پچھلی رات بالائی پہاڑوں پر برف پڑی تھی۔ چاروں اور خوبصورت نظارہ تھا۔ ہم دریائے نین سکھ(کنہار) کنارے بیٹھے تھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔۔۔ یہ ایک دہائی پہلے کی بات ہے۔ جب گرمیوں میں دوست احباب نے ناران کاغان کا پروگرام بنایا۔ گجرات سے گاڑی ناران کے لئے چلی مگر لالہ موسیٰ فروٹ منڈی میں جا ٹھہری۔ وہاں سے دو چار آموں کی پیٹیاں لادیں اور پھر چل دیئے۔ ہمارا خیال تھا کہ جیسے چناب میں آم ٹھنڈے کر کے، دریا کنارے بیٹھ کر مزے سے کھاتے ہیں، یونہی دریائے کنہار کنارے بیٹھ کر کھائیں گے۔ اور پھر ناران پہنچ کر دریا میں آم ٹھنڈے کیا کرنے تھے، ویسے ہی ٹھنڈ ماحول ہو چکا تھا، مگر ارمان بڑے گرم تھے۔ لہٰذا شہر سے باہر کنہار کنارے جا بیٹھے۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ اور پھر شیریں شیریں آم منہ میں پہنچا اور یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ بابا غالب کی روح تڑپ کر رہ گئی اور سب بے دلی سے کھاتے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ آخر ایک دوست بول پڑا کہ یار آم میٹھے ہیں، لاجواب ہیں، مگر کھانے کا مزہ نہیں آ رہا۔ یوں ایک مرتبہ پھر بابا غالب کی روح تڑپی تو ہمیں سمجھ آیا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔۔۔
یہ ایک پنجابی اکھان(کہاوت) ہے اور اس اکھان میں سیانے فرماتے ہیں کہ پھل اپنے موسم میں اور بات اپنے وقت اور موقع محل پر ہی اچھی لگتی ہے۔ دراصل آم گرم علاقے(موسم) کا پھل ہے۔ جب اسے ٹھنڈے موسم میں کھائیں تو وہ مزہ نہیں دے گا کہ جو گرمی میں دیتا ہے۔ ایسے ہی باقی پھلوں کا بھی حساب ہے۔ ویسے بھی فطرت نے جو چیز جس زمان و مکاں میں بنائی ہے سو فیصد درست بنائی ہے اور وہ وہیں کے لئے ہی بہترین ہے۔ ایویں فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کیا کریں، ورنہ فطرت اپنا توازن برقرار رکھنے کے لئے جوابی وار کرتی ہے اور اس کا وار اس قدر شدید ہوتا ہے کہ حضرتِ انسان اس کی تاب نہیں لا سکتا۔ لہٰذا فطرت کے مطابق چلنے میں ہی بہتری اور آسانی ہے۔ چیزیں اپنے اپنے مقام پر ہی اچھی لگتی ہیں۔
اس پنجابی اکھان کا دوسرا حصہ ہے کہ جب کسی بات کا موقع محل ہو تو تبھی بات کرنی چاہیئے۔ ورنہ بات کی کوئی قدر نہ ہو گی۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ جب لوہا گرم ہو تبھی ہتھوڑا مارنا چاہیئے۔ ٹھنڈے لوہے کو کُوٹ کر خود ہی ہلکان ہوں گے۔ سیکھنے کے حوالے سے جب قوم سرد خانے میں ٹھنڈی پڑی ہو، بحث میں سٹیل جیسی بضد اور مکالمے کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ ہو تو ایسی صورت میں منطق کے ہتھوڑے مارنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اور اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے مطلوبہ ماحول بنائیں یا پھر مناسب موسم کا انتظار کیجئے اور فی الحال مزاج لطیف کرنے کے لئے چاچا لطیف کے لطیفے ہی سنیں سنائیں۔ ویسے بھی آج کل سیاست جیسا اہم موضوع بھی کہ جس سے قوموں کا عروج و زوال وابستہ ہوتا ہے، ایسا نہایت سنجیدہ موضوع بھی مسخروں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے۔۔۔ خیر ابھی ہمارا موضوع یہ نہیں۔ ایک تو ملنگ موج میں آ جائے تو کیبورڈ بھی پھسلنے لگتا ہے اور بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ حالانکہ ابھی بات تو یہ کرنی تھی کہ کیا آپ نے پاکستانی مزدور فلم میں نورجہان کا گایا وہ گانا سنا بلکہ دیکھا ہے کہ جس میں انجمن آموں کے باغ میں دھول اڑاتی اور ناچ ناچ کر بتاتی ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر دیکھیں کہ اگلی ناچ ناچ کر خوشی سے بتا رہی ہے۔ بس جی! سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی تو۔۔۔ آہو۔
دل کے موسم سے یاد آیا: کہتے ہیں کہ دل کا موسم اچھا ہو تو ہر موسم اچھا لگتا ہے۔ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے مگر میرے نزدیک یہ بھی سچ ہے کہ باہر کا موسم دل کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے ہی دسمبر میں رومانوی شاعری تو نہیں ہوتی۔۔۔ اور تو اور یہاں تک نوٹ کیا ہے کہ تصویریں بھی موسم کے مطابق ہی زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ بے شک گرمی کے ستائے کو برف باری کی تصویر گدگدی کرتی ہے لیکن برف باری کی تصویر سردیوں میں جو اثر رکھتی ہے وہ گرمیوں میں نہیں۔ لہٰذا فوٹوگرافر حضرات بھی تصویریں شیئر کرتے ہوئے موسم کے مطابق چلنے کی کوشش کیا کریں اور ایویں راہ چلتے بے موسمی گدگدی نہ کیا کریں۔ بہرحال کہنا فقط اتنا ہے کہ جب باہر اور دل کا موسم سہانا ہو تو تبھی باغ میں امب چوپن جائیں۔ ورنہ جب موسم ہاتھ سے نکل گیا، وقت گزر گیا، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت تو پھر کیا فائدہ۔ پھر کیا ”عیدوں بعد تمبا پھونکنا“ ہے۔ البتہ باغ میں جاتے ہوئے احتیاط ضرور کیجئے گا۔ کیونکہ لوہا گرم دیکھ کر کوئی ہتھوڑا بھی مار سکتا ہے اور یہ سب فلموں میں ناچ ناچ کر گایا تو جا سکتا ہے مگر حقیقی زندگی میں ایسے گانوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
خیر دہائی پہلے والے ناران کاغان کے سفر کی یہ تصویر دیکھیں۔ جو کہ اس وقت کے تین میگاپکسل موبائل کیمرے سے بنی تھی۔ بٹہ کنڈی سے اوپر لالہ زار میں یہ تصویر بناتے ہوئے حاجی بطوطہ کمبل پوش بولے تو بھائی سلیم جہلمی نے اپنے تئیں کوزے میں سمندر بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ بندہ پوچھے! آج کل تو شرم سے چُلو بھر پانی میں کوئی ڈوبتا بھی نہیں اور تم چلے اتنے سے پانی میں پورے پربت کا عکس سمانے۔ خیر جو بھی ہو، بے شک چُلو بھر کیمرے میں ہی سہی مگر حاجی بطوطہ نے بروقت ایک زمان و مکاں کو قید ضرور کر دیا تھا۔
بہت اچھا لکھا ہے پڑھ کر مزا آگیا
آپ کا بہت بہت شکریہ
یہ میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ آپ کو تحریر اچھی لگی۔
ہمیشہ خوش آمدید۔۔۔ خوش رہیں، آباد رہیں۔۔۔