کسی بھی تخلیقی مواد مثلاً تحریر یا تصویر کے تخلیق ہونے کے ساتھ ہی اس پر کاپی رائیٹ خود بخود لاگو ہو جاتا ہے اور کسی رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی کا تخلیقی مواد بغیر اجازت استعمال کرنا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی اور اخلاقی جرم ہے۔ ہمارے ملک میں یہ جرم زوروشور سے ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر مواد چور پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم چوروں کا بہتر علاج یہی ہے کہ ان کی ویب سائیٹس، بلاگز اور اکاؤنٹس وغیرہ ہمیشہ کے لئے بند کروا دیں۔ جس کا طریقہ یہ← مزید پڑھیے
فیس بکی مورچہ بندی کریں کیونکہ اگر فرینڈ لسٹ بڑی ہے تو پھر حالات سنگین ہیں۔ ٹیگیا فیس بک کا خطرناک ترین جانور ہے اور شیئریا ہر چیز شیئر کرنے کو کارِثواب سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے نوٹیفکیشن کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایسے میں بندہ جنجال پورہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ مزید مختلف ایجنسیز اور گروہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر کام کر رہے ہیں، اس لئے کچھ بھی لائیک یا شیئر کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ کہیں ہم جانے انجانے میں کسی کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے۔← مزید پڑھیے
کیا گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟ جی بالکل کمائے جا سکتے ہیں اور بہت لوگ کما بھی رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سوشل نیٹ ورک سے بھی پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ فیس بک تو اس وقت سونے کی چڑیا ہے۔ اس تحریر میں آن لائن پیسے کمانے کا سارا کچاچٹھا کھولتے ہیں کہ کس کس طرح پیسے کمائے جا سکتے ہیں اور کہاں کہاں فراڈ ہو رہا ہے۔← مزید پڑھیے
ہمارا معاملہ بڑا عجب ہے۔ فیس بک پر بلاگنگ ہو رہی ہے اور بلاگ کو ٹویٹر بنا رکھا ہے۔ اردو وکی پیڈیا ویران پڑا ہے مگر لوگ بلاگ پر جنرل نالج کاپی پیسٹ کر رہے ہیں۔ قوموں کے فلسفے فیس بک پر زیرِ بحث ہیں تو فورمز پر چِٹ چیٹ ہو رہی ہے۔ یاد رہے بلاگ کی ایک تحریر، فیس بک کی سو شیئرنگ سے بہتر ہے← مزید پڑھیے
مستقبل میں شادیوں کی تقریبات بھی فیس بک پر ہوں گی۔ چلیں آپ کو فیس بک کی عجیب و غریب مخلوقات سے ملواتے ہیں۔ سب سے پہلے ملئے فیس بکی مفتی اعظم سے۔ اس کے بعد دیکھیں کہ فیس بکی ٹائیلٹی لڑکی کیسے غسل خانے میں کھڑی ہو کر موبائل سے تصاویر بناتی، بکیوں کو لٹاتی اور دلی تسکین پہنچاتی ہے۔ سب سے زیادہ لائیک اور کمنٹ اسے ہی ملتے ہیں، مگر کڑیانے بھی کسی سے کم نہیں۔ مزید فیس بکی منڈیانی، شاعر، ادیب، فلاسفر، مسکین، ملنگ، شیئریا، لائیکیا اور ٹیگیا جیسے جانور← مزید پڑھیے