑے بڑے آگ کے گولوں کی بارش نے امریکہ میں تباہی مچا دی۔ پانی کی ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند سمندری لہر پاکستان کی طرف بڑھ رہی ہے اور جلد ہی ہم سب ختم ہو جائیں گے۔ پوری دنیا میں بس چند انسان زندہ بچیں گے۔ کیا مایا مذہب واقعی← مزید پڑھیے
میرے لکھنے کا شوق تو پرانا ہے مگر یہ نہیں کہوں گا کہ بچپن سے ہے، کیونکہ بچپن میں یہ شوق نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ بچپن میں اصل شوق، جنون اور سب کچھ کرکٹ ہوا کرتی تھی۔ کیا مزے کے دن تھے۔ صبح صبح اٹھنا۔ بلا پکڑنا اور کچھ کھائے پیئے بغیر دشمن پر یلغار کر دینا۔← مزید پڑھیے
آپ کے پاس وقت ہے تو پڑھیے اور سوچیئے کہ اردو کے ان رضاکاروں کو کیا ملا؟ کئی تحاریر لکھیں مگر شائع نہیں کیں، لگتا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شہرت کے بھوکے ہیں۔ اب بات برداشت سے باہر ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات دل پر لے کر اردو اور بلاگنگ سے کنارہ کشی کر جاؤں← مزید پڑھیے