ان سے ملئے! یہ ہیں چند ”نمونے“۔ ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال ہوا ”کیا آپ ایک اچھے دوست ہیں؟“ میرا جواب تھا ”یہ تو پتہ نہیں، لیکن میرے دوست بہت اچھے ہیں“۔ بس جی! بعض دفعہ جواب دینے میں انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ ویسے مانتا ہوں کہ جو میری حرکتیں ہیں ان سے دوسرے تنگ آ سکتے ہیں۔ مگر میرے دوست نہیں آتے اور مجھے برداشت کرتے ہیں، نمونے جو ہوئے۔ بس جی! موجیں لگی ہوئی ہیں، گھومتے پھرتے ہیں اور غم چھپائے بیٹھے ہیں۔ ورنہ وقت بدلتا ہے اور لوگ بدلتے ہیں۔ کوئی جیتا ہے، کوئی مرتا ہے۔ سدا وقت ایک سا نہیں رہتا۔ دکھ ہر بندے کی زندگی← مزید پڑھیے
ملالہ یوسف زئی کی ڈائری کسی ساتویں جماعت کی گل مکئی نے نہیں بلکہ کسی منجھے لکھاری نے لکھی ہے۔ اس ڈائری میں تعلیم کے لئے آواز بلند کرنے اور طالبان مخالف کچھ ہے ہی نہیں بلکہ کہیں کہیں چند جملوں میں فوج پر تنقید ضرور ہے۔ یہ ڈائری کوئی انوکھا یا اچھوتا کام← مزید پڑھیے
ہماری اکثریت پسِ پردہ کام کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ سب کو ہیرو بننے کا شوق ہے۔ جو بھی تھوڑا بہت کام سمجھ جاتا ہے وہ پھر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ہماری ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کی مثال آپ کو عام زندگی سے لے کر انٹرنیٹ تک ہر جگہ ملے گی۔ عام زندگی میں اس کی سب سے بڑی مثال ہماری سیاسی جماعتیں ہیں اور انٹرنیٹ پر میں اس کی مثال مختلف ویب سائیٹس اور فورمز کے ممبران سے معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ آپ دیکھ لیں، اتنے ہمارے فورمز استعمال کرنے والے ممبر نہیں جتنے اب فورمز بن رہے ہیں۔ ذہانت کا ذخیرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بہت جگہوں پر بکھرا پڑا ہے۔ ہیرو بننے کے چکروں میں سب شروع سے پہیہ ایجاد کر رہے ہیں۔ کسی نے تھوڑا زیادہ کر لیا ہے اور کسی نے کم۔ اگر یہی کام ایک پلیٹ فارم پر ہوتا تو اب تک پہیہ تو کیا کئی قسم کی گاڑیاں بن جانی تھیں۔ جب ایک پلیٹ فارم سے کام زیادہ ہوتا تو پھر نیا منصوبہ بنایا جاتا اور نئے فورمز، لیکن ایسا کچھ نہیں۔ کبھی غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایک چھوٹی سی وضاحت کرتا جاؤں کہ سب کی بات نہیں کر رہا بلکہ اکثریت ایسی ہے۔ اگر مقصد اور منزل مختلف ہو پھر تو ظاہر ہے علیحدگی ہی بہتر ہے لیکن اگر مقصد ہو اچھا مسلمان بننے کی تو پھر ہر کوئی اپنی اپنی مسجد کیوں بناتا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ ہاں تو کبھی آپ نے غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو میری نظر میں اس کی چند وجوہات ہیں۔ ← مزید پڑھیے