چھوڑ یار زیادہ حساس نہ بن۔ لیکن بلال ذرا سوچ! سولہ معصوم بچے۔۔۔ خدا کے واسطے مجھے سولہ بچے بھولنے دو۔ نہیں تو مجھے تڑپتی اور دھاڑیں مار کر روتی مائیں یاد آتی ہیں۔ سولہ بچے۔۔۔ مجھے وہ آگ کے شعلے یاد آتے ہیں اور ان شعلوں میں دم توڑتے۔۔۔ سوچنے پر مجبور نہ کرو کیونکہ اس طرح بے شمار دردناک لمحے یاد آئیں گے جبکہ ہمارا تعلق تو بھول جانے والی قوم سے ہے۔← مزید پڑھیے
ملالہ یوسف زئی کی ڈائری کسی ساتویں جماعت کی گل مکئی نے نہیں بلکہ کسی منجھے لکھاری نے لکھی ہے۔ اس ڈائری میں تعلیم کے لئے آواز بلند کرنے اور طالبان مخالف کچھ ہے ہی نہیں بلکہ کہیں کہیں چند جملوں میں فوج پر تنقید ضرور ہے۔ یہ ڈائری کوئی انوکھا یا اچھوتا کام← مزید پڑھیے
ہر سال ماہِ ربیع الاول میں ہمارے مسلمان بھائی حضرت محمدﷺ کی ولادت کی خوشی مناتے ہیں۔ اپنے رب تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ملنے پر شکر ادا کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ مسلمان یہ تو مانتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہیں، مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اتنی بڑی نعمت کی خوشی صرف ایک دن؟ سال میں صرف ایک دن بھلائی کے کام، ایک دن اتنی روشنی کر دی کہ باقی سال وہی اندھیرے، وہی غربت۔ دوستو! یہ کیسی خوشی ہے؟ یہ کیسا جشن← مزید پڑھیے
خرم ابن شبیر کی طرح میرا دل بھی کیا کہ کوئی حیرت انگیز واقعہ لکھوں۔ جب کچھ لکھنے لگتا تو بار بار ایسا لگتا کہ اب لکھوں تو کیا لکھوں۔ ساتھ ہی بزرگوں کی باتیں یاد آتی ہیں کہ ہم نے یہ دیکھا ہم نے وہ دیکھا یعنی اُن کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی یاداشت کہ ہم نے زمین کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا← مزید پڑھیے