پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر!
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر!
معروف جہاں گرد رانا عثمان اکثر کہا کرتا ”یار منظرباز! ٹلہ جوگیاں جانا ہے“۔ کئی دفعہ پروگرام بنا مگر نہ جا سکے۔
میں نے کئی دفعہ فرخ شہزاد کو کہا ”یار جی! میرا دل کرتا ہے کہ سارے جوگیوں کو ٹلہ جوگیاں اکٹھا کروں“۔ مگر جوگیوں کی مصروفیات ہی ایسی ہوتیں کہ پروگرام نہ بن پاتا۔
آخر کار موقع بھی بنا اور دستور بھی۔ جوگی و نیم جوگی اور رانجھوں کی مہربانی کہ وہ تشریف لائے اور ہم نے ٹلہ جوگیاں کی مہم سرانجام دی۔ جاناآنا 12کلومیٹر پیدل ٹریک جس میں کل تقریباً 600میٹر بلندی پکڑی۔ گویا اتنا سیدھا معاملہ بھی نہیں تھا مگر رانجھے(منظرباز) نے جوگیوں کو اس معاملے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ بس ہلکی پھلکی چہل قدمی کا کہہ کر پتہ نہیں کونسا بدلا لیا۔ 😉 ویسے اگر گاڑی پر جانا اور پیدل ٹریک کرنا ہو تو پھر جی ٹی روڈ پر دینہ شہر سے چلیں اور ٹلہ جوگیاں کی بیس پر کسی بھی گاؤں مثلاً چمیارہ، ڈھوک صوبہ، ٹانگری ڈھیرو یا پھر بھیٹ وغیرہ پہنچیں۔ گاڑی اُدھر کھڑی کریں اور پھر ”اللہ تیری یاری“۔۔۔ پانی کی وافر مقدار اور مقامی بطور گائیڈ ساتھ لے جانا نہ بھولیئے گا، ورنہ ٹلے کی بھول بھلیاں زندگی کی بھول بھلیوں سے مل کر سب کچھ بھلا دیں گی۔ یہ تو ہوا ٹلے جانے کا پہلا طریقہ جبکہ دوسرا اور زیادہ تر سیاحوں کا طریقہ واردات بائیک ہے۔ یعنی موٹرسائیکل پر دینہ سے روہتاس، پھر دو تین کلومیٹر بعد بائیں ہاتھ ٹلہ جوگیاں کا جیپ ٹریک نکلتا ہے۔ جو کہ 22کلومیٹر اور سخت پتھریلا ٹریک ہے۔ بس اس ٹریک پر بمبوکاٹ چڑھ دوڑائیں اور پھر ”اللہ تیری یاری“۔۔۔
اس دفعہ ہمارا پیدل ٹریک کا ارادہ تھا۔ ویسے میں پہلے بھی کئی دفعہ موٹرسائیکل پر ٹلہ جوگیاں جا چکا ہوں۔ اکثر مہم جوئی تنہا اور خفیہ ہی رکھی۔ وہ کیا ہے کہ ”جوگ اور شوخ“ ایک ساتھ متوازی تو شاید چل جائیں مگر آپس میں مل نہیں سکتے۔ بتاتا چلوں کہ اپنا یار چناب تو سب سے پہلے، اس کے بعد ناران کا لالہ زار، نانگاپربت کا روپل چہرہ اور خاص طور پر ٹلہ جوگیاں کا میری سیاحت میں بہت بڑا کردار ہے۔ چناب کے بعد منظربازی کا اصل جوگ مجھے یہیں سے ملا تھا۔ اس بات کی تفصیل پھر سہی۔ ابھی کے لئے اتنا ہی کہ شاید اسی جوگ کی وجہ سے میں چاہتا تھا کہ ایک دفعہ باذوق لوگوں کے ساتھ بھی ٹلہ جاؤں۔ اور پھر بروز اتوار 18نومبر2018ء کو جوگی مسافرِ شب، جوگی رانا، فوڈ گرو اور دیگر رانجھے(دلپذیر، عمر، خرم، فرخ اور منظرباز) ٹلہ جوگیاں پہنچے۔ اچانک سے سکندرسروری کی موٹرسائیکل پر آمد ہوئی۔اس کے علاوہ ہمارے ساتھ دو مقامی شکیل اور شانی تھے۔ شکیل نے حفاظت کے لئے ایک عدد کلہاڑی اور دو عدد عجیب و غریب قسم کی مخلوق یعنی سوزی اور شنٹو بھی ساتھ لئے۔ دیگر اشتراک میں فوڈگرو کے لذیذ کباب اور فرخ کا ڈرون شامل تھا۔ مقامیوں سے رابطے کے لئے پی ایچ ڈی سکالر محمد کاشف علی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
