یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
کئی پاکستانی پردیسیوں کو ایک خاص بیماری لگی ہوئی ہے۔ ان کا کام پاکستان کی ہر چیز پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ میں ایسے پردیسیوں کو ”مینگوز“ کہتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ ہمارے مزیدار آموں کی طرح یہ بھی ایکسپورٹ ہو گئے۔ ان کا اصل سواد تو بیگانے لے گئے۔ ہمارے لئے پیچھے بس گھٹلیاں بچی ہیں، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سروں پر برستی ہیں۔ ایک دفعہ جب مینگوز نے پاکستان میں رہنے والوں کو جاہل کہا، تو میرا میٹر گھوم گیا۔ پھر میں نے زرمبادلہ، حب الوطنی اور دیگر کئی باتوں پر کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
ہم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔ پھر وہ دن آ گیا جب ہمارے لئے واقعی انجمن قاری کے ساتھ بھاگ گئی۔ قاری اب مشہور سٹار بن چکا ہے۔ گاؤں میں آج بھی شاندار محفل تو ہوتی ہے مگر بچہ اِدھر دودھ چھوڑتا ہے تو اُدھر شراب پینا شروع کر دیتا ہے۔ چودھریوں کے اس گاؤں میں بس نام کے چودھری ہیں۔ چاچا فیقو ذرا بھی نہیں بدلا اور آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔← مزید پڑھیے
آج شام انہیں کہا کہ مستری جی خدا حافظ کیونکہ لاہور چلے ہم۔ ارے کیا آپ نہیں جانتے کہ لاہور میں اردو بلاگرز کانفرنس ہو رہی ہے اس لئے میں تو آج ہی پہنچ جاؤں گا اور کانفرنس تک لاہور میں ہی ڈیرے ڈال دوں گا۔ آخر دیکھوں تو سہی اردو بلاگ فورم والوں نے کیا انتظام کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تقریب راوی پل پر اور کھانا چوبرجی اس لئے← مزید پڑھیے
عبدالستار سٹرنگ کا عاشق ہو چکا تھا اور ہم سب نے سرِعام سڑک کنارےاس سفر کا پہلا جام چڑھایا۔ گو کہ یہ میرا پہلا تجربہ نہیں تھا مگر پھر بھی گلے سے گھونٹ گزرتا محسوس ہوتا اور معدے تک پہنچتے ہی ایسا سکون دیتا کہ ہوش خطا ہو جاتے۔ اِدھر تھاکوٹ آیا، اُدھر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ نے ہمارا استقبال کیا← مزید پڑھیے