چند دوست اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم جو پرانے چلے آ رہے ہیں وہی مستند بلاگر ہیں۔ ایسی باتوں اور بلاگنگ کے حوالے سے ہر کام میں ضرورت سے زیادہ شک نے کئی پرانے اردو بلاگرز کو ایک مخصوص گروہ تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ بعض سوچتے ہیں کہ کہیں بلاگنگ کا رجحان کم تو نہیں ہو رہا؟ فی الحال میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میری نظر میں تو بلاگنگ کے رجحان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی کو خبر نہ ہو تو یہ علیحدہ بات ہے۔ میرے اپنے بلاگ پر اتنی ٹریفک ہے کہ اس سے معقول آمدنی← مزید پڑھیے
فیس بکی مورچہ بندی کریں کیونکہ اگر فرینڈ لسٹ بڑی ہے تو پھر حالات سنگین ہیں۔ ٹیگیا فیس بک کا خطرناک ترین جانور ہے اور شیئریا ہر چیز شیئر کرنے کو کارِثواب سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے نوٹیفکیشن کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایسے میں بندہ جنجال پورہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ مزید مختلف ایجنسیز اور گروہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر کام کر رہے ہیں، اس لئے کچھ بھی لائیک یا شیئر کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ کہیں ہم جانے انجانے میں کسی کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے۔← مزید پڑھیے
کیا گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟ جی بالکل کمائے جا سکتے ہیں اور بہت لوگ کما بھی رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سوشل نیٹ ورک سے بھی پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ فیس بک تو اس وقت سونے کی چڑیا ہے۔ اس تحریر میں آن لائن پیسے کمانے کا سارا کچاچٹھا کھولتے ہیں کہ کس کس طرح پیسے کمائے جا سکتے ہیں اور کہاں کہاں فراڈ ہو رہا ہے۔← مزید پڑھیے
مستقبل میں شادیوں کی تقریبات بھی فیس بک پر ہوں گی۔ چلیں آپ کو فیس بک کی عجیب و غریب مخلوقات سے ملواتے ہیں۔ سب سے پہلے ملئے فیس بکی مفتی اعظم سے۔ اس کے بعد دیکھیں کہ فیس بکی ٹائیلٹی لڑکی کیسے غسل خانے میں کھڑی ہو کر موبائل سے تصاویر بناتی، بکیوں کو لٹاتی اور دلی تسکین پہنچاتی ہے۔ سب سے زیادہ لائیک اور کمنٹ اسے ہی ملتے ہیں، مگر کڑیانے بھی کسی سے کم نہیں۔ مزید فیس بکی منڈیانی، شاعر، ادیب، فلاسفر، مسکین، ملنگ، شیئریا، لائیکیا اور ٹیگیا جیسے جانور← مزید پڑھیے
انقلاب کی بات کرتے ہیں، ثقافت کی بات کرتے ہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہی ثقافت کی دھجیاں اڑا رہی ہوتی ہے۔ اخبار اردو، اخبار پڑھنے والے اردو والے، اشتہارات اردو والوں کے لئے لیکن مجال ہے کوئی بھی یونیورسٹی اپنا اشتہار اردو میں دے۔ یہی حال سی ایس ایس جیسے اہم ترین امتحان کا ہے۔ کچھ غلاموں نے ہمیں بھی غلام اور ہمارے معاشرے کو ذہنی غلاموں کا جنجال پورہ بنا کر رکھ دیا ہے← مزید پڑھیے