صحرائے چولستان کے گھپ اندھیروں اور دہشت ناک ویرانوں میں… بھوکے پیاسے اور بھولے بھٹکے ہم چار کھوجی… کہیں کانٹے دار جھاڑیوں میں گھسنا پڑا تو کہیں ٹیلے پر چڑھ کر جائزہ لیا۔ کہیں گیڈر دم دبا کر بھاگے تو کہیں آوارہ کتوں نے راستہ روکا۔ مگر ہم بھی دھن کے پکے تھے اور راستے کے کتوں سے الجھنے کی بجائے اپنی منزل کی اور چلتے رہے۔ پچھل پیری تو نہ ملی لیکن ہمارے پیر بوجھل ضرور ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ واقعی ہار جاتے، عمران صاحب نے زنبیل کھولی اور عیاشی کرائی۔ پانی کا وہ ایک گھونٹ آب حیات تھا صاحب۔۔۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم وہاں کیسے پہنچے اور کیونکر بھٹکے؟ جی ہاں! آپ ٹھیک پہچانے کہ← مزید پڑھیے
محبت و امن کے سفیر مسجد سے نکلے تو اظہارِ یکجہتی کے لئے مندر پہنچے۔ اُدھر تم مسجد توڑو، اِدھر تم مندر توڑو۔ گویا تم دلوں کو توڑتے جاؤ، مگر ہم جوڑتے جائیں گے۔ کیونکہ ہمارا مذہب ”امن“ ہے، ہمارا پیغام محبت ہے۔ بھونگ مندر کے بعد رحیم یار خان کے پاس دریائے ہاکڑہ کے کنارے پتن منارہ گئے۔ کسی زمانے میں یہ ہندومت اور بدھ مت کا خاص مرکز ہوا کرتا تھا۔ مگر زمانہ بدلا، موسم بدلا اور دریائے ہاکڑہ خشک ہو گیا۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترسے اور ہاکڑہ تہذیب ریت کے ٹیلوں میں کہیں کھو گئی۔ پانی نہ صرف زندگی ہے بلکہ یہ تہذیبوں کا امین بھی ہے۔ پانی کی قدر کیجیئے صاحب۔ اور پھر امان گڑھ کی ہندو برادری← مزید پڑھیے
پاکستان کی تلاش میں نکل رہا ہوں۔ اس سفر میں لاہور، ملتان، بہاولپور، چولستان، رحیم یارخان اور سکھر کے راستے کراچی تک جانے کا ارادہ ہے۔ سفر کے دوران مختلف مقامات بھی دیکھوں گا، پھر سمندر کی بے مہار لہروں کو چھونے کے بعد اگر سب اچھا رہا تو کوئٹہ اور اس کے بعد پربت کی طرف سفر میں پشاور اور دیگر شمالی علاقہ جات۔ مزید اس سفر کے دوران انٹرنیٹی اور بلاگر دوستوں سے بھی ملاقات ہو گی۔← مزید پڑھیے