مئی 6, 2014 - ایم بلال ایم
6 تبصر ے

کچھ باتیں چناب کے کنارے

وہ جو ”چندر بھاگ“ سے ”چن آب“ ہوا تھا، ابھی میں اس دریائے چناب کے مغربی کنارے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا ہوں۔ یہ کشمیر کے کئی چشموں اور نالوں سے مل کر بنتا ہے۔ پورب کی ہوا (مشرق سے مغرب چلتی ہوا) بہت مزا دے رہی ہے۔ فضا صاف ہونے کی وجہ سے ”پربت“ کی طرف دور پہاڑ نظر آ رہے ہیں اور انہیں پہاڑوں پر برف قطرہ قطرہ پگھل رہی ہے۔ یہ قطرے مل کر نالے بنتے ہیں اور پھر کئی ایک چشموں کے ساتھ اتحاد کر کے دریا کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک دریا میرے قریب سے گزرتا ہوا منزل کی طرف رواں ہے۔ مشرق کی طرف سے آنے والی گرم ہوائیں دریا کے ٹھنڈے پانی سے اپنا وجود ٹھنڈا کر کے مجھ تک پہنچ رہی ہیں۔ کڑکتی دھوپ میں بھی ہوا اتنی ٹھنڈی ہے کہ سردی محسوس ہو رہی ہے۔ میرے ایک طرف تو دریا ہے جبکہ مغرب کی طرف تھوڑی دور گندم کی فصل کی کٹائی ہو رہی ہے۔

آج جس رخ کی ہوا چل رہی ہے، اس سے کسان بھی کچھ مزے میں ہیں۔ ویسے اتنی سخت گرمی میں کٹائی کرنا بھی انہیں کسانوں کا ہی کمال ہے، جو اپنے خون پسینے سے تپتی زمین کو سیراب کر کے مٹی سے رزق تلاش کرتے ہیں، پھر قدرت ان پر مہربان ہوتی ہے اور زمین کے سینے سے سونے جیسی بالیاں پیدا کر دیتی ہے۔ آج کل گندم کی کٹائی عروج پر ہے اور ایسی حالت میں بارش فصل کو شدید نقصان دیتی ہے۔ ان دنوں اگر کوئی ہیرے جواہرات کی بارش کا بھی کہے تو کسان غصہ کرے گا اور کہے گا کہ تو بارش اپنے پاس رکھ، کیونکہ کسان کے لئے گندم کی سنہری بالیاں سونے سے بھی قیمتی ہیں۔ ویسے بھی سونے سے گھر تو بھرا جا سکتا ہے مگر پیٹ اسی گندم سے بھرے تو سکون ملتا ہے۔

پیٹ بھرنے اور سکون سے یاد آیا کہ جب دوست احباب آئے روز سیروتفریح کی تصاویر لگاتے ہیں تو ہمارے کچھ ”انٹرنیٹی دوستوں“ کو لگتا ہے کہ ہم صرف پھرتے ہی رہتے ہیں اور کوئی کام دھندا نہیں کرتے۔ دیکھیں جی! ہم بھی کام کاج کرتے اور پیسے کماتے ہیں مگر جس مقصد کے لئے پیسے کمائے جاتے ہیں، ہم حتی المقدور اسے نہیں بھولتے۔ خیر ہر کسی کا زندگی کے متعلق اپنا اپنا فلسفہ ہے اور ہر کوئی اسے اپنے انداز سے گزارنا چاہتا ہے۔ کوئی اسے گزارنے کے چکر میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ زندگی انہیں گزار کر موت کے حوالے کر دیتی ہے۔ بہرحال اس معاملے میں میرا ماننا ہے کہ تم زندگی کو بھرپور گزارو، نہ کہ زندگی ہمیں اپنے طریقے سے دوڑاتی رہے۔ گوکہ کبھی کبھی زندگی کی مشکلات انسان پر حاوی ہونے لگتی ہیں مگر میرے خیال میں اللہ توکل بہت بڑی چیز ہے۔ اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بندہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ انسان پیسے کی دوڑ میں جینا ہی بھول جائے۔ گوکہ جینے کے لئے پیسا بھی ضروری ہے مگر پیسے سے زیادہ ضروری بھرپور جینا ہے۔ ہمارے دوست رضوان شاہ عرف مرشد اکثر کہا کرتے ہیں کہ ”پیسا سب کچھ نہیں مگر بہت کچھ ہے“۔ 🙂

