فوٹوگرافی کے حوالے سے ایک منفرد اعزاز ہمارے شہر جلالپورجٹاں کے پاس ہے۔ دراصل قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ جب شہرِ خوباں ارضِ جاناں میں ایک بچے کو فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ تب اُس نے 13روپے کا کیمرہ خریدا۔ وہ شوقیہ فوٹوگرافی کرتا اور اخبارات کو تصویریں بھیجتا۔ اللہ دا فقیر کہہ گیا ہے کہ ”بات پیسے کی نہیں، بات تو ذہنی سکون کی ہے“۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ سب کچھ لُٹ گیا اور غربت نے ناک میں دم کر دیا۔ فقیر کویت چلا گیا۔ ادھر سخت مزدوری کرتا اور روتا اور دعا کرتا کہ یااللہ فوٹوگرافی کے علاوہ کوئی کام مجھے آتا نہیں، بس تو ہی کوئی راستہ نکال۔ اور پھر رب نے ایسا راستہ نکالا کہ دنیا نے دیکھا← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
جاندار کی آنکھ ہو یا پھر کیمرے کی، دونوں ایک طرح ہی کام کرتی ہیں۔ جس طرح آنکھ کی پتلی پھیل یا سکڑ کر روشنی کی شدت کو قابو کرتے ہوئے پردۂ چشم پر عکس بناتی ہے، بالکل ایسے ہی کیمرے میں اپرچر کو بڑا یا چھوٹا کر کے مناسب عکس بنایا جاتا ہے۔ اپرچر کے ساتھ ساتھ شٹر اور آئی ایس او سے بھی روشنی کی شدت یعنی ایکسپوژر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ فوٹوگرافر بننے کے لئے ان چیزوں کی سمجھ بہت ضروری ہے۔ کیمرہ سیکھنے، اچھی فوٹوگرافی کرنے اور نئے لوگوں کی آسانی کے لئے اس تحریر میں← مزید پڑھیے