مستقبل میں شادیوں کی تقریبات بھی فیس بک پر ہوں گی۔ چلیں آپ کو فیس بک کی عجیب و غریب مخلوقات سے ملواتے ہیں۔ سب سے پہلے ملئے فیس بکی مفتی اعظم سے۔ اس کے بعد دیکھیں کہ فیس بکی ٹائیلٹی لڑکی کیسے غسل خانے میں کھڑی ہو کر موبائل سے تصاویر بناتی، بکیوں کو لٹاتی اور دلی تسکین پہنچاتی ہے۔ سب سے زیادہ لائیک اور کمنٹ اسے ہی ملتے ہیں، مگر کڑیانے بھی کسی سے کم نہیں۔ مزید فیس بکی منڈیانی، شاعر، ادیب، فلاسفر، مسکین، ملنگ، شیئریا، لائیکیا اور ٹیگیا جیسے جانور← مزید پڑھیے
ہماری اکثریت پسِ پردہ کام کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ سب کو ہیرو بننے کا شوق ہے۔ جو بھی تھوڑا بہت کام سمجھ جاتا ہے وہ پھر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ہماری ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کی مثال آپ کو عام زندگی سے لے کر انٹرنیٹ تک ہر جگہ ملے گی۔ عام زندگی میں اس کی سب سے بڑی مثال ہماری سیاسی جماعتیں ہیں اور انٹرنیٹ پر میں اس کی مثال مختلف ویب سائیٹس اور فورمز کے ممبران سے معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ آپ دیکھ لیں، اتنے ہمارے فورمز استعمال کرنے والے ممبر نہیں جتنے اب فورمز بن رہے ہیں۔ ذہانت کا ذخیرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بہت جگہوں پر بکھرا پڑا ہے۔ ہیرو بننے کے چکروں میں سب شروع سے پہیہ ایجاد کر رہے ہیں۔ کسی نے تھوڑا زیادہ کر لیا ہے اور کسی نے کم۔ اگر یہی کام ایک پلیٹ فارم پر ہوتا تو اب تک پہیہ تو کیا کئی قسم کی گاڑیاں بن جانی تھیں۔ جب ایک پلیٹ فارم سے کام زیادہ ہوتا تو پھر نیا منصوبہ بنایا جاتا اور نئے فورمز، لیکن ایسا کچھ نہیں۔ کبھی غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایک چھوٹی سی وضاحت کرتا جاؤں کہ سب کی بات نہیں کر رہا بلکہ اکثریت ایسی ہے۔ اگر مقصد اور منزل مختلف ہو پھر تو ظاہر ہے علیحدگی ہی بہتر ہے لیکن اگر مقصد ہو اچھا مسلمان بننے کی تو پھر ہر کوئی اپنی اپنی مسجد کیوں بناتا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ ہاں تو کبھی آپ نے غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو میری نظر میں اس کی چند وجوہات ہیں۔ ← مزید پڑھیے