پہاڑی علاقے کے خوبصورت گھر اور سرسبز کھیت ہمارے سامنے تھے۔ وہ سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ تھا اور سامنے والی وادی مقبوضہ کشمیر کی تھی۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر دیو سائی کا بلند میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی جو بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں، آج انہیں ”تاتاریوں“ کو چوکی شہر پہنچ کر دال زہر مار کرنی پڑی۔ اس کے بعد ڈنہ بڑوھ میں چشمے کنارے آرام کر کے جب پہاڑ شاہ پہنچے تو وہاں نخرے کرتی صنفِ نازک← مزید پڑھیے
سنو تو سہی! کوہِ سوز کے دامن میں، دکھی وادی کے فریبی جنگلوں کے درمیاں، اک حقیر و لاغر ہوں میں۔ انا پرستی کے گرداب میں میری سانسیں ڈوب جاتی ہیں۔ میری روح بادِ صبا کے اک جھونکے کو ترستی ہے۔ مُردار کا گوشت نوچنے والی گِدھوں کی اولادیں، جب اونچے برجوں پر براجمان ہوتی ہیں تو ان کا نزلہ بھی مجھ پر گرتا ہے۔ یوں میری رہی سہی عزت کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ میری خودی کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ میری روح دھاڑیں مار کر روتی← مزید پڑھیے
وہ جو مسکراتے ہوئے لمبی کالز کرتی ہیں ان کی فون پر ہونے والی گفتگو سنیئے۔ لڑکیوں کے سی ٹی سکین کرنے والی آنکھوں میں جھانک کر دیکھئے، تو پتہ چلے گا کہ یہی کچھ تو سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا غیر سوشل رویہ نہیں بلکہ یہ عوام کا رویہ ہے۔ یہ روایتی میڈیا کا موازنہ سوشل میڈیا سے کرتے ہیں۔ روایتی میڈیا ادارہ جبکہ سوشل میڈیا تو عوام ہے۔← مزید پڑھیے
پرندے چہچہاتے وادی میں اپنی اڑانیں بھر رہے تھے۔ پرندوں اور راما کی خوبصورت صبح نے خیمے پر دستک دیتے ہوئے کہا اٹھو دیکھو کتنی حسین صبح باہر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ خیمے کا دروازہ کھولا تو یک دم ٹھنڈی ہوا کا جھونکا روح تک اتر گیا۔ فطرت نے دونوں بازو کھول کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا← مزید پڑھیے
پانچ سات پریاں، بغیر سر ڈھانپے اور ننگے پاؤں دوڑتیں ہمارے پاس آ کھڑی ہوئیں۔ ایک دفعہ تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس طرح پریوں کا ریوڑ دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے اور مجھے لگا کہ یقینا یہ کوئی خواب ہے یا پھر میں کوہ ہمالیہ کی بجائے کوہ قاف پہنچ چکا ہوں← مزید پڑھیے