اگست 10, 2018 - ایم بلال ایم
4 تبصر ے

اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – تیسری قسط

گزشتہ سے پیوستہ

صبح اٹھے اور ٹریک پر نکلے۔ پہلے ایک دو چشمے، پھر جنگل، پھر چراگاہ اور پھر جہازبانڈہ آ گیا۔۔۔ کیا واقعی؟ سچی؟؟؟ نہ سائیں نہ… ایسے نہیں۔۔۔ ناریل پھوڑا نہ چوگ بھرا… کوئی موم بتی جلائی نہ چادر چڑھائی۔ ایسے تو نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اتنی آسانی سے تھوڑی ہوتا ہے۔ جہاز بانڈہ ہے کوئی مذاق نہیں۔ دوچار نفل پڑھو، دعا کرو اور رب کا نام لے کر نکلو۔۔۔

٭٭٭

مجھ سے پہلے ہی شمس بیدار ہو چکا تھا۔ شور کی وجہ سے جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ کمرے میں ہر طرف سامان بکھرا ہوا ہے۔ کوئی شرٹ بدل رہا ہے، کوئی خوشبوئیں چھڑک رہا ہے، کسی کو پاجامہ بدلنے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ حیران ہوا کہ یہ احباب کو کیا ہو گیا ہے اور کدھر کی تیاریاں کر رہے ہیں؟ حالانکہ آج تو ہم نے ٹریک پر نکلنا ہے۔ خیر بستر سے نکلا۔ بکھرے بال اور بیدار ہونے پر جو حلیہ ہوتا ہے، وہی لئے باہر کا نظارہ کرنے چل دیا۔ میرا خیال تھا کہ ابھی اکثریت سوئی ہو گی۔ لیکن جیسے ہی لان پر نظر پڑی تو اُدھر کچھ خواتین بیٹھی تھیں۔ خیر یہ ہماری ٹیم کی نہیں تھیں۔ سوچا کہ رات کو کوئی دوسرا گروپ بھی آ گیا ہو گا۔ ابھی تک دماغ ٹھیک طرح بیدار نہیں ہوا تھا۔ اگلے ہی لمحے دماغ جاگا اور گھنٹیاں بجیں اور معلوم ہوا کہ یہ تو ہماری ہی ٹیم ہے۔ بس تھوڑا سا میک اپ کیا ہوا ہے۔ میں تو انہی قدموں پر واپس بھاگا۔ کمرے میں پہنچا تو اُدھر ”خواتینے“ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ شرٹ ٹھیک رہے گی یا یہ والی۔ حد ہو گئی بھئی۔۔۔ یہاں تو آوے کا آوہ ہی مقابلۂ حسن کی تیاریاں کر رہا تھا اور ایک میں تھا کہ جس کا اس زمرے میں کہنا ہے ”ہم پہاڑوں کو اپنا آپ دکھانے نہیں بلکہ انہیں (مظاہرِفطرت) دیکھنے جاتے ہیں۔“

میں بھی جلدی جلدی تیار ہونے لگا۔ ویسے تیار کیا ہونا تھا، بس دانت صاف کیے۔ وہ اس لئے کہ رستے میں کسی کو کاٹنا بھی پڑ سکتا تھا۔ ہمیشہ الٹا ہی سوچنا، میری مراد کوئی کھانا، کوئی پھل فروٹ وغیرہ تھی۔ منہ دھویا تاکہ جاننے والی پریاں شکل تو پہچان لیں۔ کنگی کی کیونکہ ایویں بال آنکھوں میں پڑتے رہیں گے۔ ویسے بھی آنکھ میں بال ہونا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔ لیں جی! ہم تو تیار باش۔ جلدی چل۔ ناشتہ کر۔ اور ناشتہ تلواروں کے سائے میں ہوا۔ وہ کیا ہے کہ راجہ صاحب کے عجائب گھر میں چٹائی بچھا کر کرایا گیا۔۔۔ ”ڈاکٹر صاحبہ! ذرا یہ چٹنی تو پکڑانا۔ شفان آپ چٹنی لو گے؟ بلال بھائی! یہ چٹنی اُدھر پکڑا دیں۔ احسن بھائی! وہ چٹنی اِدھر کیجئے گا۔“۔۔۔ آخر اس چٹنی میں کیا بات تھی؟ انڈے اور کوفتے وغیرہ چھوڑ کر سبھی اسے ہی کھائے جا رہے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ یہ آموں کی صنفِ نازک یعنی ”امبیوں“ کی میٹھی چٹنی تھی، بولے تو کیری کی چٹنی۔ سیاحت اور خاص طور پر ٹریک اور کیمپنگ کے دوران ایسی چٹنی عیاشی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسی لذیذ عیاشیوں کے لئے کارواں سرائے(محسن رضا) کا شکریہ تو بنتا ہے۔

