اگر میں ادیب ہوتا تو یہ سب کسی کہانی یا افسانے کی صورت میں لکھتا۔ پھر ہر کسی کو پڑھتے ہوئے مزا بھی آتا اور میری بات بھی سب تک پہنچ جاتی۔ بہرحال بات یہ ہے کہ سائنس چیزیں بناتی ہے جبکہ ادب انسان کو ”انسان“ بناتا ہے۔ زمین کے گرد گھومتے سٹیلائیٹ کی طرح، ادیب معاشرے کے گرد گھومتا ہے۔ اپنے علم و ہنر کے ذریعے ایسے ایسے تازیانے برساتا ہے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کو ہی دیکھ لیں۔ ویسے کئی بیچارے لوگوں کا خیال ہے کہ منٹو نے فحش اور جنس نگاری← مزید پڑھیے
پہاڑی علاقے کے خوبصورت گھر اور سرسبز کھیت ہمارے سامنے تھے۔ وہ سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ تھا اور سامنے والی وادی مقبوضہ کشمیر کی تھی۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر دیو سائی کا بلند میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی جو بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں، آج انہیں ”تاتاریوں“ کو چوکی شہر پہنچ کر دال زہر مار کرنی پڑی۔ اس کے بعد ڈنہ بڑوھ میں چشمے کنارے آرام کر کے جب پہاڑ شاہ پہنچے تو وہاں نخرے کرتی صنفِ نازک← مزید پڑھیے
پچھلے دنوں دیکھا کہ بلاگستان ”افسانہ افسانی“ ہوا پڑا تھا۔ اپنے عمر بنگش، ریاض شاہد، علی حسان اور خرم ابن شبیر کی کیا ہی بات ہے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ بھلا کسی کی کیا مجال کہ انہیں کچھ کہے۔ اس سب کے بعد بھی ہمارا قلم حرکت میں نہ آئے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سوئی ہوئی حس چھلانگ مار کر اٹھی۔ یوں برگر تو برگر، بریانی بھی ہم پر ہنسی۔ اسی اثنا میں ہماری ملاقات اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء، ساغر صدیق، حکیم ناصر اور ممتاز مفتی صاحب سے ہوئی اور ہماری پوٹلی← مزید پڑھیے