محفوظات برائے ”مور“ ٹیگ
ستمبر 13, 2022
تبصرہ کریں

ٹلہ جوگیاں پر محبت کا نشان – چکورِ ٹلہ

کیا آپ کا محبوب بھی چاند ہے؟ بس جی! پھر آہیں بھریں اور محبوب کو دور سے ویسے ہی دیکھیئے ”چاند کو جیسے دیکھتا چکور ہے“۔ وہ کیا ہے کہ آپ کی طرح کے اک پرندے چکور کے بارے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چاند کا عاشق ہے۔ ویسے ہے ناں حیرانی کی بات کہ عاشق چکور کے جیسے خوبصورت اور محبوب چاند کی طرح کدو سے اور بلیک اینڈ وائٹ۔۔۔ خیر ہم نے ٹلہ جوگیاں کے راستے سے چکوروں کے غول در غول اڑتے دیکھتے ہیں۔ گویا ہم کہیں گے کہ روہتاس کے بعد ”سڑک جو جائے ٹلے… تو جوگی رُلے… گل کِھلے… مور ملے، چکور ملے“۔۔۔ ویسے اس راستے کی عجب←  مزید پڑھیے
مارچ 28, 2022
تبصرہ کریں

ٹلہ جوگیاں کے مور – طاؤسِ ٹلہ

ماضی کے جوگیوں، مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات کے ملازمین وغیرہ کو چھوڑ کر یعنی بطور سیاح بہت کم لوگ اتنی دفعہ ٹلہ گئے ہوں گے کہ جتنی دفعہ جوگی منظرباز جا چکا ہے۔ اس سیروسیاحت میں ٹلہ کا چپا چپا چھان مارا مگر قسمت دیکھیئے کہ کوشش کے باوجود بھی کبھی موروں کا دیدار نہ ہوا۔ طاؤسِ ٹلہ کی فقط اک جھلک بھی نصیب نہ ہوئی۔ بس ایک دو دفعہ جنگل میں مور پنکھ ملے تو میں انہیں ہی اعزاز سمجھ لیتا۔ اور پھر حالیہ ”بہارِ ٹلہ“ کی پہلی یاترا ہوئی تو صبح فجر کے وقت جنگلوں کو نکل گیا۔ اچانک ایک جگہ مور نظر آیا تو جیسے سانسیں تھم سی گئیں، میں ساکت ہو گیا، کچھ گھبرا سا گیا۔ اور پھر افسوس! شومئی قسمت کہ←  مزید پڑھیے
جنوری 2, 2020
تبصرہ کریں

جب ٹلہ جوگیاں پر مور ناچتے تھے

پاکستان بننے کے بعد جوگی چلے گئے اور ٹلہ ویران ہو گیا۔ لیکن جنگلوں میں مور ناچتے رہے۔ حالانکہ جنگل سے لکڑی چُرانے اور ٹلہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے، بولے تو خزانے کی تلاش کرنے والے چور ٹلہ جاتے رہے۔ ان کے علاوہ حقیقت کے متلاشی، تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقین اِکادُکا بھی ٹلہ پہنچتے رہے اور موروں کا ناچ دیکھتے رہے۔ وہ بھی ایک جوگی تھا کہ جو چرخے کی کوک سن کر پہاڑ سے اتر آیا اور یہ بھی سیروتفریح کا شوقین ایک جوگی فوجی افسر تھا کہ جو ٹلہ سے نیچے فائرنگ رینج میں بیٹھا دوربین سے اکثر ٹلہ کی چوٹی کا جائزہ لیتا رہتا۔ آخر جوگی دل کی آواز سن کر پہاڑ چڑھ گیا اور پھر←  مزید پڑھیے
جولائی 23, 2014
8 تبصر ے

یک روزہ کشمیر گردی – اختتام

پہاڑی علاقے کے خوبصورت گھر اور سرسبز کھیت ہمارے سامنے تھے۔ وہ سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ تھا اور سامنے والی وادی مقبوضہ کشمیر کی تھی۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر دیو سائی کا بلند میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی جو بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں، آج انہیں ”تاتاریوں“ کو چوکی شہر پہنچ کر دال زہر مار کرنی پڑی۔ اس کے بعد ڈنہ بڑوھ میں چشمے کنارے آرام کر کے جب پہاڑ شاہ پہنچے تو وہاں نخرے کرتی صنفِ نازک←  مزید پڑھیے