ایک مقامی ملازم، 10 خواتین، 4 بچے، 17مرد اور ایک مسافرِشب… چند سرکاری پورٹر گدھے اور ایک منظرباز پر مشتمل قافلہ ٹریک کے لئے تیار تھا۔ باقی کچھ پورٹر انسان بھی تھے جو کہ ہم لوگوں نے اپنا ذاتی سامان اٹھانے کے لئے ”ہائر“ کیے تھے۔ ٹریک پر نکلنے سے پہلے اکثر لوگ بڑے پُرجوش ہوتے ہیں۔ جبکہ اپنا حال یہ ہے کہ ٹریک کا سوچ سوچ کر ہی ہول اٹھتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ کیسے مکمل ہو گا۔ ویسے یہ کیفیت ٹریک شروع کرنے سے پہلے پہلے ہی ہوتی ہے۔ ورنہ جب چل پڑے تو پھر یہی سوچنا چاہیئے کہ جب سفر کرنا ہی ہے تو پھر آہ و زاری کیوں؟ جب کھیل لکھ دیا گیا ہو… اور وہ ہو کر رہنا ہو… تو پھر چیخ و پکار کاہے کو… بلکہ اس کھیل سے مزہ لو۔ بندے کو ذہنی طور پر چیخ و پکار نہیں کرنی چاہیئے ورنہ جسم و زباں سے تو آہ و زاریاں ہونی ہی ہوتی ہیں اور یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔ ٹریکرز کیا عجب مخلوق ہیں کہ وہ ان سے بھی مزہ کشید کرتے ہیں۔

میں تو ٹھہرا ”نان بدعتی“ مگر یہ جو میرے ساتھ منظرباز ہوتا ہے ناں، اس کے اپنے ہی نظریات ہیں۔ کسی دن اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی ٹنگائے گا۔ میں تو کئی دفعہ اس کے نظریات اور حرکتوں سے کانپ جاتا ہوں۔ ٹریک پر نکلتے ہوئے بھی اس نے کچھ ایسا ہی کیا۔ بہت سمجھایا کہ ایسے نہ کر، لوگ کیا کہیں گے؟ مگر اس نے میری ایک نہ سنی۔ وہ جس طرح پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے زمین کو چھوتے اور ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں، منظرباز نے بھی جہازبانڈہ کو جاتے راستے کے آغاز پر کچھ ایسی ہی حرکتیں کیں اور پھر پہاڑوں کے اوپر گھور کر دیکھنے لگا۔ ایسے جیسے اُدھر کسی سے مخاطب ہو۔ کوشش کریں گے کہ اسی سفرنامے میں معلوم ہو کہ اس نے ایسا کیوں کیا اور پہاڑوں کے اوپر دیکھ کر کیا بُڑبڑا رہا تھا۔ خیر میں نے تو رب کو یاد کیا اور سب اچھا ہونے کی دعا کر کے چل دیا۔