آج دنیا کام کرتی ہے، پیسے کماتی ہے اور اکثریت کو پیسا اچھا بھی لگتا ہے مگر جس واسطے یہ کمایا جاتا ہے، وہ بھی یاد رکھنا چاہیئے۔ یہ دنیا رنگ رنگ کی ہے اور ہر کسی کے اندر کوئی نہ کوئی ہنر چھپا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنا اصل ہنر پیسے کمانے کی طرف لگائے تو نوٹ چھاپنے والی مشین بن سکتا ہے۔ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ آیا انسان مشین بننا چاہتا ہے یا انسان رہ کر زندگی جینا چاہتا ہے۔ دیکھا جائے تو انسان کی بنیادی ضرورتیں بہت کم ہیں مگر آج ہم نے بلاوجہ ضرورتیں بڑھا رکھی ہیں۔ سادی زندگی چھوڑ کر دکھاوے کی آگ میں جل رہے ہیں۔ علم و ہنر سے انسان کی پہچان کرنے کی بجائے ظاہری نمودونمائش کے قائل ہو چکے ہیں۔

آپس کی بات ہے کہ مجھے بھی پیسے کمانے کا شوق ہے اور کماتا بھی ہوں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں صرف یہی شوق پال رکھوں۔ زندگی میں اور بھی غم ہیں اک پیسے کے سوا۔ ویسے ہم انسان جہاں مرضی بھاگتے پھریں، درحقیقت ہم صرف سکون کے متلاشی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آج ہم غلط جگہ سکون تلاش کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو اپنی اپنی تلاش اور طریقہ کار کی بات ہے۔ اب پتہ نہیں یہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں یا کچھ اور ہے۔ ویسے پیسا واقعی ”مائع“ ہوتا ہے۔ ابھی میرے پاس خوبصورت چناب بہہ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ بہتا پانی پاک ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان اور جانور اس میں نہاتے ہیں۔ اگر یہی دریا رک جائے تو جوہڑ بن جائے گا۔ اس میں کیڑے مکوڑے اور غلاظت پیدا ہو گی۔ پانی گندا اور بدبودار ہو جائے گا۔ بس پیسا بھی اس پانی جیسا ہے کہ بہتا رہے تو اچھا ہے اور اگر رک گیا تو جوہڑ بنے گا۔ بدبو اٹھے گی اور کسی کام کا نہیں رہے گا۔

انسان کی زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھری پڑی ہے اور یہی اصل خوشیاں ہوتی ہیں۔ مگر ہم لوگ چھوٹی خوشیاں قربان کر کے ساری زندگی بڑی خوشیوں کی تلاش میں دھکے کھاتے رہتے ہیں اور جب بڑی خوشیاں بھی نہیں ملتیں تو آخر کار خالی ہاتھ رخصت ہو جاتے۔ آج جب دریا کنارے سکون کے لئے قدرت مجھ سے ایک لیٹر سے بھی کم پٹرول اور تھوڑے سا وقت مانگ رہی تھی تو پھر میں یہ چھوٹی سی خوشی کیوں نہ لیتا۔ یہ سودا مہنگا تو نہیں۔ آخر انسان زندگی میں سکون کے علاوہ اور چاہتا بھی کیا ہے؟ سکون کبھی مال و دولت سے نہیں ملتا۔ یہ انسان کے اندر چھپا ہوتا ہے اور قدرت ہر کسی کو اس کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کوئی ساری زندگی مال و دولت میں سکون ڈھونڈتا ڈھونڈتا ”بے سکون“ ہی مر جاتا ہے اور کوئی غریب ہوتے ہوئے بھی پُرسکون ہوتا ہے۔بس جی یہ تو اپنی اپنی تلاش کی بات ہے۔

خیر جہاں میں دریا کنارے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا ہوں، ادھر سے تھوڑی دور جھاڑی نما پودے ہیں اور جب ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکے آتے ہیں تو جھاڑی نما پودے عاجزی سے اپنے سر جھکا کر فطرت کے خوبصورت نظاروں کا مزا لیتے ہوئے گنگناتے ہیں۔ فطرت اور فطرت کے قریب رہنے والوں میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ جب یہ پودے گنگناتے ہیں تو میں لکھنا چھوڑ کر ان کو دیکھتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آنکھوں کو ٹھنڈک، دماغ کو تروتازگی اور روح کو نئی زندگی مل رہی ہے۔ ابھی جب میں نے نظر اٹھائی تو ایک سترنگی قسم کی تتلی اڑتی اڑتی آئی اور قریب ہی اُگے چھوٹے چھوٹے جنگلی پھولوں پر بیٹھ گئی۔ خیال آیا کہ چلو اس کی تصویر بناتے ہیں مگر پھر رہنے دیا کہ کیا پتہ یہ صنفِ نازک ہو اور تصویر بنانے پر برا مان جائے۔ 🙂

