ہم مقررہ وقت پر چچا مستنصر حسین تارڑ کے گھر پہنچے۔ انہوں نے ہمیں اپنے سٹڈی روم میں بیٹھایا۔ وہاں بہت ساری کتابیں اور دیواروں پر پینٹگز لگی تھیں۔ اردو بولنے پر انہوں نے کہا کہ پنجابی ہو تو پھر پنجابی میں بات کرو۔ زیادہ تر باتیں زبان، ملکی حالات، سیاحت اور تارڑ صاحب کی کتابوں پر ہوئیں۔ ہم سوال کرتے اور وہ اس پر تفصیلی بات کرتے۔ بڑے کھلے ڈلے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ دو اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بڑی اہم باتیں سناتے ہوئے کہا← مزید پڑھیے
جہاں چشمے گنگناتے ہیں۔ جہاں چاندنی روح تک اترتی ہے۔ جہاں قدم قدم پر رب یاد آتا ہے۔ جس دیس کے سر پر پربت کا تاج ہے۔ جس دیس میں پریاں بستی ہیں۔ جو دیس دنیا میں جنت ہے۔ افسوس صد افسوس! اس دیس میں خون بہایا گیا۔ اس دیس میں صفِ ماتم بچھی ہے۔ وہ جنت خون کے آنسو رو رہی ہے۔ افسوس صد افسوس! آج پربت کا تاج شرم سے جھک گیا۔← مزید پڑھیے
ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا پاؤں آپ کی دم پر آنے سے آپ خیریت سے نہیں۔ میر صاحب آپ کو کوئی غلط فہمی ہے۔ اب لوگ اصلیت جان چکے ہیں۔ چودھری صاحب ہم بولے تو بات دور تک جائے گی اور لوگ جان جائیں گے کہ آپ← مزید پڑھیے
راما جھیل سے واپس آ کر ہمت ہارے ہوئے تیس مار خاں سیاحوں کو بس توانائی بحال کرنے کی فکر تھی۔ کوئی دکانوں پر انرجی ڈرنک ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے حکیم کو فون کر کے مشورہ کر رہا تھا کہ کیا تھوڑی سی سلاجیت کھا لوں۔ لو کر لو گل، حد ہے یار← مزید پڑھیے
خوفناک، چٹیل، سوکھے، سڑے اور اجڑے پہاڑوں کے اس پار بلندوبالا مقام پر ایک جنت ہے، جسے لوگ پریوں کا دیس کہتے ہیں، جس کا ایک نظارہ کسی حسین و جمیل دوشیزہ کی طرح پہلی نظر میں ہی قتل کر دیتا ہے۔ اس دوشیزہ کے سر پر قاتل پہاڑ تاج بنے پھیلا ہوا ہے← مزید پڑھیے