جب ہم پہنچے تو دروازے پر ہی گفٹ یونیورسٹی کے مینیجر انڈسٹری لنکجز ایڈووکیٹ ذیشان رشید صاحب نے خوش آمدید کہا اور طلبہ نے پھول پیش کیے۔ گویا احوال زبردست رہا جبکہ حال کے متعلق کہوں تو کافی نازک صورتحال تھی 🙂 وہ یوں کہ کئی اداروں سے مختلف شعبہ جات کے ماہرین آئے ہوئے تھے اور مجھے ان کے سامنے ٹریول اینڈ ٹورزم فوٹوگرافی پر گفتگو کرنی تھی۔ سیمینار ہال میں طلبہ کے ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ماہرِ نفسیات جناب ڈاکٹر آسر اجمل، گجرات یونیورسٹی سے آئی ٹی کے استاد عثمان ضیا، ایسپائر کالج گوجرانوالہ سے انگریزی کے استاد عمران احسان الٰہی مغل، فزکس کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ایم تنویر ملک صاحب اور سونے پر سہاگہ سبھی بہترین فوٹوگرافر اور مزید سہاگے پر سہاگہ یہ کہ واجد ڈھرکی والا جیسا آرٹسٹ، جو زبردست سیاح اور فوٹوگرافر ہونے کے ساتھ ساتھ کمال کے مصور بھی ہیں اور جن کے ٹرک آرٹ کا بہترین نمونہ اسلام آباد ایئرپورٹ کی دیواروں پر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ میں نے تو پہنچتے ہی ذیشان صاحب کو کہا کہ سوچ رہا ہوں آج پریزنٹیشن کے دوران میرے منہ سے انگریزی کا کوئی لفظ غلط نکلنے نہ پائے کیونکہ انگریزی کا استاد سامنے بیٹھا ہو گا۔ ایسے ہی کیمرہ لینز کے عدسوں یا روشنی کے متعلق گڑبڑ کی تو فزکس والا پکڑ لے گا۔ کیمرے کے سافٹ ویئر کے متعلق اونچ نیچ ہو گئی تو آئی ٹی والا بھی موجود ہے اور اگر سب سے بچ کر نکل بھی گیا تو آرٹسٹ سے کیسے بچ پاؤں گا 🙂 ہائے ظالم! مجھے کن ماہرین اور استادوں کے حضور کھڑا کر دیا۔ اوپر سے طلبہ کی اکثریت بھی ماس کام کی۔ ایتھے رکھ سو۔۔۔
بہرحال رب کا نام لے کر آپ کا منظرباز میدان میں کود گیا۔ ویسے ہمارے گودنے سے پہلے تلاوت ہوئی، قومی ترانہ پڑھا گیا، محمد علی صدپارہ صاحب کے لئے دعائے مغفرت کی گئی، ذیشان صاحب نے ”ویلکم سپیچ“ فرمائی اور عثمان ضیا صاحب نے ”فوٹوگرافی بطور پیشہ“ پر مختصر اظہارِ خیال کیا۔ اور پھر وقت ہوا ہمارا اور ہم نے سلام دعا کے بعد اپنا تعارف کراتے ہی سٹارٹر لگایا کہ آج کے دور میں تقریباً ہر بندہ ہی تصویریں بناتا ہے۔ یوں تکنیکی نکتہ نظر سے سبھی فوٹوگرافر ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ یا خرابی ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ تو ایک اچھی بات ہے۔ البتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ کیمرہ ہاتھ میں پکڑ کر اپنی تصویر بنوا لینے یا کیمرے کا مالک ہونے سے کوئی فوٹوگرافر نہیں بنتا بلکہ فوٹوگرافی کی سمجھ اور خاص طور پر کام یعنی بندے کی بنائی اچھی تصویریں اسے فوٹوگرافر بناتی ہیں۔۔۔
سٹارٹر کے بعد پہلا گیئر لگایا کہ آپ فوٹوگراف کہیں یا ”فاٹگ راف“ یعنی کوئی بھی تلفظ بولیں۔ بریٹش ایکسنٹ اپنائیں یا دیسی سٹائل۔ اس سے کوئی فرق پڑے نہ پڑے، لیکن اس سے ضرور فرق پڑتا ہے کہ آپ نے تصویر بنائی کیسی ہے؟ ایسے ہی آپ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر تصویر بنائیں یا پھر ٹیڑھے میڑھے ہو کر۔ اسے کوئی نہیں دیکھتا، لیکن اسے سب دیکھتے ہیں کہ آپ کی بنائی تصویر ٹیڑھی میڑھی تو نہیں۔۔۔ اہم یہ نہیں کہ آپ کے پاس مہنگا کیمرہ ہے یا سستا یا پھر سمارٹ فون، البتہ فرق تو اس سے پڑتا ہے کہ کیمرہ کس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کیا ہے کہ کسی بری تصویر بننے کے پیچھے کیمرے کی خرابی ہو نہ ہو لیکن اس ”ڈھکن“ پر سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جس کی آنکھ کیمرے کے ویوفائنڈر پر لگی ہوئی تھی۔ میں اکثر مثال دیتا ہوں کہ گاڑی پہاڑ نہیں چڑھتی بلکہ اچھا ڈرائیور اسے پہاڑ پر لے جاتا ہے۔ ایسے ہی اچھی تصویر کیمرہ نہیں بناتا بلکہ ایک قابل فوٹوگرافر کیمرے سے اچھی تصویر بناتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر آپ کو ڈرائیونگ ہی نہیں آتی تو پھر چاہے آپ کے پاس مہران ہو یا بی ایم ڈبلیو، کچھ بھی نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ڈرائیونگ آتی ہو تو پھر عام سی گاڑی پر بھی سفر طے کر لیں گے۔ ایسے ہی اگر فوٹوگرافی نہ آتی ہو تو پھر آپ کے پاس چاہے جتنا مرضی مہنگا اور اچھا کیمرہ ہو، کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ اور اگر فوٹوگرافی کی اچھی سمجھ ہو تو پھر عام سے کیمرے سے بھی شہکار تصویریں بنا لیں گے۔ لہٰذا کیمرہ گیئرز کی نسبت اپنا زیادہ سے زیادہ فوکس فوٹوگرافی سیکھنے پر رکھیں۔ اور ابھی میں جہاں بھی لفظ کیمرہ بولوں گا تو اس کا مطلب صرف ڈی ایس ایل آر نہیں بلکہ ہر قسم کا جدید کیمرہ ہو گا۔ اس میں سمارٹ فون کا کیمرہ بھی شامل ہو گا۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے گاڑی اپنی کروز سپیڈ پکڑ چکی تھی اور پھر ہم جم کر چلنے لگے۔ یوں مزید ان موضوعات پر بات ہوئی کہ ٹریول اینڈ ٹورزم فوٹوگرافی آخر ہوتی کیا ہے اور اس کی اقسام کون کون سی ہیں؟ تصویریں تو سبھی سیاح بناتے ہیں لیکن پھر آخر وہ کیا چیز ہے کہ جو ایک ٹریول فوٹوگرافر کو دیگر سیاحوں سے ممتاز کرتی ہے؟ اور جس کی بدولت آج ٹورزم انڈسٹری کا سب سے اہم کردار ٹریول فوٹوگرافر بن چکا ہے۔۔۔ اس کے بعد مختصر بات اس پر ہوئی کہ کیا ٹریول فوٹوگرافی کے لئے بہت زیادہ ٹریول کرنا ضروری ہے؟۔۔۔ اور پھر ٹریول فوٹوگرافرز کے لئے کچھ ٹپس اور ضروری سمارٹ فون ایپس کا بتا کر ہم نے حاضرین کو دھمکی لگائی کہ ”ابھی نوٹ کیا ہے کہ کچھ لوگ متوجہ نہیں۔ برائے مہربانی بات پر فوکس کریں اور دماغ کے شٹر کھولیں۔ ورنہ شوٹ کر دوں گا“۔ اس پر جیسے ہی کان کھڑے ہوئے تو راز کھول دیا کہ جناب یہ کوئی دھمکی نہیں تھی بلکہ غور کریں تو یہی فوٹوگرافی ہے۔ مثلاً اپنے اردگرد چیزوں کو ”نوٹ“ کریں اور ”توجہ“ دیں۔ سبجیکٹ پر ”فوکس“ کریں اور کیمرہ ”شٹر“ دبا دیں۔ لیں جی ہو گیا ”شوٹ“۔۔۔ خیر اس کے بعد گاڑی نے فوٹوگرافی کی بنیادی ٹرائی اینگلز کے گرد چکر لگایا۔ ساتھ ساتھ سلائیڈز چل رہی تھیں اور بعض جگہوں پر اینیمیشن کے ذریعے بات واضح کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ کیمرے کی چیر پھاڑ کر کے سینسر، پکسل، آئی ایس او، اور خاص طور پر شٹر اور اپرچر کے متعلق سمجھانے کے ساتھ ساتھ روشنی، زاویہ اور فوکس وغیرہ کے متعلق بتایا۔ ہال میں موجود جس نے ذرہ سی بھی توجہ دی ہو گی، یقیناً وہ فوٹوگرافی کی بنیادیں سمجھ گیا ہو گا اور اب اس کی اپنی دوڑ ہے۔ یعنی اس کی اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر ہے کہ وہ کیسی فوٹوگرافی کرے گا۔
صرف پینتالیس منٹس میں، نہایت آسان الفاظ، سادہ زبان اور سلائیڈز کی مدد سے فوٹوگرافی اور ٹریول اینڈ ٹورزم فوٹوگرافی کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ اور پھر ہم چلے فوٹوگرافی کے سب سے مزیدار شعبے کی طرف یعنی ”پوسٹ پراسسنگ اور ایڈیٹنگ“۔ سلائیڈز کی مدد سے بتانے کی کوشش کی کہ فوٹوگرافی میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔ بتایا کہ آج کا جدید کیمرہ بھی انسانی آنکھ کے جیسی تصویر نہیں بنا سکتا۔ یوں ایک کیمرے کی بنائی تصویر ہوتی ہے اور ایک وہ حقیقی منظر کہ جو تصویر بناتے ہوئے فوٹوگرافر کی اپنی آنکھ نے دیکھا ہوتا ہے۔ بس پھر تصویر بنانے کے بعد کسی سافٹ ویئر کی مدد سے اس کی نوک پلک سنوار کر یعنی روشنی اور رنگوں وغیرہ کی ایڈجسمنٹ کر کے تصویر کو حقیقی منظر کے قریب لانے کے عمل کو پوسٹ پراسسنگ کہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تصویر کو حقیقت سے دور کرنے کا عمل ایڈیٹنگ کہلاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایڈیٹنگ سے مراد تصویر میں کچھ ایسا شامل کر دینا کہ جو تصویر بنانے کے وقت فریم میں موجود ہی نہیں تھا۔
آخر پر اپنی بنائی چند تصویریں دکھائیں۔ ہر تصویر کے تکنیکی پہلوؤں پر مختصر بات کی اور تصویر کے پسِ منظر کی وہ محبت بھری داستانیں سنائیں کہ جو قدرت نے تخلیق کر رکھی ہیں۔۔۔ یوں کُل ملا کر یعنی میدان میں کودنے کے بعد سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں محبتوں کا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔ آخر پر سوال و جواب کا دور چلا اور ماشاء اللہ زبردست سوال کیے گئے۔۔۔ ختم شد۔۔۔ بولے تو بچوں بڑوں کو کچھ باتیں بتا کر اور محبتیں سمیٹ کر منظرباز گھر کو لوٹا۔۔۔
اس سب کے لئے سیمینار میں تشریف لانے والے اساتذہ اور طلبہ، ”گفٹ یونیورسٹی“ گوجرانولہ، فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسیز کے ڈین جناب ڈاکٹر آسر اجمل اور خاص طور پر مینیجر انڈسٹری لنکجز جناب ذیشان رشید کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اتنا خوبصورت سیمینار منعقد کیا۔ امید کرتا ہوں کہ اس سیمینار کی بدولت طلبہ نے بھی کچھ نہ کچھ نیا سیکھا ہو گا۔۔۔
Ik Post “Developer se Photographer tak ka safar” bhi honi chahiye 🙂