ابھی چند قدم بھی نہیں اٹھائے تھے کہ پیچھے سے محسن رضا نے آواز دی ”سارے ٹھہر جاؤ! خواتین کو آگے جانے دو۔ ہم لوگ پیچھے پیچھے چلیں گے۔“ اس کا خیال تھا کہ صنف نازک آگے رہیں اور صنف قوی پیچھے تاکہ کسی مسئلے کی صورت میں بہتر حل نکالا جا سکے۔ یا پھر ”لیڈیز فرسٹ“ والا معاملہ تھا۔ خیر کچھ حضرات نے خواتین کے نقشے قدم پر چلنا شاید گوارہ نہ کیا اور جیسے ہی محسن کا دھیان کہیں اور ہوا تو وہ خرگوش کی طرح چھلانگیں مارتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ میں شش و پنج کا شکار تھا۔ مجھے خواتین کے پیچھے چلنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا کیونکہ اس کی تو ہر مرد کو مشق ہوتی ہے۔ چلو شادی شدہ نہ سہی، اپنے سکول و کالج کو یاد کیجئے حضور۔ طبیعت زیادہ خراب ہو تو اپنی سوچوں اور نظروں کا تعاقب کیجئے۔ شکریہ۔۔۔ خیر ٹریک پر میری کچھوے والی رفتار اصل مسئلہ تھی۔ ذہن میں یہ تھا کہ جو خواتین ایسے ٹریک پر آئی ہیں، وہ یقیناً سخت جان ٹریکر ہوں گی اور کلانچیں بھرتی کہاں کی کہاں پہنچ جائیں گی۔ خرگوش پہلے ہی چھلانگیں لگا چکے ہیں اور پھر میرا کا کیا بنے گا؟ بس یہی سوچتے ہوئے میں بھی چل دیا۔ یوں دل کو سہارا رہے گا کہ کچھ لوگ پیچھے ہیں اور جب میں سانس لینے رکوں گا تو وہ بھی پہنچ جائیں گے تو میں ان کے ساتھ چل دوں گا۔

اب کارواں کے معروضی حالات یہ تھے کہ زیادہ تر مرد حضرات آگے جا چکے تھے۔ ان کے پیچھے میں اور شفان۔ خواتین اور دوچار مرد بمعہ محسن رضا سب سے پیچھے تھے۔ میں اور شفان نے مل کر پورٹر لیا تھا کیونکہ ہمارا سامان بہت تھوڑا تھا اور اس کے لئے ایک پورٹر ہی کافی تھا۔ پانی کی صورتحال پہلے ہی معلوم کر چکا تھا۔ کیونکہ کسی بھی ٹریک میں سب سے اہم اور ضروری چیز پانی اور جوتے ہی ہوتے ہیں۔ پانی پینے کے لئے اور جوتے کھانے کے لئے نہیں بلکہ پہننے کے لئے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ٹریک پر آپ کا سب سے اچھا ساتھی آپ کا جوتا ہوتا ہے۔ اس لئے ”ٹریکنگ شوز“ پر کبھی بھی ”کمپرومائز“ نہیں کرنا چاہیئے۔ آرام دہ اور پائیدار جوتوں کا انتخاب کیجئے۔ جوتوں کے حوالے سے طبیعت زیادہ خراب ہو تو کسی سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر آپ کچھ نہیں کریں گے بلکہ جو کرے گا وہ ٹریک ہی کرے گا۔ خیر پورٹر عبدالرحیم نے بتایا تھا کہ جگہ جگہ پانی ملتا ہے۔ اس لئے بڑی کی بجائے بس چھوٹی بوتل ہی بھر لیں۔ آغاز پر جیپ ٹریک اور شدید دھوپ تھی، مگر ٹریک کا گراف قدرے متوازن ہی تھا۔ یعنی کوئی خاص چڑھائی نہیں تھی، بلکہ ہلکی سی اترائی ہی تھی۔ کندھے پر کیمرہ بیگ، ہاتھ میں ٹریکنگ سٹِک اور سر پر فرخ شہزاد کا تخفہ کردہ ہیٹ اور میں سکون سے چلے جا رہا تھا۔ تقریباً سواکلومیٹر کے بعد جیپ ٹریک چھوڑ کر دائیں ہاتھ بہنے والے نالے کو عبور کیا۔ نالے کے اوپر لکڑی کے شہتیر رکھ کر راستہ بنایا گیا تھا۔

اب ٹریک قدرے بلندی پکڑنے لگا، کسی کسی جگہ سخت چڑھائی بھی تھی مگر تھوڑی سی۔ پہلی چڑھائی پر یونس عباسی اور مظہرحبیب ملے، جو کہ ہم سے پہلے نکلے تھے۔ میں نے یونس سے پوچھا ”عباسی صاحب! سب اچھا؟“ یونس نے جواباً ایک محبت بھری ”گھوری ڈالی“ اور میں سمجھ گیا۔ ٹریک اور خاص طور پر تھوڑا مشکل ٹریک ایک ایسی جانچ گاہ ہوتی ہے کہ جہاں گھوری ہو یا گھوڑی یا پھر گوری کالی کچھ بھی ہو، سب کی ”شوگرکوٹنگ“ اتر جاتی ہے۔ اصل چہرہ واضح ہونے لگتا ہے۔ لوگ بن کہے بھی سب کہنے لگتے ہیں اور پھر پتہ چلتا ہے کہ فلاں انسان دراصل ہے کیا؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ پہاڑوں کے عاشق ایویں خجل خراب ہوتے پھرتے ہیں۔ نہ سائیں نہ۔۔۔ یہ بڑے گھاگ کھلاڑی اور کھوجی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو اک سفر سے ہزاروں چیزیں کشید کرتے ہیں۔ کہیں سکوں کے جام پیتے ہیں تو کہیں فطرت ان کی استاد بن کر انہیں زندگی کے بہت اہم اہم راز سمجھاتی ہے۔ اور ہاں غلطی پر فطرت سزا بھی دیتی ہے۔

شفان نے اشارے سے کہا ”کھاؤ گے کیا؟“ ہاں پر اس نے پیکٹ میری طرف بڑھایا۔ یوں ”چوئنگ گم“ منہ میں اور ریپر جیب میں۔ وہ اس لئے کہ واپسی پر سارے ریپرز کسی محفوظ جگہ ٹھکانے لگاؤں گا۔ شاید کچھ لوگ نہیں جانتے کہ ایک طرف فطرت اپنا آپ نچھاور کرتی ہے تو دوسری طرف گند ڈالنے اور قدرتی (فطرتی) حسن برباد کرنے پر جوابی حملہ بھی کرتی ہے۔ اور جب فطرت انتقام لینے پر آئے تو اس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ اور نسلیں برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ فطرت تو رہبر، ہادی و مرشد جیسی ہوتی ہے… یہ تو محبوب کی نگری ہوتی ہے… جہاں ہر قدم عزت و احترام کے ساتھ پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا۔ فطرت راہ دیکھاتی ہے… پیار کرتی ہے… اپنا آپ نچھاور کرتی ہے… اس سے تو، لاڈ سے باتیں منوانی پڑتی ہیں… اور اگر فطرت کو چھیڑا جائے اور اس کی اجازت کے بغیر کچھ کیا جائے تو جلال میں آتی ہے… ہر چیز تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے۔۔۔

راستہ فصلوں کے بیچ و بیچ اور چھوٹے سے نالے کے کنارے کنارے بلند ہو رہا تھا۔ پانی نچلے سروں پر گا رہا تھا، درخت اور پھول جھوم رہے تھے اور ایسے خوبصورت سما میں ہم مدہوش ہوئے چلے جا رہے تھے۔ آبادی کے آخری گھروں کے پاس سے گزرتے تھے اور بچے گھروں سے جھانکتے۔ ایسے ہی مزید ڈیڑھ دو کلومیٹر چلے اور پھر دیودار کا گنا جنگل آ گیا۔ پورٹر نے کہا کہ اِدھر سانس لے لو، کیونکہ اب اصل معرکہ شروع ہونے والا ہے۔ جنگل کے آغاز پر سانس لینے رک گئے۔ اُدھر پہلے سے مس عنبر اور سجیل زیدی کی ٹولی آرام کر رہی تھی۔ مس عنبر کا تعارف پچھلی قسط میں ہو چکا۔ جبکہ سجیل زیدی کا تعارف یہ ہے کہ ماشاء اللہ ایک خوبرو نوجوان، جو اسلام آباد میں توانائی کی ایک کمپنی میں ملازم ہے۔ کسی حد تک خاموش طبیعت مگر جب بولے تو بڑا ہنس مکھ۔ وہ تو سفر کے آخر پر پتہ چلا کہ جناب خاموش طبیعت بھی نہیں بس بزرگوں کا لحاظ کر رہے تھے۔ اوئے! تم نے یہ بزرگ کسے کہا؟ اُسے ہی کہا۔۔۔ اُسے کسے؟ ارے وہی جو اک خفیہ باباجی بھی تھے۔ خیر جب ہم جنگل کے آغاز پر سانس لے رہے تھے تو احسن بھائی، ڈاکٹر وردہ اور ایک دو لوگ آتے نظر آئے۔ جب وہ ٹولی پہنچی تو ہم چل دیئے۔ جیسا کہ سجیل لوگ ہم سے پہلے چل دیئے تھے۔ یوں آگے پیچھے مگر قریب قریب تین ٹولیاں سفر کر رہی تھیں، جبکہ مرد حضرات کی ایک ٹولی بہت آگے اور خواتین کی ایک ٹولی بہت پیچھے تھی۔

جنگل میں پگڈنڈی بلند ہونے لگی اور یوں بلند کہ کچھ نہ پوچھیں۔ ایسی ”اوئے ہوئے“ چڑھائی تھی کہ ”مقامِ اوئے ہوئے“ سے بھی ”اوئے ہوئے“ کے فوارے پھوٹنے لگے۔ چند قدم چلتے اور سانس بحال کرنے رک جاتے۔ آگے جاتی ٹولی کو دیکھنے کے لئے سر اٹھاتے تو ٹوپی سر سے گر جاتی اور پیچھے آتی ٹولی کو دیکھنے کی تو ہمت ہی نہ ہوتی۔ پہلے لگا کہ ایسا صرف میرا ہی حال ہے۔ مگر سبھی ایسی ہی حالت میں تھے۔ صرف تین لوگ ”ڈبل ڈیکر بس“ بنے بھی دوڑے جا رہے تھے اور وہ آگے پیچھے چلتی ان ٹولیوں کے پورٹر تھے۔ آدھا جنگل جب طے کر چکے تو ایک چشمے کے کنارے سانس لینے رکے۔ تب نیچے سے ایک اور ڈبل ڈیکر بس آتی دکھائی دی۔ فراٹے بھرتی بس نے ہم سے پچھلی ٹولی کو کراس کیا اور پھر ہمارے پاس آ رکی۔ یہ اپنے مہتاب بھائی تھے۔ جو اپنا بھاری رک سیک خود اٹھائے چلتے نہیں بلکہ اڑتے ہوئے آ رہے تھے۔
”مہتاب بھائی آپ تھکتے نہیں؟“
”جی میں سگریٹ نہیں پیتا۔ ویسے بھی خود کو ٹیسٹ کر رہا ہوں کہ ابھی کتنی ہمت باقی ہے۔“
”پھر کیا نتیجہ نکلا۔“
”یہی کہ ابھی تو میں جوان ہوں۔“
(ہاہاہاہاہا۔۔۔ تالیاں۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔ آپ کا نوکر راجہ تاج محمد۔۔۔)
مہتاب بھائی کا تعلق چکوال سے ہے اور پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں۔ یہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ باتیں کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم سے ناراضگی ہے؟ مہتاب بھائی بولے ”توبہ توبہ! آپ سے کیوں ناراض ہونا۔ میں ویسے ہی کم گو ہوں البتہ ایک اچھا سامع ضرور ہوں۔“
(ایک مرتبہ پھر تالیاں۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔۔۔)
حسبِ سابق ایک ٹولی نکل چکی تھی اور جیسے ہی دوسری قریب آئی تو درمیانی ٹولی بھی چل دی۔ اب درمیانی سے کچھ اور مراد نہ لے لینا۔ میری مراد اگلی اور پچھلی ٹولی کے درمیان والی ٹولی ہے۔ ورنہ درمیانی ٹولی کے شناختی کارڈ پر صنف میں ”مرد“ ہی درج ہے۔ اب مہتاب بھائی گپ شپ کرتے ہمارے ساتھ ساتھ ہی چل رہے تھے۔ ایک تو ہماری کچوے جیسی چال اور اوپر سے چند قدم چل کر سانس لینا۔ یقیناً ہماری رفتار مہتاب بھائی کی جوانی میں آڑے آ رہی تھی۔ جنگل میں جب تقریباً ایک کلومیٹر چل چکے تو اچانک جنگل ختم ہوا اور ایک چراگاہ آ گئی۔ میں نے اونچی آواز دی کہ جہاز بانڈہ آ گیا۔ میں جانتا تھا کہ یہ جہازبانڈہ نہیں مگر پیچھے آنے والی ٹولی کے لئے حوصلے کا پیغام تھا۔ آواز اتنی اونچی تھی کہ بہت آگے نکل چکے مرد حضرات سن کر یقیناً ہنسے ہوں گے کہ منظرباز پگلا گیا ہے، جو اس چراگاہ کو ہی جہازبانڈہ سمجھ بیٹھا ہے۔ خیر سے ہمارا ”باگا“ اتنا اونچا ہے کہ قریبی پچھلی ٹولی تو کیا بہت پیچھے آنے والے خواتین و حضرات تک بھی آواز پہنچی ہو گی اور وہ خوش ہوئے ہوں گے کہ لو جی ہم تو پہنچ گئے۔ حالانکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ٹریک پر جب کوئی پوچھے کہ کتنا سفر باقی رہ گیا ہے؟ اسے کبھی بھی ٹھیک جواب نہ دیں۔ بس یہی کہتے رہیں کہ ہمت رکھو، چلے چلو، بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ ایسے کرتے کرتے چاہے انہیں مریخ پر لے جائیں۔ اور اگر آپ نے سچ بتا دیا تو لوگ بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں۔ میں اسے ہی اچھا گائیڈ مانتا ہوں کہ جو جیسے تیسے کر کے کارواں کا حوصلہ بڑھائے رکھے اور انہیں ساتھ لے کر چلتا رہے۔

