او میری جان دے ٹوٹے! تم “مرکھائی“ سے چھلانگ لگا کر خودکشی نہ کرنا۔ وہ کیا ہے کہ ”مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے“۔ ویسے بھی ہم جو تیری یاد میں مرے جا رہے ہیں، وہ کیا کم ہے؟ اب تم بھی مر کر کیا ہماری دنیا ویران کرو گے؟ چل چھوڑ! ٹلہ ٹاپ پر چلتے ہیں۔۔۔ لو جی پہنچ گئے۔ اب بس جلدی جلدی خیمے لگاؤ اور ان میں سامان رکھو۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ پہلے مقامِ غروب پر جا کر غروبِ آفتاب کا نظارہ تو کر لیں۔۔۔ ویسے کیا تمہیں خوف کے اُس پار جانا ہے؟ فطرت کو روح تک سمانا ہے؟ اور اپنے اندر دیا جلانا ہے؟ تو کبھی یہاں چپ چاپ بیٹھ کر غروبِ آفتاب کا نظارہ کرنا اور کسی جوگی منظرباز کی طرح← مزید پڑھیے
رات کے آخری پہر ابھی پرستان کے دروازے پر ہی پریوں سے ہیلو ہائے ہو رہی تھی کہ ساتھ والے خیمے میں اچانک ”ٹاں ٹاں“ کی آواز بلند ہوئی۔ میں سمجھ گیا کہ آفت نازل ہونے والی ہے۔ آخر آفت سے جو واہیات مکالمہ ہوا، وہ بھی آگے بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے جان لیں کہ منہ اندھیرے جاگ کر جب مقامِ طلوع پر پہنچے تو عجب کیفیات سے دوچار ہوئے۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا اور شفق کی روشنی لاجواب تھی۔ نیچے وادی میں کہیں کہیں دھند کا پہرہ تھا۔ ہلکی ہلکی پُروا یعنی بادِصبا، نسیم سحر چل رہی تھی۔ وہ منظرنامہ شدید الشدید دلفریب تھا۔ اور جب منظرباز ایسے نظاروں میں محو ہوتا ہے تو ”تم“ میں کھو جاتا ہے اور تم← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے