اگر میں کہوں کہ مجھے گوجرانوالہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور نانگاپربت کی چوٹی نظر آئی ہے تو کیا آپ مان لو گے؟ اور اگر اس کی تصویر بھی دکھاؤں تو کیا یقین کر لو گے؟ بہرحال ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں ہم اک روز فجر کے وقت، گوجرانوالہ کے قریب لودھی مسجد کی فوٹوگرافی کرنے گئے۔ اک خوبصورت صبح کا سندیسہ لئے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی کہ میں نے شور مچا دیا، گاڑی روکو، گاڑی روکو... وہ دیکھو پہاڑ۔۔۔ باقی ٹیم نے یقیناً یہی سوچا ہو گا کہ جس طرح بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہوتے ہیں، ایسے ہی منظرباز کے خوابوں میں پہاڑ... بھلا گوجرانوالہ سے پہاڑ کہاں نظر آنے لگے... مگر وہ ایسی حقیقت تھی کہ← مزید پڑھیے
ماضی کے جوگیوں، مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات کے ملازمین وغیرہ کو چھوڑ کر یعنی بطور سیاح بہت کم لوگ اتنی دفعہ ٹلہ گئے ہوں گے کہ جتنی دفعہ جوگی منظرباز جا چکا ہے۔ اس سیروسیاحت میں ٹلہ کا چپا چپا چھان مارا مگر قسمت دیکھیئے کہ کوشش کے باوجود بھی کبھی موروں کا دیدار نہ ہوا۔ طاؤسِ ٹلہ کی فقط اک جھلک بھی نصیب نہ ہوئی۔ بس ایک دو دفعہ جنگل میں مور پنکھ ملے تو میں انہیں ہی اعزاز سمجھ لیتا۔ اور پھر حالیہ ”بہارِ ٹلہ“ کی پہلی یاترا ہوئی تو صبح فجر کے وقت جنگلوں کو نکل گیا۔ اچانک ایک جگہ مور نظر آیا تو جیسے سانسیں تھم سی گئیں، میں ساکت ہو گیا، کچھ گھبرا سا گیا۔ اور پھر افسوس! شومئی قسمت کہ← مزید پڑھیے
ہم نے پہنچنے میں تھوڑی دیر کر دی اور تب تک جولاہے کی بیٹی ”گامن گدھوکن“ قتل کر کے جیل جا چکی تھی۔ بلکہ جیل کے دورے پر آئے نوجوان نواب صاحب گامن کے عشق میں گرفتار بھی ہو چکے تھے۔ اِدھر ہم پہنچے اور اُدھر گامن جیل توڑ کر فرار ہو گئی۔۔۔ بس پھر نواب صاحب ہجر میں تڑپنے اور سپاہی گامن کو ڈھونڈنے کی جان توڑ کوشش کرنے لگے۔ آخر گامن پکڑی گئی اور اس نے نواب صاحب کو ٹھوک کر جواب دیا کہ میں معشوقہ بن کر تمہارا بستر گرم← مزید پڑھیے
میرے لئے سیاحت صرف سیروتفریح اور فوٹوگرافی صرف تصویروں کا نام نہیں، بلکہ بات اس سے آگے کی ہے۔۔۔ اور اس کے لئے جو راستہ اپنایا ہے اس پر چلتے ہوئے ایک ایک لمحہ مجھے خوشی دیتا ہے۔ میں اس میدان میں اس لئے نہیں کہ مجھے کچھ ثابت کر کے کسی کو دکھانا ہے۔ مجھے تو بس اس منظربازی کے ذریعے ایسا عرق کشید کرنا ہے کہ جو روح کو تازہ دم اور زندگی کو سرشار کر دے۔ لہٰذا گزارش فقط اتنی سی ہے کہ مجھے اپنا مدِ مقابل (حریف) ہرگز نہ سمجھیئے۔ کیونکہ میں ایسی کسی دوڑ کا بندہ سرے سے ہوں ہی نہیں۔ مجھے کچھ ثابت نہیں کرنا، مجھے کوئی ریکارڈ نہیں بنانا اور آپ کی ان لڑائیوں← مزید پڑھیے
دریائے چناب کے کنارے پر۔۔۔ آسمان پر چھائی کہکشاں۔۔۔ اک جلتا الاؤ۔۔۔ اک بیری کا درخت۔۔۔ اور اس کے پاس درویش کی کُٹیا۔۔۔ ”اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے… سب مایا ہے“۔۔۔ سڑک چھوڑی، بند سے اترے اور عین کنارے پر چلتے چلتے گھاس پھوس سے بنی کُٹیا کے قریب پہنچے۔ اس دشت و بیابان میں ایک طرف رات شدید تاریک، خطرناک کیڑے مکوڑوں کا گڑھ، اور دوسری طرف چناب میں طغیانی بڑھ رہی تھی۔ پانی کناروں سے باہر نکلنے ہی والا تھا۔ مگر اک دیوانے کو اپنے مطلوبہ نظارے کی تصویر درکار تھی۔ اور پھر اسی دوران کنارہ ٹوٹ کر گرا، پانی تیزی سے باہر نکلا اور مجھے← مزید پڑھیے