ہم آرام کرنے بیٹھ گئے۔ پورٹر نے بتایا کہ کافی سفر ہو چکا ہے اور یہاں بے شک تھوڑا لمبا آرام کر لو۔ چراگاہ میں ایک کھوکھا نما دکان بھی تھی۔ جس کے پاس بسکٹ، سافٹ ڈرنگ اور لسی وغیرہ تھی۔ بسکٹ کی ہمیں ضرورت نہیں تھی، کیونکہ کارواں سرائے نے جو ”ڈے پیک“ دیا تھا، اس میں دو تین پیکٹ موجود تھے۔ مگر ظالم نے سارے کے سارے ٹک(TUK) رکھے۔ جو ٹریک کے دوران کھا کھا کر ہمارا ”ٹک ٹکا ٹک“ بن گیا تھا۔ بلکہ گھر پہنچ کر بھی اندر سے ”ٹکاٹک“ کی آوازیں آتی تھیں۔ ڈے پیک میں بسکٹ کے علاوہ جہاں کھجوریں اور ٹافیاں وغیرہ تھیں، وہیں پر ایک مزے کی چیز ”لالی پاپ“ بھی تھی۔ پورے سفر کے دوران اس ”لالی پاپ“ نے بھی کافی شغل بنایا۔ خیر یہ سب باتیں بعد میں، فی الحال ہم چراگاہ والی دکان کی بات کر رہے ہیں۔ دکان سے ہمیں سافٹ ڈرنگ بھی نہیں چاہیئے تھا، کیونکہ ہمارے پاس اپنا ہی ”ہارڈ ڈرنگ“ تھا… استغفراللہ۔۔۔ ارے ”وہ“ والا ہارڈڈرنگ نہیں۔ اس کی تو ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ چاروں اور فطرت کا میکدہ تھا۔ جو ہمیں ویسے ہی مدہوش کیے ہوئے تھا۔ ہارڈ ڈرنگ سے میری مراد کیلشیم کی گولی سی اے سی(CaC)، نمکول(ORS) اور ٹینگ ملا علیحدہ علیحدہ پانی تھا۔ حسبِ ضرورت ہم انہیں میں سے کسی کا گھونٹ بھر لیتے۔ رہ گئی دکان پر مقامی لسی تو اس کی ایک بوتل شفان خرید لایا۔ پھر اس میں نمک ڈال کر ہم سب نے جی بھر کر پی۔ آپ سوچ رہے ہوں کہ ایک ڈیڑھ لیٹر لسی سب نے کیسے پی؟ تو جناب! عرض یہ ہے، سیانے کہتے ہیں کہ لڑائی اور لسی جتنی بڑھانا چاہو بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ہم نے سیانوں کے کہے پر عمل کیا اور پانی ملا کر لسی خوب بڑھائی۔ ویسے لڑائی بڑھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا، کیونکہ بحیثیت قوم اس کام میں تو ہم ”شیر“ ہیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اُدھر سارے ہی ”شریف“ لوگ تھے۔ لو جی ٹریک پر شیر بھی اور شریف بھی۔ نوٹ: ان سطروں کو سیاسی تناظر میں نہ پڑھا جائے۔ ورنہ 1973ء کے آئین کے تناظر میں سارے ہی اڈیالہ جیل میں ہوں گے۔ اوئے! چپ کر جاؤ۔ اگر نون لیگ کے ”ڈائی ہارٹ سپورٹر“ گوجرانوالہ کے اعجاز صاحب نے سن لیا تو۔۔۔ وہ بھلا کیسے سنیں گے، کیونکہ وہ تو بہت اگلی ٹولی کے ساتھ اب تک اوپر… میرا مطلب ہے کہ اوپر جہازبانڈہ پہنچ چکے ہوں گے۔

ہم ابھی چراگاہ میں بیٹھے آرام ہی کر رہے تھے کہ نیچے سے تیز تیز قدم اٹھاتے جاوید صاحب برآمد ہوئے۔ یہ بندہ واقعی بلا ہے۔ ماشاء اللہ ایسی ہمت و توانائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اچھے بھلے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔ جاوید صاحب آگے والوں کی خبر گیری کر کے واپس نیچے اتر جاتے تاکہ پیچھے رہ جانے والوں کا بھی خیال کریں۔ انہوں نے ایسا اتنی دفعہ کیا کہ یونہی سمجھیں اس بندے نے جہازبانڈہ اور جھیل کٹورہ کا ٹریک دو دو دفعہ کیا۔ خیر جاوید صاحب نے آ کر بتایا کہ بہت نیچے رہ جانے والی ٹولی میں ایک بچے موسیٰ کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور وہ بےہوش ہو گیا۔ اب کچھ بہتر ہے اور اس کے لئے گھوڑے کا انتظام کیا ہے تاکہ اس پر بیٹھ کر جہازبانڈہ پہنچ جائے۔ ہمیں معلومات دے کر وہ اڑتے ہوئے آگے کو نکل گئے اور ہم ادھر بیٹھے ہی حساب لگا رہے تھے کہ کتنا ٹریک ہو گیا، کتنا باقی ہے اور کتنی بلندی ابھی اور پکڑنی ہے۔ میں نے GPS Status اور دیگر اینڈرائیڈ ایپس کے ذریعے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ ابھی ہم 2770میٹر کی بلندی پر بیٹھے ہیں۔ چونکہ جندرئی 2130 میٹر بلند ہے۔ یوں جندرئی سے اس چراگاہ تک ہم نے 640میٹر بلندی پکڑی ہے۔ جہازبانڈہ3140میٹر بلند ہے، لہٰذا اس چراگاہ سے مزید 370میٹر بلندی باقی رہ گئی ہے۔ مگر خیال رہے کہ پیدل فاصلے کے حساب سے ہم تقریباً 4کلومیٹر طے کر آئے ہیں اور اتنا ہی ابھی باقی ہے۔ گویا ہم جندرئی اور جہازبانڈہ کے درمیان میں اس چراگاہ میں بیٹھے ہیں۔ بقایا فاصلہ بے شک 4کلومیٹر تھا مگر چونکہ بلندی اب تھوڑی ہی پکڑنی تھی، اس لئے حساب کتاب سے ہمیں حوصلہ ہوا۔ یہ تو مہتاب بھائی کے پوچھنے پر حساب کتاب کر دیا، ورنہ ٹریک پر میں ایسے حساب کتاب کے حق میں بھی نہیں۔ کیونکہ اگر پیچھے سفر زیادہ بچتا ہو تو اسے سوچ سوچ کر ہی ہول اٹھنے لگتے ہیں۔

