جب بھی سیروسیاحت کا نام آتا ہے تو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں سرسبز پہاڑوں، برف پوش چوٹیوں اور ٹھنڈے موسم کا تصور ابھرتا ہے۔ ایسا ہر جگہ نہیں بلکہ ہمارے ہاں ایسا تصور پایا جاتا ہے کہ سیاحت تو صرف ”پربت کی اور“ ہوتی ہے۔ جبکہ سیاحت تو سیاحت ہوتی ہے۔ یہ ہر طرف ہوتی ہے۔ یہ دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔ویسے بھی دیکھنے والے بھیڑ میں چھپی تنہائی اور تنہائی میں چھپا ہجوم دیکھ لیتے ہیں۔ گو کہ فی الحال ہمارا شمار ان ”دیکھنے والوں“ میں نہیں ہوتا اور کل تو کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ بہرحال اب تک ہم نے بھی زیادہ تر ”پربت“(شمال) کا ہی رخ کیا لیکن ایک پرانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ان شاء اللہ اب کی بار ”دکھن“(جنوب) کا رخ کر رہا ہوں۔ اجی یہ مشرق اور مغرب تو کسی اور کے لئے ہوں گے۔ ہمارے ملک کا ”نقشہ“ ہی کچھ ایسا ہے کہ ہمیں صرف شمال اور جنوب ہی ملتے ہیں۔ اب دیکھنے والے تو آخرالذکر دو فقروں میں بھی بہت کچھ دیکھ لیں گے۔
سیاحت میرا پرانا شوق ہے، گو کہ یہ شوق اس حد تک پورا نہیں ہو سکا جیسا چاہتا تھا۔ میٹرک تک تو باقیوں کی طرح ہم بھی بچے ہی تھے۔ ہائی سکول کے دور میں تو کسی قسم کی سیاحت جرم شمار ہوتی۔ غلطی سے ایک دفعہ ہم تفریح کے وقت تفریح کرنے کے شوق میں گھر آ گئے تو دوسرے دن ہماری اچھی بھلی ”سیاحت“ ہو گئی۔ وہ کیا ہے کہ تب ”مار نہیں پیار“ نامی چڑیا نہیں ہوا کرتی تھی۔ ویسے اس چڑیا کے نہ ہونے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مار کے ڈر سے ہم میٹرک پاس کر گئے، ورنہ کہاں میٹرک اور کہاں ہم جیسا ”سیاح“۔ خیر اِدھر ”سکولی جیل“ سے رہا ہوئے اور اُدھر ہر اہم موقعے پر دوستوں کی منت سماجت کرتے پائے جاتے کہ چلو یار کہیں گھومنے چلیں۔ تب ہماری سیاحت نزدیکی علاقوں تک محدود رہی۔ گو کہ ہم خود کو جوان سمجھتے تھے اور ان علاقوں سے آگے جانے پر ہمارے پَر تو نہیں جلتے تھے مگر ابوجان کا خیال تھا کہ ہم ابھی بچے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب فلاحی کاموں کے سلسلے میں بالاکوٹ تک پہنچ گئے تو تب تک ہم جوان ہو چکے تھے۔ اگلے ہی سال چند دوستوں کے ساتھ موٹر سائیکلوں پر وادی ناران کاغان جا پہنچے۔ گو کہ موٹر سائیکل پر پہلے مری تک گئے تھے لیکن اب کی بار ذرا لمبا سفر کر ڈالا تو ہمارے برگر کزنوں نے ہمیں پاگل گردانا۔ کزنوں کی بات شائد ٹھیک ہو لیکن اس شوق کا کیا کرتے جو ہمیں بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے اپنا معصوم سا ستر سی سی موٹر سائیکل ان پہاڑوں پر چڑھایا جہاں موٹر سائیکل دیکھ کر لوگ حیران ہوئے۔ حیران اس لئے کہ ان کا خیال تھا کہ کم از کم ستر سی سی یہاں نہیں پہنچ سکتا، پھر بھی جیسے تیسے کر کے پہنچ بھی جائے تو اتنا سامان لاد کر نہیں پہنچ سکتا۔ بہرحال ہم ٹھہرے ”پاگل“ اور پاگل سے کچھ بھی بعید نہیں ہوتا۔ ویسے بھی پاکستان میں ”پاگلوں“ کی شدید قلت ہے۔ چلو ہماری وجہ سے کچھ قلت کم تو ہوئی۔ 🙂
