جو پہنچے رنگوں کے دیس تو اندھیروں سے بھی روشنی کشید کرنے لگے۔ تاریکیوں سے بھی چمک آنے لگی۔ یوں کرنیں چن چن کر ”روشنی تحریر“ کرنے میں لگ گئے۔ اسی سلسلے میں پہلے بھی بتایا تھا کہ اگر آپ کو بھی رنگوں کے دیس گھومنا ہے تو آئیے ہمارے سنگ چلیئے۔ یوں کھیل ہی کھیل میں فوٹوگرافی کے بہترین گُھڑ سوار بن جاؤ گے۔ بہرحال پہلے اس واسطے تحریریں لکھیں، ویڈیو اور اینیمیشنز بنائیں۔ اب اسی ضمن میں کیمرہ سِمولیٹر پیشِ خدمت ہے۔ تاکہ بھاری بھرکم تھیوری پڑھ کر اور پھر فیلڈ میں ”ہِٹ اینڈ ٹرائل“ طریقے سے تصویریں بنا بنا کر سیکھنے کی بجائے بغیر کیمرے کے ہی آن لائن مگر عملی طور پر فوٹوگرافی سیکھی جا سکے← مزید پڑھیے
وہ جو آپ ایک بٹن دباتے ہیں اور دنیا عش عش کر اٹھتی ہے۔ وہ جو آج زندگی کا ایک اہم جز بن چکی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس کے پیچھے انسان نے کتنی لمبی ریاضت کی ہے؟ ویسے انسان تو ہزاروں سال سے پانی اور آئینے وغیرہ میں عکس دیکھ کر سوچتا تھا کہ کسی طرح یہ عکس آئینے میں ہی جامد ہو جائے، مستقل ہو جائے۔۔۔ انسان کی خواہش، ضرورت اور تجسس نے اسے سوچنے پر مجبور کیا۔ پھر کسی نے کیمرہ بنایا تو کسی نے تصویر پرنٹ کر کے وقت کو روک دیا۔ نظارے کو امر کر دیا۔ گویا فوٹوگرافی کر دیکھائی۔ اور فوٹوگرافی ہے کیا؟ کیونکہ پیٹنگ بھی ایک تصویر ہے اور آئینے میں بھی اک تصویر ہی نظر آتی ہے۔ مگر ”فوٹو“ ان سے مختلف چیز ہے، جو کہ ”فوٹوگرافی“ سے وجود میں آتی ہے۔ آج ہم یہی جاننے اور سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی فوٹوگرافی یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
کچھ سال پہلے تک سیروسیاحت کے دوران بس یاداشت کے لئے سمارٹ فون وغیرہ سے کچھ تصویریں بناتا۔ جبکہ بطور لکھاری الفاظ کے ذریعے منظر کھینچتا۔ وقت گزرتا گیا اور الفاظ سے منظرنامہ کھینچتے کھینچتے معاملہ ڈی ایس ایل آر کیمرے سے منظر پکڑنے تک پہنچ گیا۔ یوں باقاعدہ فوٹوگرافر بھی بن گیا۔ تب سے فوٹوگرافی کے متعلق مسلسل پڑھتا، نت نئے تجربات کرتا، معلوماتی ویڈیوز دیکھتا اور نئی سے نئی تکنیک سیکھتا چلا آ رہا ہوں۔ اب بات یہ ہے کہ سمارٹ فون اپنے بہترین سافٹ ویئر کی مدد سے ”ریڈی ٹو یوز“ تصویر بنا کر دے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو ہلکا پھلکا ”ٹی ٹاں“ کرنا پڑے گا۔ جبکہ بڑے کیمرے کے ”ششکے“ تو ہوتے ہیں اور اس سے جدید فوٹوگرافی بھی کی جا سکتی ہے، مگر بڑے کیمرے اور اس کے سازوسامان سے لے کر استعمال کرنے اور پھر تصویر تیار کرنے کے اپنے ہی بکھیڑے ہیں۔ میں آپ کو ڈرا نہیں رہا بلکہ یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ پہلے اپنی فوٹوگرافی کی نوعیت اور ترجیح دیکھیں اور پھر← مزید پڑھیے
بچپن میں ایک دفعہ ملتان گیا تھا اور پھر ستائیس سال بعد اس شہر میں دوبارہ قدم رکھا۔ بس جی اک شام محبوب کے پہلو میں بیٹھ کر عکس بنانا تھا۔ اور یہاں بھی ”تیرے“ نام کا دیا جلانا تھا۔ اور جو تھل جیپ ریلی دیکھنے پہنچے تو رات ملتان میں، پاکستان کے مشہور و معروف برڈر اور فوٹوگرافر ڈاکٹر سید علی حسان کے آستانے پر ٹھہرے۔ باقی پیر محبوب کو قدموں میں لاتے ہیں مگر ہمارے مرشد ہمیں ہی محبوب کے قدموں میں لے گئے۔ ویسے بھی عشق کا تقاضا یہی ہے کہ تو زیر ہو، تو قدموں میں بیٹھ، نہ کہ محبوب۔ پاکستان کے دیگر خوبصورت چوک چوراہوں کی طرح ملتان کا گھنٹہ گھر چوک بھی زبردست ”فوٹوجینک“ ہے۔ اوپر سے یہاں تاریخ تہہ در تہہ پروئی ہوئی ہے۔ جس طرف بھی کیمرہ کر کے تصویر بناؤ تو کچھ نہ کچھ تاریخ عکس بند ہو ہی جاتی ہے۔ اگر اک طرف قلعہ کہنہ قاسم میں بہاؤ الدین زکریا اور شاہ رکن عالم کے مزارات اور دیگر عمارتیں ہیں تو دوسری طرف انگریز دور کا گھنٹہ گھر ہے۔ بہرحال اُس رات جب گھنٹہ گھر چوک پہنچے تو تصویر بنانے کے لئے جگہ ڈھونڈ ہی لی۔ اور وہ تھی دم دمہ آرٹ گیلری کی چھت۔۔۔ مگر ہوا یوں کہ← مزید پڑھیے
نوجوان نے شغل شغل میں نشانہ باندھے(شست لئے) بغیر ہی بس بندوق کی نالی پرندے کی طرف کی اور لبلبی دبا دی۔ کرنی ایسی ہوئی کہ چھرہ پرندے کو لگ گیا اور وہ گر گیا۔ اس کا گرنا تھا کہ نوجوان نے دوست کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھنے کی بجائے بندوق وہیں پھینکی اور پرندے کی طرف دوڑ لگا دی۔ پرندے کو اٹھایا مگر وہ مر چکا تھا۔ حالانکہ یہ تو معمول کی بات تھی مگر اُس روز نوجوان کو ناجانے کیا ہوا۔ اچانک سے قدرت نے اس کے دل و دماغ میں کچھ ایسا اتار دیا کہ دل پر عجیب سا بوجھ پڑنے لگا۔ بس پھر اس واقعہ نے نوجوان شکاری کی ایسی حالت کی کہ آج کل وہ← مزید پڑھیے