صحرائے چولستان کے گھپ اندھیروں اور دہشت ناک ویرانوں میں… بھوکے پیاسے اور بھولے بھٹکے ہم چار کھوجی… کہیں کانٹے دار جھاڑیوں میں گھسنا پڑا تو کہیں ٹیلے پر چڑھ کر جائزہ لیا۔ کہیں گیڈر دم دبا کر بھاگے تو کہیں آوارہ کتوں نے راستہ روکا۔ مگر ہم بھی دھن کے پکے تھے اور راستے کے کتوں سے الجھنے کی بجائے اپنی منزل کی اور چلتے رہے۔ پچھل پیری تو نہ ملی لیکن ہمارے پیر بوجھل ضرور ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ واقعی ہار جاتے، عمران صاحب نے زنبیل کھولی اور عیاشی کرائی۔ پانی کا وہ ایک گھونٹ آب حیات تھا صاحب۔۔۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم وہاں کیسے پہنچے اور کیونکر بھٹکے؟ جی ہاں! آپ ٹھیک پہچانے کہ← مزید پڑھیے
یہ اعزاز صرف مجھے ہی بخشا گیا ہے۔ ابھی تک یہ کارنامہ صرف منظرباز نے ہی سرانجام دیا ہے۔ اچانک لمحہ بھر کے لئے یہ محل روشن ہوا، سفید سے سنہری ہوا۔۔۔ جب ایک دوست کو یہ تصویر دکھائی تو اس نے پہلی نظر میں کہا کہ کیا یہ بہاولپور کا نور محل ہے؟ نہیں جناب، درحقیقت یہ ڈیرہ نواب صاحب میں اُجڑ چکا صادق گڑھ محل ہے۔ دراصل کسی کے وہم میں بھی نہیں آ سکتا کہ یوں روشن اس محل کی تصویر بھی ہو سکتی ہے۔ اس محل کی بڑی تصویریں ملیں گی، مگر اس انوکھی تصویر جیسی شاید نہ ملے۔۔۔ اور کیا آپ یہ تصویر بنانے کی مزیدار خجل خواری اور بہت سارے پاپڑ بیلنے کی کہانی سننا چاہیں گے؟ ہوا کچھ یوں کہ← مزید پڑھیے
پنجابی جٹوں کا لڑکا سردار بوٹا سنگھ، جو ایک کتاب پڑھ کر اسلام سے متاثر ہوا اور مسلمان ہو کر کتاب کے مصنف کے نام پر اپنا نام ”عبید اللہ“ رکھا۔ اپنے ایک سندھی استاد سے محبت کی وجہ سے نام کے ساتھ سندھی لگایا۔ یوں عبید اللہ سندھی کہلایا۔ اک دنیا گھومنے والے تحریک آزادی ہند کے کارکن اور کئی کتابوں کے مصنف مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا مرقد دین پور میں ہے اور ہم وہاں فاتحہ خوانی کے لئے گئے۔۔۔ اس کے بعد سندھو ندی کے اُس پار جو ضلع راجن پور میں اُترے تو پہلے پہنچے ”سندھو رانی“ کے پہلو میں۔ ذرا غور کریں کیسا پیارا نام ہے ”انڈس کوئین“۔ سوا سو سال تک پانیوں پر تیرنے والی یہ رانی اچانک← مزید پڑھیے