ہمارے کئی دوست سیاحت کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن آ جا کر وہ بھی پہاڑوں میں ہی جانے کا سوچتے ہیں۔ کئی دوست تو یہ سوچتے ہیں کہ سیاحت بھی ہو اور کوئی تردد بھی نہ کرنا پڑے۔ اب انہیں یہ کون سمجھائے کہ یہاں وراثت میں وزارت تو مل سکتی ہے لیکن ”زیارت“ نہیں۔ قدرت کے نظارے گھر بیٹھے تھوڑی ملتے ہیں۔ ڈھونڈنے نکلیں گے تو ہی ”نشانیاں“ ملیں گی۔ خیر ہم نے دوستوں کے ساتھ پربت کی اور دو چار سفر کیے۔ تھوڑی بہت ٹریکنگ اور کیمپنگ بھی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ٹریکنگ کے معاملے میں اپنے دیگر دوستوں کی نسبت نہایت گیا گزرا ہوں، پہاڑ چڑھتے ہوئے سب سے زیادہ رکتا اور سب سے پیچھے رہ جاتا ہوں، لیکن پھر بھی مجھے مہماتی سیاحت کا شوق ہے۔ جیسے ”جنگل ہے، آدھی رات ہے، لگنے لگا ہے ڈر۔“ 🙂
لگتا ہے کہ اب ہمارے سر پر جو منڈلا رہا ہے، وہ کھونٹے سے بندھنے کا سایہ ہے اور سنا ہے کہ اس کے نتائج ”بھیانک“ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے سوچا کہ کل کسی نے نہیں دیکھا لہٰذا آج آزادی سے گزار لیا جائے۔ اب اس آزادی میں ”قیدی دوست“ میرا ساتھ تھوڑی دے سکتے ہیں۔ اس لئے اب کی بار اکیلا سیاحت پر نکل رہا ہوں۔ اب اس سب سے ہرگز یہ نہ سوچیئے کہ ہمارا کسی قسم کا کوئی لین دین ابن بطوطہ سے ہے۔ 🙂
بات کہاں کی کہاں نکل گئی۔ کہہ تو میں یہ رہا تھا کہ ہم بھی سیاحت کے لئے پربت کا ہی رخ کرتے تھے لیکن اس دفعہ فیصلہ کیا ہے کہ پہلے دکھن (جنوب) کی طرف نکلا جائے اور اس کے بعد دوسری اطراف۔ یہ میرا پرانا شوق ہے کہ کم از کم اپنا پیارا وطن اور اس میں موجود تہذیب و ثقافت ساری نہیں تو تھوڑی بہت ہی دیکھ لوں۔ کسی سیانے نے کہا ہے کہ کتابوں میں پڑھ کر یا کسی سے سن کر تم کسی چیز کو ”جانتے“ ہو جبکہ خود دیکھ کر اسے ”پہچانتے“ ہو۔ ہم نے بھی آج تک کتابوں میں پڑھا، اِدھر اُدھر سے سنا اور پھر صرف ”جانا“ ہے۔ اب کیوں نہ خود قریب جا کر دیکھا جائے، ”پاکستان“ کی تلاش میں نکلا جائے۔ پہلے اس شوق کے راستے میں کبھی کوئی مجبوری آ جاتی تو کبھی ملکی حالات۔ اب مزید انتظار نہیں بلکہ اب تو اس شوق کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کا اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ یہ کہ اس سفر کے دوران کچھ انٹرنیٹی اور بلاگر دوستوں کو بھی ملنا ہے۔ کئی دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ کراچی سے بہت ہی پیارے دوست ایک عرصے سے کراچی بلا رہے ہیں اور میں ہر دفعہ یہی کہتا رہا کہ بہت جلد آتا ہوں۔ اس بہت جلد کے آنے میں بھی سال بیت گئے۔ ویسے مجھے انٹرنیٹی اور بلاگر دوستوں سے بالمشافہ ملاقات بڑی اچھی لگتی ہے۔ وہ جو پہلی دفعہ ملتے ہی ایسے لگتا ہے جیسے ہم پہلے بھی کئی دفعہ مل چکے ہیں اور ہماری برسوں سے دوستی ہے، یہ احساس مجھے بڑا پیارا لگتا ہے۔
خیر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا یہ سفر خیروعافیت سے مکمل کرے گا۔ کافی حد تک تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور ان شاء اللہ جلد ہی سفر شروع کروں گا۔ اس سفر میں لاہور، ملتان، بہاولپور، چولستان، رحیم یارخان اور سکھر کے راستے کراچی تک جانے کا ارادہ ہے۔ سفر کے دوران مختلف مقامات بھی دیکھوں گا، پھر سمندر کی بے مہار لہروں کو چھونے کے بعد اگر سب اچھا رہا تو کوئٹہ اور اس کے بعد پربت کی طرف سفر میں پشاور اور دیگر شمالی علاقہ جات۔ ایک تو یہ سب ایک ہی سفر میں ممکن نہیں یا کافی مشکل اور وقت طلب ہے اور دوسرا کچھ فیصلے حالات کریں گے کہ آیا اسی ترتیب سے مزید سفر جاری رکھا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے۔ بہر حال فی الحال تو نکل رہا ہوں باقی جو میرے اللہ کی مرضی۔ آپ سب سے دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے۔ مزید اپنے مشوروں سے نوازیں گے تو یہ سونے پر سہاگہ ہو گا۔ سفر کے متعلق کوئی بات وغیرہ یا کوئی ایسا علاقہ جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہو اور آپ کے پاس اس کے بارے میں معلومات ہو تو ضرور بتائیے۔ آپ یہاں تبصرے کے ذریعے بھی بتا سکتے ہیں اور اگر یہاں نہ بتانا چاہیں تو فیس بک پر پیغام بھیج سکتے ہیں۔ باقی کوشش ہو گی کہ سفر کا احوال ساتھ ساتھ لکھتا رہوں اور آپ کو مختلف علاقے بذریعہ تصاویر دیکھاتا رہوں۔ ہو سکے تو دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔
ہمسفر کون ہے / ہیں آپکے؟
کوئی ہمسفر نہیں ہے، کوئی رازداں نہیں ہے — فقط ایک دل تھا اپنا، سو وہ مہرباں نہیں ہے 🙂
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں — رستہ ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہوا 😛
اللہ پاک خیرو عافیت سے رکھے اور سفر مبارک کرے ۔ ہو سکے تو ملتان سے فیصل آباد ہوتے لاہور چلے جائیں ، یہاں بھی آپ سے محبت کرنے والے موجود ہیں
سفر خیر و عافیت سے ہو، ہم کراچی میں آپ کا خیرمقدم کرنے کو تیار ہیں 🙂
گو کہ سفر اور سیاحت ہمارے لیے بھی کافی کشش رکھتا ہے لیکن ۔ ۔ ۔ بہرحال! آپ کے اس طویل سفر کے لیے خدا آپ کا حامی و ناصر رہے۔ کراچی کے بلاگران کو انتظار رہے گا کہ کب آپ سے بالمشافہ ملاقات ہو اور آپ ہمیں مہمان نوازی کا شرف بخشیں 😛
اللہ پاک آپ کو اپنی حفظ و امان میںرکھے اور یہ سفر بخیر و عافیت طے کریں۔
پچھلی بار جب آپ پربت کی طرف نکلے تھے تو آپ کے سفر نامے نے ہمیںبہت لطف دیا تھا، اس بار ہمیں پورے پاکستان کے بارے میںایک بلاگر کی نگاہ سے دیکھے گئے احوال کا پتہ چلے گا۔
اللہ حافظ
