جوگی نے ایک میلے خوبصورت دیوی کو دیکھا تو اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اگر ایک طرف رانجھا عشق میں ناکامی کے بعد جوگی بنتا ہے تو دوسری طرف کوئی جوگی واپس پلٹا بھی کھا سکتا ہے۔ لہٰذا جوگیوں سے بچ کے رہنا۔۔۔ بہرحال جوگی کو دیوی سے محبت ہوئی اور جب اسے زیر کرنا چاہا تو دیوی اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے بھاگی اور ایک پہاڑ کی غار میں جا پناہ لی۔ اس تصویر کے درمیان میں آپ کو وہی ”تری کوٹہ“ یعنی تین چوٹیوں والا پہاڑ نظر آ رہا ہے۔ یہ تصویر میں نے سرحد کے پار بہت دوری سے بنائی ہے۔ پہاڑ دکھتا چہرہ، اس تصویر اور جوگی کی مکمل کہانی یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
جب سے باقاعدہ فوٹوگرافی شروع کی ہے، ان ساڑھے چار پانچ سال میں میری بنائی قدرتی مناظر کی کئی تصاویر اپنے اپنے لحاظ سے سراہی گئیں اور آپ لوگوں کی بے پناہ محبتوں نے انہیں پذیرائی بخشی۔ اسی طرح حال ہی میں یعنی وبا کے دنوں میں اپنے گھر کی چھت سے شمال کی اور نظر آنے والے پیرپنجال سلسلہ کے برف پوش پہاڑوں کی تصویر بنائی۔ اسے بھی آپ لوگوں نے ایسی پذیرائی بخشی کہ دل خوش ہو گیا۔ لہٰذا اس تصویر کا فل ورژن آپ کی محبتوں کے نام۔۔۔ ویسے جہاں یہ تصویر سراہی گئی وہیں پر بہت سارے لوگوں نے اس تصویر کے ساتھ کچھ ایسا کیا کہ← مزید پڑھیے
جوگی و نیم جوگی اور رانجھوں کی مہربانی کہ وہ تشریف لائے اور ہم نے ٹلہ جوگیاں کی مہم سرانجام دی۔ بتاتا چلوں کہ اپنا یار چناب تو سب سے پہلے، اس کے بعد ناران کا لالہ زار، نانگاپربت کا روپل چہرہ اور خاص طور پر ٹلہ جوگیاں کا میری سیاحت میں بہت بڑا کردار ہے۔ چناب کے بعد منظربازی کا اصل جوگ مجھے یہیں سے ملا تھا۔ ٹلہ جوگیاں ہزاروں برسوں کی تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ گروگورکھ ناتھ سے لے کر باباگرونانک تک، رانجھے سے لے کر علامہ اقبال تک، احمد شاہ ابدالی کے قتل عام سے لے کر تقسیمِ ہند پر اجڑنے تک، اور خزانوں کی تلاش سے لے کر غوری میزائل کے تجربے تک، بہت سی کڑیاں اور سلسلے ٹلہ جوگیاں سے جا ملتے ہیں۔ وارث شاہ کے رانجھے نے بھی یہیں پر کان چھیدوائے اور جوگی بنا اور ہم نے بھی← مزید پڑھیے
پہاڑی علاقے کے خوبصورت گھر اور سرسبز کھیت ہمارے سامنے تھے۔ وہ سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ تھا اور سامنے والی وادی مقبوضہ کشمیر کی تھی۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر دیو سائی کا بلند میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی جو بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں، آج انہیں ”تاتاریوں“ کو چوکی شہر پہنچ کر دال زہر مار کرنی پڑی۔ اس کے بعد ڈنہ بڑوھ میں چشمے کنارے آرام کر کے جب پہاڑ شاہ پہنچے تو وہاں نخرے کرتی صنفِ نازک← مزید پڑھیے
ظالموں کو بہت کہا کہ کسی نئی جگہ چلتے ہیں مگر لمبی چوڑی بحث کے بعد ”یک روزہ کشمیر گردی“ کا پروگرام بنا۔ کئی قصبوں اور دیہاتوں سے ہوتے ہوئے کشمیر کے شہر بھمبر میں داخل ہونا تھا۔ وہ اپریل کا ایک خوبصورت دن تھا۔ تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد کشمیر کی سرحد پر سڑک کنارے میز کرسی لگا کر بیٹھی، بیچاری قسم کی پولیس نے ہمارا قافلہ روکا۔ ادھر ”تنچی“ کروا کر منزل کی طرف چل دیئے۔ وادی کشمیر کے خوبصورت سماہنی سیکٹر میں دوستوں کے تماشے اور تصویر زنی← مزید پڑھیے