”ٹِلہ“ پنجابی میں ٹیلے کو کہتے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں یعنی جوگیوں کا ٹیلا… جوگیوں کی پہاڑی۔۔۔ مختلف حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میں یہ ”ٹلہ گورکھ ناتھ“ اور ”ٹلہ بالناتھ“ بھی کہلاتا رہا ہے۔ گورکھ ناتھ اور بالناتھ دونوں مختلف زمانوں میں جوگیوں کے گرو رہے۔ ٹلہ جوگیاں سطح سمندر سے تقریباً 960میٹر بلند ہے۔ چونکہ یہ کوئی خاص بلندی نہیں اس لئے ٹلے کا موسم بھی اردگرد کے میدانی علاقوں جیسا ہی ہوتا ہے… سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم۔ لیکن کچھ بلندی، کچھ پہاڑی اور کچھ جنگلات ہونے کی وجہ سے ایک پُرفضا مقام ہے۔۔۔ ٹلے کی چوٹی پر عدم توجہ کی شکار قدیم خانقاہ کے خستہ کھنڈرات ہیں۔ کسی زمانے میں یہ جوگیوں اور ہندؤوں کا مذہبی مقام تھا… اور اب ہمارے لئے سیاحتی مقام ہے… جبکہ محکمہ آثارِقدیمہ کے لئے شرم کا مقام… اور… اردگرد کا علاقہ وطنِ عزیز کے لئے ”دفاعی مقام“۔ وہ کیا ہے کہ اپریل1998ء میں اسی علاقے سے پہلا غوری میزائل آزمائشی طور پر داغا گیا تھا۔
ٹلہ جوگیاں ہزاروں برسوں کی تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ گروگورکھ ناتھ سے لے کر باباگرونانک تک… رانجھے سے لے کر وارث شاہ تک… حتی کہ بھرتری ہری کی وجہ سے علامہ اقبال تک… احمد شاہ ابدالی کے قتل عام سے لے کر تقسیمِ ہند پر اجڑنے تک… اور خزانوں کی تلاش سے لے کر غوری میزائل کے تجربے تک… بہت سی کڑیاں اور سلسلے ٹلہ جوگیاں سے جا ملتے ہیں۔۔۔
ٹلہ جوگیاں کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟ اس متعلق حتمی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ محقق و سیاح سلمان رشید کے مطابق ”ٹلہ جوگیاں کی خانقاہ کم از کم پہلی صدی قبل مسیح کی ہے“۔ ماضی بعید میں کئی اہم ہستیاں ٹِلہ جوگیاں آئیں۔ کوئی ٹلے کو آباد کرنے اور کوئی برباد کرنے۔ تباہی مچانے والوں میں اٹھارہویں صدی میں جوگیوں کا قتلِ عام کرنے والا افغانی بادشاہ احمد شاہ ابدالی قابلِ ذکر ہے… اور… وہ پاگل بھی قابلِ ذکر ہیں، جو آج تک خزانے کی تلاش میں قدیم عمارتوں کو تباہ کرتے آئے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں بھی خزانے کے لالچیوں کے ہاتھوں برباد ہوا ہے۔ بندہ پوچھے کہ پاگلو! جوگی تو دنیا تیاگ کر یہاں آئے تھے۔ بھلا انہیں خزانوں سے کیا لینا دینا۔۔۔
پہلی صدی قبل مسیح میں سیالکوٹ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن، جسے سوتیلی ماں کی طرف سے لگائے گئے بدکاری کے جھوٹے الزام کی پاداش میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر شہر سے باہر کنویں میں ڈال دیا گیا اور اُدھر سے گروگورکھ ناتھ کا گزر ہوا تو انہوں نے پورن کو کنویں سے نکالا۔ یہ ساری کہانی تھوڑی لمبی ہے، فی الحال اتنا ہی کہ گرو کے ساتھ پورن ٹلہ جوگیاں پہنچا اور ”کن پھٹا“ جوگی بنا… یعنی ایسا جوگی جو کان چھیدوا کر ان میں بڑی بڑی بالیاں پہنتا ہے۔ گروگورکھ ناتھ کو ہی ”کن پھٹے جوگی“ فرقہ کا بانی مانا جاتا ہے… اور کن پھٹے جوگیوں کا سلسلہ ٹلہ جوگیاں سے جا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلی صدی قبل مسیح میں ہی اجین کا راجہ بھرتری ہری اپنی سلطنت اپنے بھائی وکرم جیت کے حوالے کر کے خود جوگیوں کے راستے پر نکل پڑا اور ٹلہ جوگیاں پہنچا۔ سنسکرت کا عظیم شاعر، نجومی اور گرائمر کا ماہر بنا۔ یہ وہی بھرتری ہری ہے جس کے ایک شعر کے ترجمے سے علامہ محمد اقبالؒ نے بالِ جبریل کا آغاز کیا تھا۔ بھرتری ہری کے اس شعر کا ترجمہ تحریر کے شروع میں بھی لکھا ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر!
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر!
ویسے گروگورکھ ناتھ، پورن اور بھرتری ہری تو زیادہ پرانے زمانے کے ہیں۔ جبکہ ان کے بہت بعد بھی کئی اہم ہستیاں ٹلہ جوگیاں پہنچیں۔ جیسے اپریل1469ء کو شہر ننکانہ صاحب میں پیدا ہونے اور ستمبر1539ء کو کرتارپور میں وفات پانے والے سکھ مت کے بانی بابا گرونانک بھی ٹلہ جوگیاں آئے تھے اور یہاں چلہ کشی کی۔ کہا جاتا ہے کہ بابا گرونانک کو مسلمان اپنا بزرگ (پیر) اور سکھ مذہب کے لوگ اپنا گورو مانتے تھے۔ ٹلہ جوگیاں پر جہاں باباگرونانک نے چلہ کشی کی وہاں سکھوں نے اپنے دورِ حکومت میں گنبد والی چھوٹی سی عمارت بنا دی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مزار کی عمارت بناوٹ کے لحاظ سے ٹلہ جوگیاں کی اسی گنبد والی عمارت سے مشابہت رکھتی ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کے باپ اکبر نے بھی ٹلہ جوگیاں کی سیر کی تھی اور خود جہانگیر بھی کشمیر جاتے ہوئے اکثر ٹلہ جوگیاں قیام کیا کرتا تھا۔
عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے اپنی مشہورِزمانہ تصنیف ”ہیر وارث شاہ“ میں ٹلہ جوگیاں کا خصوصی ذکر کیا ہے، انہیں کے مطابق رومانوی داستان ”ہیر رانجھا“ والا رانجھا ٹلہ جوگیاں گیا تھا۔ ٹلے پر ہی رانجھے نے جوگیوں کی تعلیمات حاصل کیں… کان چھیدوائے، بالے پہنے اور جوگی بنا۔ ہم نے ٹلے پر کان چھیدوائے نہ بالے پہنے۔ کیونکہ ہم دوسری قسم کے جوگی ہیں۔ ہم تو منظرباز ہیں۔ لہٰذا ہم نے غروبِ آفتاب کے منظر کا خوب نظارہ و مشاہدہ کیا اور وہ کیا لاجواب منظر تھا۔
یہ تو صرف ٹریلر تھا۔ اصل کہانی تو ابھی باقی ہے دوست۔۔۔
————-
یہ تصویر جوگیوں کے سوکھے تالاب میں ”نہانے“ کے بعد بنائی تھی۔ تصویر میں دائیں سے بائیں:- خرم ریاض، محمد دلپذیر، فرخ شہزاد، محمد احسن(مسافرِشب)، ایم بلال ایم(منظرباز)، رانا عثمان، محسن رضا(فوڈگرو) اور عمر منج۔
ماشاء اللہ بہٹ خوب