بلاگ بنایا مگر کوئی پڑھنے والا نہیں۔ بھائی جی! اس میں کسی کا نہیں بلکہ آپ کا اپنا قصور ہے کیونکہ یہاں مانگے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ ایک ہاتھ سے تحریر لکھو اور دوسرے ہاتھ سے سوشل میڈیا پر اس کا ڈھول پیٹو۔ اگر بلاگ کی تشہیر نہیں کرنا چاہتے تو پھر شکایت بھی نہ کرو۔ خوبصورت تھیم اور تبصروں کے پیچھے بھاگنے، پیسٹیا یا سپیمر بننے اور سازشی کہانیاں لکھنے سے← مزید پڑھیے
جنگل میں الیکشن ہوئے اور بندر بادشاہ بن گیا۔ ایک دن شیر نے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا۔ ہرنی نے بادشاہ بندر کو فریاد کی کہ میرا بچہ چھڑائیے۔ بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں۔ بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا۔ پھر تھک ہار کر کہنے لگا، میں بہت دوڑا، اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں۔ ہمارے حکومتی بندروں کا حال بھی اس بندر جیسا ہے۔ جس سمت میں دوڑنا چاہئے اس طرف نہیں جائیں گے بلکہ فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری اور موبائل نیٹ ورک پر پابندی← مزید پڑھیے
راما جھیل سے واپس آ کر ہمت ہارے ہوئے تیس مار خاں سیاحوں کو بس توانائی بحال کرنے کی فکر تھی۔ کوئی دکانوں پر انرجی ڈرنک ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے حکیم کو فون کر کے مشورہ کر رہا تھا کہ کیا تھوڑی سی سلاجیت کھا لوں۔ لو کر لو گل، حد ہے یار← مزید پڑھیے