دریائے چناب کے کنارے پر۔۔۔ آسمان پر چھائی کہکشاں۔۔۔ اک جلتا الاؤ۔۔۔ اک بیری کا درخت۔۔۔ اور اس کے پاس درویش کی کُٹیا۔۔۔ ”اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے… سب مایا ہے“۔۔۔ سڑک چھوڑی، بند سے اترے اور عین کنارے پر چلتے چلتے گھاس پھوس سے بنی کُٹیا کے قریب پہنچے۔ اس دشت و بیابان میں ایک طرف رات شدید تاریک، خطرناک کیڑے مکوڑوں کا گڑھ، اور دوسری طرف چناب میں طغیانی بڑھ رہی تھی۔ پانی کناروں سے باہر نکلنے ہی والا تھا۔ مگر اک دیوانے کو اپنے مطلوبہ نظارے کی تصویر درکار تھی۔ اور پھر اسی دوران کنارہ ٹوٹ کر گرا، پانی تیزی سے باہر نکلا اور مجھے← مزید پڑھیے
اس اذیت ناک رات کے دو بج رہے تھے کہ جب میں کمرے میں گیا، کیمرہ وغیرہ اٹھایا اور واپس چھت پر پہنچا۔ تصویر میں دائیں ہاتھ والے گھر پر میں نے خود ٹارچ سے روشنی پھینکی۔ ویسے کسی کے گھر پر یوں روشنی مارنا میری نظر میں غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن یہ گھر نہیں بلکہ صرف مکان ہے۔ اکثر ایسے مکانوں کو دیکھ کر گنگناتا ہوں کہ ”تھیں جن کے دم سے رونقیں شہروں میں جا بسے … ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا“۔ خیر یہ تو بات تھی فوٹوگرافی، گھر اور مکان کی۔ جبکہ اصل کہانی اس شعر میں ہے ”کل کھیل میں ہم ہوں نہ ہوں … گردش میں تارے رہیں گے سدا“ جاتے جاتے آخر پر آپ سب کو بتانا بس یہ چاہتا ہوں کہ← مزید پڑھیے
اردو بلاگستان میں کوئی سورج کی طرح دھکتے ہوئے چڑھتے ہیں اور کوئی چاند بن کر چمکتے ہیں۔ سورج اور چاند کی وجہ سے ستارے نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو چاند کی خواہش ہے مگر مجھے ستارے پسند ہیں۔ قاری زمین کی مانند ہے۔ بے شک سورج، چاند اور ستارے خوبصورت لگتے ہیں مگر یہ سبھی زمین کے محتاج ہیں۔ اگر زمین نہ ہو تو ان کی کوئی وقعت نہیں۔← مزید پڑھیے
میں نے انگلی سے پوری زمین گھما دی۔ لگتا ہے آپ کو پتہ نہیں چلا۔ البتہ اس وقت کوئی آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوتا تو شاید بادلوں سے پتہ چل جاتا مگر آسمان پر غور کرنا تو ویسے ہی بڑے عرصے سے ہم پر حرام کر دیا گیا ہے۔ باقی جہاں رات تھی وہاں تاروں کی وجہ سے پتہ چل جاتا لیکن آج کل تارے کون دیکھتا ہے؟ وہ زمانے گئے جب عاشق تارے گنتے ہوئے راتیں← مزید پڑھیے