اللہ تعالٰی اس سفر کو آپ کی زندگی کا حسین ترین اور یادگار سفر بنائے۔ آمین
بلال بھائی اللہ تعالیٰ خیریت سے اس سیاحت کے منصوبے کو کامیاب بنائے،بس کوشش کرنا کہ الفاظ کے بجائے تصویر خود ہی بولے۔
کیونکہ الفاظ شائد ہی وہ ترجمانی کرسکیں جو تصویر کرتے ہیں۔
اللہ آپ کو اپنے امن و امان میں رکھے۔ آمین
سر جی یہ تو مجھے کوئی دھمکی آمیز تحریر لگ رہی ہے
کہیں گھر والوں کو دھمکا تو نہیں رہے؟؟
ہُن کرو میرا کُچھ نہیں تے میں چلا جے
بلال بھائی اور تمام دوستوں کو السلام علیکم! جتنے بھی دوست یہ تبصرہ پڑھ رہے ہیں وہ یہ پیشین گوئی لکھ لیں کے مستقبل کا نہایت ہی کہنہ مشق لکھاری، صحافی اور سیاح ہمیں بلال بھائی کی شکل میں میل گیا ہے۔ آپ کی تحاریر میں نکھار آتا جا رہا ہے۔ آپ سفر پر جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور خیریت اور خوشی کے ساتھ واپس لائے آمین۔ میرا آپ کے لئے ایک چھوٹا سا مشورہ ہے کہیں بھی جائیں لکین اپنے موبائل کی بیٹری اور بیلنس ختم نہ ہونے دیں۔
سیاحت کی اس مہم کے دوران آپ کے لئے صحت و تندرستی اور آسانیوں کی دلی دعائیں ہیں، بلال جی۔
مندرجہ بالا احوال میں کسی اور نے تو شاید خیال کیا ہے یا نہیں، لیکن اس فقیر نے کام کی رمزیہ بات نوٹ کر لی ہے یعنی ‘ لگتا ہے ہم پر جو منڈلا رہا ہے وہ کھونٹے سے بندھنے کا سایہ ہے’ ۔ تو ہم نے آج سے اس شبھ وقت کا انتظار شروع کر دیا ہے۔
پسِ نوشت: آپ کے اس سفر نے فی الحال تو ان امیدوں کا خون کر دیا ہے جو مستقبل قریب میں عاطف بٹ صاحب کی تحریک پر میرے ہاں آپ سمیت دیگر احباب کے اجتماع کے ضمن میں ہم نے لگائی ہوئی تھی۔ خیر، یار زندہ صحبت باقی۔ آپ کے پروگرام کے مطابق آپ کی واپسی انشاء اللہ کن تاریخوں میں متوقع ہے؟
سفر بخیر- تنہا سفر اور سیاحت کا لُطف ہی اور ہے 🙂
آپ کا سفرنامہ ہم سے تنہا مسافروں کے لئے مشعل راہ ہوگا سو
شدت سے انتظار ہے
خیر نال جاؤ تے خیر نال آؤ
دکھ نال نصیباں دے
چل پگلی آرام نہ کر ۔۔۔۔۔۔۔ منزل دور ہے شام نہ کر
کچھ دن پہلے اگر نکلتے تو ہم سندھ کے ایک خوبصورت اور پر فضا شہر سانگھڑ میں آپ کا استقبال کرتے، لیکن اب ہماری زیارت کا شرف حاصل کرنے کے لیے بھارہ کہو۔ اسلام آباد آنا پڑے گا جو کہ شاید آپ کے روٹ میں کہیں شامل ہی نہیں۔
کسی دوست نے کہا تھا کہ پاکستان میںجو پیسے والے ہیںوہ دبئی، لندن، پیرس گھومتے ہیں، مڈل کلاس فیملیز شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کا تکلیف دہ سفر کرتے ہیں اور جو کم آمدنی والے ہیں وہ تصویریںدیکھ کر گزارا کر لیتے ہیں۔
ایسے بھی بہت سارے ہو سکتے ہیںجو یہ سارے کام ایک ساتھ کر رہے ہوں۔
اگر سنجیدگی سے ڈومیسٹک ٹورزم (اندرون ملک سیاحت ) پروموٹ کیا جائے تو پاکستان کے بہت سارے علاقوںکی معاشی مشکلات (غیر ملکیوں کے نہ آنے کی وجہ سے جنم لینے والی) حل سکتی ہیں۔
بلال بھائی اگر آپ سفر نامہ پاکستان لکھیں تو بہت فائدہ ہو