خوفناک، چٹیل، سوکھے، سڑے اور اجڑے پہاڑوں کے اس پار بلندوبالا مقام پر ایک جنت ہے، جسے لوگ پریوں کا دیس کہتے ہیں، جس کا ایک نظارہ کسی حسین و جمیل دوشیزہ کی طرح پہلی نظر میں ہی قتل کر دیتا ہے۔ اس دوشیزہ کے سر پر قاتل پہاڑ تاج بنے پھیلا ہوا ہے← مزید پڑھیے
سورج نکل رہا ہے۔ سورج کے پیچھے پیچھے گرمی کا جن بھی بوتل سے باہر آ جائے گا۔ چند دن اس جن سے بچنے اور اپنے آپریٹنگ سسٹم کو ریفریش کرنے جا رہے ہیں۔ وادیاں گھومیں گے، چشموں کا ٹھنڈا و میٹھا جام نوش کریں گے۔ رنگ برنگے جنگلی پھولوں سے باتیں کریں گے۔ ان کے دکھ درد سنیں گے مگر اپنے نہیں سنائیں گے کیونکہ اپنی ساری سوچیں اور مشینی باتیں ادھر ہی چھوڑ کر جا رہے← مزید پڑھیے
سو چہروں والے قاتل پہاڑ کے دامن میں ہر سال جانے کا سوچتے، پروگرام بننا شروع ہوتا اور مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی دوست کہتا کہ دن بہت زیادہ لگ جائیں گے اور کاروبار متاثر ہو گا، کوئی لمبے سفر سے ڈر جاتا۔ کاروبار متاثر اور لمبا سفر تو صرف بہانا ہوتا، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر کسی کو ”بیوی“ سے اجازت نہ ملتی۔ ہمارا کیا ہے، دوست ساتھ ہوں تو لمبے سے لمبا سفر بھی چھوٹا لگتا ہے اور موتی چور کا لڈو کھانے کا ”ارمان“ خیر سے ابھی تک پورا ہی نہیں ہوا۔ بہرحال جیسے تیسے کر کے اب کی بار سب نکل ہی پڑے← مزید پڑھیے