پہلی دکان پر ہی دکاندار تین لوگوں کی اس ٹیم سے الجھ پڑا کیونکہ ٹیم نے ایسے سوال کیے جو خود دکاندار کو معلوم نہیں تھے جبکہ وہ خود کو سولرپینل کا بہت بڑا تاجر کہلوانا پسند کرتا تھا۔ خیر سائنس اور سولرسیل کے اصول کچھ اور کہتے تھے مگر مارکیٹ میں موجود سولرپینل پاکستانیوں کی ”اعلیٰ سوچ“ کی نشاندہی کرنے لگے← مزید پڑھیے
یہ سب ایک تحریر”موجودہ دور میں اردو زبان“ کے جواب میں لکھا ہے۔ لگتا ہے لکھاری کو کچھ باتوں کا علم نہیں تھا جبھی وہ کئی جگہوں پر غلطی کر گئے اور ساتھ ساتھ اردو کمپیوٹنگ کی تاریخ میں کافی کچھ چھوڑ گئے۔ تحریر میں کئی باتیں ایسی ہیں جو میرے خیال میں تھوڑی وضاحت طلب ہیں۔ خیر جتنا کچھ میرے علم میں ہے اس کے مطابق جواب اور وضاحت کر دیتا ہوں← مزید پڑھیے
پودے لگاتے بوڑھے کو دیکھ کر لوگوں نے کہا بابا جی جب تک یہ درخت پھل دار و سایہ دار ہونگے۔ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے پھر یہ تکلیف کاہے کو؟ کہا کہ میرے بزرگ درخت لگا کے اِس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر پھل میں نے کھایا۔ سائے میں بھی بیٹھا۔ اب یہ درخت میں اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لگا رہا ہوں← مزید پڑھیے
وہ منطق آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جو ہمارے لئے ترقی کا آسان ترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک دفعہ اردو کو وہ مقام دے کر تو دیکھو، جس کی یہ مستحق ہے، پھر دیکھنا یہ زبان کیسے دنوں میں عروج دیتی ہے۔ نوجوان بہت ذہین ہیں، ایک دفعہ بیگانی زبان کی پابندی اٹھاؤ تو سہی پھر دیکھنا یہ کیسے ملک و قوم کے دن بدلتے ہیں← مزید پڑھیے
اگر کوئی علمی مقاصد کے لئے انگریزی سیکھے پھر بھی بات کوئی ہے لیکن ہمارے ایک گروہ کو ”انگریزیا“ کی بیماری ہو چکی ہے۔ یہ بیمار اور غلام ذہن انگریزی کو اعلیٰ مرتبے کی زبان سمجھتے ہیں یعنی ”سٹیٹس سمبل“۔ یہ لوگ اس بیماری کی وجہ سے ”نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے“← مزید پڑھیے