اِدھر سے مشرق کی طرف دیکھوں تو دریا کے درمیان ایک جزیرہ ہے، جہاں پر مویشی چر رہے ہیں۔ یہ صبح صبح دریا میں تیر کر اس جزیرے تک پہنچے ہیں۔ سارا دن ادھر ہی چریں گے، پیاس لگی تو دریا سے پانی پئیں گے اور پھر شام کو تیرتے ہوئے واپس اِس کنارے پر آئیں گے۔ اِدھر ان کا مالک انتظار کر رہا ہو گا۔ مالک ان کا دودھ دھوئے گا۔ یوں کئی خاندانوں کو خوراک ملے گی۔ رات آرام کریں گے، صبح پھر دودھ دھویا جائے گا اور یہ مویشی پھر اس جزیرے پر پہنچ جائیں گے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں سوچ رہا تھا کہ یہ منظر اور جگہ کتنی خوبصورت اور پرسکون ہے، چلو کسی دوست کو فون کر کے یہاں کے حالات بتاتا ہوں کہ دیکھو میں ایک حساب سے جنت میں بیٹھا ہوں۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کس دوست کو فون کروں کہ جو فطرت کے ایسے نظاروں کی قدر کرتا ہو اور ان سے لطف اندوز بھی ہوتا ہو۔ اسی اثناء میں محمد سلیم بھائی کی کال آ گئی۔ واہ سبحان اللہ۔ میرے مالک نے کہا کہ تو کیوں سوچتا ہے، میں خود اس کا بندوبست کیے دیتا ہوں۔ خیر محمد سلیم بھائی سے بات چیت ہوئی ہے اور انہیں یہاں کا ماحول بتایا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ ان سے بات کرنے کے بعد سوچا کہ چلو تحریر لکھتا ہوں تاکہ کچھ اور لوگوں کو ”شریک جنت“ کر لیا جائے۔

مجھ سے تھوڑی دور جو کسان گندم کاٹ رہے تھے، اُن کا کھانا آچکا ہے۔ اگر انہیں مجھ سے بات کرنی ہو تو کافی زور سے بولنا پڑے گا اسی لئے انہوں نے بولنے کی بجائے مجھے کھانے کا ہاتھ سے اشارہ کیا ہے کہ آ جاؤ اور تم بھی کھا لو۔ نہ جان نہ پہچان مگر پھر بھی انہوں نے صلح کی ہے۔ یہی ان کسانوں کی زندہ دلی، اپنا پن اور ان کے اندر کا سکون ہے، کیونکہ یہ مشینیں نہیں بلکہ انسان ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے قریب و جوار میں کوئی بھوکا رہ جائے۔ گوکہ ان کا کھانا کوئی فائیو سٹار ہوٹل کا نہیں مگر سوچنے کی بات ہے کہ مٹی کے ساتھ مٹی بنے رزق کی تلاش میں مصروف ان کسانوں کا کھانا فائیو سٹار کھانے سے بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ ان کے روکھے سوکھے کھانے میں خلوص و محبت کی خوشبو ہے، سکون کا ذائقہ ہے اور ایک ”زندگی“ ہے۔ بہرحال میں آتے ہوئے گھر سے ہلکا پھلکا کھانا ساتھ لایا تھا۔ جب انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی تو میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر احترام سے ان کا شکریہ ادا کیا اور موٹر سائیکل کے ساتھ لٹکایا ہوا کھانا کھول کر دور سے انہیں دیکھایا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ آرام سے کھانا کھاؤ، میں اپنا ساتھ لایا ہوں۔ یہ ساری بات چیت اشاروں کی زبان میں ہوئی مگر دریا کنارے خلوص و محبت کے دریا بہا گئی۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔

ظہر کا وقت ہو چکا ہے۔ دریا کے اُس پار کے کسی گاؤں سے اذان کی آواز آ رہی ہے۔ چلیں ابھی میں تھوڑی پیٹ پوجا کر لوں۔ پھر تھوڑا کام کاج کروں گا۔ وہ کیا ہے لیپ ٹاپ بھی ساتھ لایا ہوں کیونکہ ایسی پیاری اور پُر سکون جگہ پر دماغ بھی بڑا چلتا بلکہ دوڑتا ہے۔ خیر اس کے بعد جاتے ہوئے ان کسانوں کے پاس جا کر بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ گوکہ اب ان کا اور میرا کام مختلف ہو چکا ہے مگر درحقیقت میں بھی ایک کسان ہوں اور یہ میرے ”پیٹی بھائی“ ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے پاس جا کر شکریہ ادا کرنے، حال چال پوچھنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی چند باتیں اور خاص طور پر فصل کا پوچھنے پر ان کا دل کتنا خوش ہو گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 6 تبصرے برائے تحریر ”کچھ باتیں چناب کے کنارے

  1. بھائی بہت اچھی تحریر ہے آپ نے تو گاؤں کی یاد دلا دی کی کیسے کسان لوگ کھیتوں میں محنت کرکے کھیت کو اس قابل بناتے ہیں کہ اس میں کچھ اگایا جاسکے اور جو آپ نے کہا کہ انسان بڑی خوشی کے پانے کیلئے چھوٹی خوشیوں کو قربان کردیتا ہے بالکل صحیح اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنوں کی خوشی کیلئے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا گلا کھونٹتا رہتا ہے۔
    اور اس بات کا احساس وہی کرسکتا ہے جو اپنے گھر بار ملک سے دور پردیس کی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔

  2. نہ جان نہ پہچان مگر پھر بھی انہوں نے صلح کی ہے۔ یہی ان کسانوں کی زندہ دلی، اپنا پن اور ان کے اندر کا سکون ہے، کیونکہ یہ مشینیں نہیں بلکہ انسان ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے قریب و جوار میں کوئی بھوکا رہ جائے۔
    زبردست۔۔۔

  3. نہ جان نہ پہچان مگر پھر بھی انہوں نے صلح کی ہے۔ یہی ان کسانوں کی زندہ دلی، اپنا پن اور ان کے اندر کا سکون ہے، کیونکہ یہ مشینیں نہیں بلکہ انسان ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے قریب و جوار میں کوئی بھوکا رہ جائے۔
    زبردست

  4. محترم بلال بھائی، سلام عیلکم و رحمۃ اللہ و برکات۔
    کچھ ہاتیں چناب کنارے ۔ پڑھا اور بیس سال پیچھے چل گیا ، میں سمجھا تھا، کہ لوک کہانیوں کے دیس کی کوئی پرانی کہانی ہوگی، لیکن پڑھ کر اندازہ ہوا، محبت اخلاص، پیار محبت جذبوں کا نام ہے۔ اور یہ جذبہ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ موجودہ حالات میں اسطرح کی ٹھندی میٹھی تحریر انساں کو تپتنی اور سسکتی زندگی کو چند لمحوں کے لئے بہت دور لے جاتی ہے۔ دریا کنارے کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر وہاں کے ماحول کو الفاط میں اتنی سادگی اور ایمانداری سے بیان کرنا ہی اصل حسن ہے تحریر کا۔۔ مضمون پڑھتے وقت یقین کریں میں ایسا محسوس کر رہا تھا۔ کہ میں بھی کہیں قریب ہی موجود ہوں۔ اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ۔ کا گیت یاد آگیا۔ پیپل دی چھائں ہوے، واڑں دی منجی ہوے۔ سر ہیٹھاں بانھ ہوے۔ آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں سادہ پیار، سادہ روٹی، سادہ ورثہ موجود ہے۔۔ اور اسکی قدر ہم کراچی میں بسنے والوں کو اس وقت ہوتی ہے ۔ جب اپنی کشتیاں چناب میں ڈبو کر بہتر روزگار، بچوں کی بہتر تعلیم ، کی تلاش میں بیس سال پہلے یہاں آ بسے تھے۔۔
    اس موقعے پر اپنے ایک بزرگ کی بات یاد آگئی۔ جو آھ بہت عرصہ بعد یاد آگئی ” پتر پیران دی مٹی نہ چھڈیا جے، اک واری جنے چھڈی اوہ فیر پیر نہیں جما سکدا”
    وسلام ٌ خیر اندیش: فاروق سعید قریشی

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *