صبح کے 8 بج چکے ہیں اور ہم ناشتے کے لئے ہری پور ہزارہ رکے ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب راولپنڈی سے حسن ابدال پہنچے اور جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر دائیں طرف عظیم شاہراہ قراقرم پر سفر شروع کیا ہی تھا کہ ایک کتا دوڑتا ہوا سڑک پر آ گیا اور ہماری گاڑی سے ٹکرا گیا۔ گاڑی تو بچ گئی مگر کتا بیچارہ شدید زخمی یا پھر مر گیا ہو گا۔ کتے والے حادثے کے بعد ایک اور حادثہ ہوتے ہوتے بچا، وہ کیا ہے راولپنڈی کی طرح یہاں بھی پولیس نے روکا، مگر ڈرائیور کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ اس نے گاڑی روکی ہی نہیں اور اس بات پر بھی کچھ دوست ڈرائیور کو کہہ رہے تھے کہ تمہیں گاڑی روک لینی چاہئے تھی۔ حسن ابدال سے ہمارا سفر شاہراہ قراقرم پر شروع ہوا۔ حسن ابدال اور ہری پور کے درمیان صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی سرحد آئی۔
شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں، اس کے ایک سرے پر پاکستان کا شہر حسن ابدال ہے تو دوسرے سرے پر چین کا شہر کاشغر ہے۔ یہ 1958ء سے 1978ء کےبیس سالہ دور میں تعمیر ہوئی اور اس کی تعمیر میں نو سو سے زائد افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس عظیم سڑک کی کل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے، جس میں سے 806 کلو میٹر پاکستان میں ہےاور 494 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی سڑک ہے، جو قراقرم جیسے بلند پہاڑی سلسلے کو عبور کرتی ہے اور درہ خنجراب کے ذریعے پاکستان اور چین کو ملاتی ہے۔ نہایت بلند اور دشوار علاقے میں تعمیر ہونے کی وجہ سے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس عظیم شاہراہ پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، جیسے یہ دنیا کے جدید سات عجائب میں کیوں شامل نہ ہو سکی اور یہ صرف ایک سڑک ہی نہیں بلکہ کئی ایک تہذیب و ثقافت کا گڑھ بھی ہےوغیرہ وغیرہ، مگر یہ سب پھر سہی یا اسی سفر نامہ میں وقتاًفوقتاً ذکر کرتا جاؤں گا۔
میں شاہراہ قراقرم پر پہلے بھی کئی دفعہ تھوڑا تھوڑا سفر کر چکا ہوں مگر اس دفعہ زیادہ خوشی ہو رہی ہے کیونکہ اب ایک لمبا سفر کرنے جا رہا ہوں۔ خیر فی الحال ہم ناشتے کے لئے رکے ہوئے ہیں۔ یوں تو ہوٹل دیکھنے میں کافی اچھا ہے لیکن کھانے والی چیزوں میں مرچیں ضرورت سے زیادہ ہیں، اس لئے ہم نے اپنا کھانا نکال لیا ہے جو گھر سے پکوا کر لائے ہیں۔ پراٹھے ہوٹل سے لئے اور ناشتے میں مگن ہو گئے ہیں۔ ڈرائیور حضرات کو بھی اپنے ساتھ بیٹھا لیا ہے مگر سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک ناشتہ کر رہا ہے اور دوسرا کہیں غائب ہے۔ اب دوسرا آ گیا ہے اور پہلے والا کہیں غائب ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں ایک وقت میں ایک کہاں چھپ جاتا ہے اور یہ چھپ چھپ کر آخر کر کیا رہے ہیں۔۔۔
ناشتہ کرتے کرتے نو بج گئے ہیں اور اب ہم مزید سفر کے لئے روانہ ہو گئے ہیں۔ ناشتہ اور پھر چائے پینے سے سب کو کچھ ہوش آ گیا ہے لہٰذا اب میں کچھ وقت دوستوں کے ساتھ گپ شپ کر لوں باقی احوال تھوڑی دیر بعد لکھتا ہوں۔
دس بج چکے ہیں اور ہم ایبٹ آباد شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ چند لمحات پہلے عبدالرؤف فون پر کسی سے بات چیت کر رہا تھا اور اسے کسی چیز کا کہہ رہا تھا۔ لیں جناب ادھر بھی پولیس نے روک لیا ہے۔
اب کی بار میں خود گاڑی سے اترا تاکہ پولیس والوں سے بات کروں۔ میں نے کہا جی فرمائیں۔۔۔
پولیس والا:- فرمانا کیا ہے، بس آپ کا ڈرائیور لائسنس اور روٹ پرمٹ دکھائے اور پھر آپ لوگ جائیں۔
میں نے ڈرائیور کو لائسنس اور روٹ پرمٹ دکھانے کا کہا مگر ڈرائیور خاموش۔ میں نے اصرار کیا تو کہتا ہے کہ کچھ دن پہلے اسلام آباد ایئر پورٹ پر چالان ہو گیا تھا اور لائسنس انہوں نے رکھ لیا تھا اور ابھی تک وہ جرمانہ ادا نہیں کیا اس لئے لائسنس واپس حاصل نہیں کر سکا۔ مزید روٹ پرمٹ میرے پاس نہیں ہے۔ اب پولیس والے کے ترلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بہت کہا مگر پولیس والا نہیں مان رہا اور چالان والی پرچیاں پُر کرنے لگ پڑا ہے۔ میں نے اسے روکا اور کہا کہ ہم پردیسی ہیں اور بہت دور جانا ہے اس لئے کہاں چالان جمع کرواتے رہیں گے اس لئے مہربانی کرو۔ مگر یہ کوئی اچھا انسان ہے جس کی نظر میں قانون کی بھی کوئی اہمیت ہے یا پھر اس نے چالان پورے کرنے ہیں یا اسے رشوت نہیں دی اس کا غصہ چالان کی پرچیوں پر نکال رہا ہے۔ روٹ پرمٹ نہ ہونے کا جرمانہ پانچ ہزار ہوتا ہے، مجھے بھی یہ ابھی ابھی پتہ چلا ہے خیر پولیس والے نے ڈرائیور کا شناختی کارڈ رکھتے اور ہم پر ”مہربانی“ کرتے ہوئے چھ سو روپے کا چالان ہمارے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ ساتھ ہی پولیس والا کہتا ہے کہ اگر آپ چالان جمع نہیں کروا سکتے تو مجھے پیسے دو میں کروا دوں گا۔ ڈرائیور نے کہا کہ رہنے دو ہم خود جمع کروا کر اپنا شناختی کارڈ واپس لے لیں گے۔ یہاں مجھے ڈرائیور پر بہت غصہ آ رہا ہے، دل کر رہا ہے کہ جوتا اتار لوں اور شروع ہو جاؤں اور ہر جوتے کے ساتھ کہوں کہ اتنے لمبے سفر کے لئے آیا ہے اور تیرے پاس لائسنس تک نہیں۔
چالان کروانے کے بعد ابھی چلے ہی ہیں کہ عبدالرؤف کو کسی کا فون آیا ہے اور وہ شور مچا رہا ہے کہ فلاں روڈ پر چلو۔ میں نے ایک بندے کو فون کیا ہے اور اس سے ایک خاص چیز لینی ہے، وہ بندہ چیز لے کر روڈپر کھڑا ہے۔ ہم اسے بہت سمجھا رہے ہیں کہ پہلے ہی دیر ہو گئی ہے اس لئے رہنے دے، مگر عبدالرؤف ہماری ایک نہیں سن رہا اور دھمکی دے رہا ہے کہ اگر میری بات نہیں ماننی تو مجھے واپسی والی گاڑی پر بیٹھا دو۔ خیر مجبوری میں اس کی مان لی اور گاڑی دوسری طرف موڑ کر اس کی خاص چیز لینے جا رہے ہیں۔
ایبٹ آباد سے نکلتے ہوئے دوستوں سے گپ شپ شروع ہو گئی تھی۔ پھر تقریبا گیارہ بج کر پنتالیس منٹ پر کب مانسہرہ اور سوا بارہ کب شنکیاری آیا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم مانسہرہ سے سیدھے قراقرم ہائی وے (کے کے ایچ) پر سفر کر رہے ہیں۔ ویسے مانسہرہ سے ہی دائیں طرف ایک سڑک علیحدہ ہوتی ہے جو بالاکوٹ، وادی ناران کاغان، جل کھڈ اور بابو سرٹاپ کو عبور کرتے ہوئے چلاس کے مقام پر واپس قراقرم ہائی وے سے مل جاتی ہے۔ بابوسرٹاپ والا یہ رستہ شارٹ کٹ ہے مگر سڑک کا اندازہ نہیں کہ بن چکی ہے یا نہیں اس لئے ہم فی الحال ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے جس میں تاخیر ہونے کا خطرہ ہو۔ باقی واپسی پر دیکھیں گے کہ بابوسر ٹاپ کو عبور کر کے وادی ناران میں اترا جائے یا پھر اسی رستے سے واپس آیا جائے جس سے جا رہے ہیں۔
اب مجھے بھی سفر کی تھوڑی تھوڑی تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں اب مجھے کچھ آرام کرنا چاہئے۔ میں آخری سیٹ پر اپنی بنائی ہوئی آرام گاہ میں چلتا ہوں۔ ویسے بھی میں صرف لکھنے تو نہیں آیا بلکہ تفریح بھی تو کرنی ہے، اس لئے مزید احوال روز رات کو یا جب بھی وقت میسر ہوا تب لکھوں گا۔ چلیں جی ملتے ہیں بریک کے بعد۔
اگلا حصہ:- دریائے سندھ، یویی پُل اور بشام – پربت کے دامن میں
نوٹ:-
یارو! بس تھوڑا سا انتظار، اگلی تحریر کے ساتھ ساتھ تصاویر کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا اور آپ کو خوبصورت مناظر تفصیل کے ساتھ دیکھنے کو ملیں گے۔
جناب میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ڈرائیور کے کاغذات پورے نہیں ہوں گے ۔ ایسا ہمارے ساتھ اُس وقت تک ہوا جب تک ہم نے اپنی گاڑیوں پر یا پھر اچھی شہرت کی کمپنیوں کی گاڑیاں لے کر جانا شروع نہیں کیا تھا
اچھے پولیس والے آپ کو کچی رسید دے دیتے ہیں اور چالان خود جمع کروا دیتے ہیں ۔ اس سلسلہ کو شروع ہوئے کوئی پانچ چھ سال ہوئے ہیں یعنی جب سے نہئی ٹریفک پولیس بنی ہے
واقعی آپ نے ٹھیک کہا تھا اور ہمیں یہ چیز ایبٹ آباد پہنچ کر پتہ چلی۔ اگر پہلے پتہ ہوتی تو اس ڈرائیور کو کبھی ساتھ نہ لے جاتے۔ باقی ٹریفک اور پولیس کا نظام بھی پہلے سے تو بہت بہتر ہو چکا ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Silk_Road
Take pictures
Sorry to hear about the dog
بس جی قسمت کی بات ہے، وہ اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا اور ہم اپنی کی طرف۔ رب نے ہمیں بچا لیا اور اسے۔۔۔
بلال صاحب سفر نامہ جلدی مکمل کریں ہمیں پاکستانی ڈراموں کی طرح چودہ قسطوں کے چکر میں نہ ڈالیں ایک ہی دفعہ ٹیلی پلے کیوں نہیں چلا دیتے۔ اونٹوں والے نہ بنیں شکریہ
بٹ صاحب سفر نامہ مکمل ہو چکا ہے۔ بس آپ کی آسانی کے لئے روز کا تھوڑا تھوڑا شائع کرتا ہوں، بلکہ ایک ساتھ شائع کرنے سے خود کو بڑی مشکل سے روک رکھا ہے۔
آپ کی خواہش کو مدِنظر رکھتے ہوئے ٹیلی پلے یہ رہا۔
ہم گجرات سے چلے، نو دن لگائے، راما و راما جھیل، تری شنگ، روپل، نانگاپربت کا بیس کیمپ، دیوسائی میں شاؤ سر جھیل اور کالا پانی دیکھا۔ بہت مزہ آیا۔ سارے علاقے بہت خوبصورت ہیں کئی تو دنیا میں جنت کی مانند لگتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو فطرت کا مشاہدہ ضرور کریں اور یہ علاقے دیکھیں۔ ان کی بے شمار تصاویر آپ کو گوگل سے مل جائیں گی۔
والسلام
اب ٹھیک ہے سرکار؟ 🙂
کیا بات ہے بلال بھائی، مزیدار سلسلہ ہے لیکن آپ ہم جیسوں کا دل جلارہے ہیں یہ قصے بیان کر کر کے 🙂
فہد بھائی سلسلہ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
ویسے میں واقعی دل جلا رہا ہوں 🙂 تاکہ سب میں جوش پیدا ہو اور سب خوبصورت پاکستان کو دیکھنے کا کم از کم سوچیں تو سہیں۔ ورنہ تو ہم لوگ دن بدن مشینیں بنتے جا رہے ہیں۔
اب دوسرا آ گیا ہے اور پہلے والا کہیں غائب ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں ایک وقت میں ایک کہاں چھپ جاتا ہے اور یہ چھپ چھپ کر آخر کر کیا رہے ہیں۔۔۔
ہاہا ہاہا ۔ بہت شاندار ۔ ترسا ترسا کے پڑھا رہے ہیں لیکن ٹھیک ہے ایک ساتھ دے دیا تو نہیں پڑھ پائیں گے۔
دوسرا ابو شامل بھائی نے ٹھیک کہا ، دل جل رہا ہے ہمارا 🙂
ویسےاوور آل زبردست۔
ویسے یہ ڈرائیوروں کی صورت میں اک عجب تماشہ ہی تھے، بہرحال جیسے بھی تھے اچھے تھے وہ کیا ہے کہ ہمیں صحیح سلامت واپس جو لے آئے۔
باقی سلسلہ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی سے بڑھ کر میرے لئے کچھ بھی نہیں کیونکہ اسی کے سہارے ہی مزید لکھنے کا جوش پیدا ہوتا ہے۔
بلال بھائی بہت مزاآیا آپ کے سفر کا حال پڑھ کے، یار ویسے آپ کو سفر شروع کرنے سے پہلے، بلکہ گاڑی بک کرنے سے پہلے اس ڈرائیور سے تمام کاغذات کی تصدیق کرنی چاہئیے تھی۔ خیر یہ بھی ایک تجربہ ہوتا ہے۔ اوربھائی ناران تک بلکہ ناران سے آگے ایک مقام سوچ ہے وہاں تک روڈ بہت اچھا ہے۔
بھائی بات آپ کی ٹھیک ہے مگر ہم نے سوچا کہ پروفیشنل ڈرائیور اور گاڑی ہے تو پھر سب کچھ پورا رکھ کر ہی روڈ پر نکلتا ہو گا، ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ ”تماشہ“ ابھی نیا نیا اس شعبہ سے وابستہ ہوا ہے۔ خیر اس کی وجہ سے ہمارا تجربہ ہو گیا اور ہماری وجہ سے اس کو پہاڑوں کا تجربہ ہو گیا، وہ کیا ہے کہ ہر قدم پر اسے بتاتے تھے کہ یہاں پر پہلا گیئر لگاؤ اور یہاں یہ کرو 🙂