چراگاہ میں کافی آرام کیا۔ تازہ دم ہو کر جب فوٹوگرافی کر رہا تھا تو اس وقت ہمارا پورٹر، شفان اور مہتاب صاحب آگے نکل گئے۔ باقی دو ٹولیاں ابھی چراگاہ میں ہی بیٹھی تھیں۔ کسی ٹولی کو جائن کرنے کی بجائے میں اکیلا ہی جانب منزل چل دیا۔ اس کے بعد پگڈنڈیاں آئیں۔ ویسے پہلے بھی پگڈندی ہی تھی مگر یہاں پر ایک ساتھ اوپر نیچے کئی پگڈنڈیاں تھیں، جو کہ سبھی سامنے نظر آتے ایک ہی مقام پر پہنچ رہی تھیں۔ اس مقام کے بعد دوبارہ ہلکا پھلکا جنگل شروع ہو گیا۔ اب بھی میں اکیلا ہی چلے جا رہا تھا۔ البتہ میرے جیسا ایک اور بھی آس پاس ہی رہتا تھا۔ وہ کبھی کہیں سے بیگ اٹھائے برآمد ہو جاتا تو کبھی کسی جگہ قمیض اتارے ناچ رہا ہوتا۔ کہیں اکیلا بیٹھا درختوں سے باتیں کرتا۔ یہ وہی تھا جو صبح جندرئی میں مجھے ملا اور کہنا لگا کہ دل کر رہا ہے پھوڑ دوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا؟ بولا ”بم اور کیا“۔۔۔ ایک دفعہ تو میں ڈر گیا کہ کہیں جناب وہ تو نہیں۔۔۔ جندرئی میں ہی کسی نے بتایا تھا کہ یہ بہت معصوم بندہ ہے اور محبت کا مارا ہے اور اب دماغ کچھ ٹھیک نہیں رہا۔ گویا میرے ہی جیسا تھا۔ ٹریک پر وہ بطور پورٹر ہماری ٹیم میں سے کسی کے ساتھ آیا تھا۔ تنہا چلتے جب وہ نظر آتا تو اچھا لگتا۔ خاص طور پر اس وقت بہت پیارا لگتا جب وہ دنیا سے بے پرواہ ناچ رہا ہوتا۔ ایک دفعہ تو منظرباز بھی اس کے ساتھ مل کر ناچا۔ دونوں اپنے اپنے انداز میں ”نچ کے یار“ مناتے رہے۔ پھر اچانک وہ بھی اڑن چھو ہو گیا۔ میں اکیلا ہی چلتا رہا اور جہازبانڈہ تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا۔ ایک جگہ تھک کر بیٹھ گیا۔ آگے پیچھے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ پانی کی موسیقی جاری تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ دیودار کی خوشبو سے سارے میں مہک تھی۔ نشہ چڑھتا گیا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ باز آ جا۔ مگر منظرباز کے دل سے صدا آئی کہ موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ یہاں تو رقص ہو کر رہے گا۔ ”عشق بلھے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے“۔ اور اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ تو دیکھتا رہے، میری بلا سے، میں اپنی دنیا میں جی کر رہوں گا۔ ویسے بھی ”کنجری بنیا عزت نہ گھٹ دی نچ کے یار مناون دے“۔ پھر سُر سے سُر اور تان سے تان ملتی گئی۔ فطرت آن لائن ہوئی۔ میں پاس کھڑا دیکھتا رہا اور منظرباز ہر چیز سے بے نیاز ہو کر ناچا۔ ”عشق دے گھنگرو پا کے بلھا یار دے ویڑے نچیا“۔۔۔ وہ خاص لمحات تھے اور خاص تر ہوتے گئے۔ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ ”میں“ رہی نہ ”تو“ رہا۔ بس ”ایک“ ہی تھا اور وہ تم تھے۔۔۔”بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور“۔۔۔

پورٹر کہیں نزدیک ہی اوپر سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس نے آ کر مجھے جھنجھوڑا۔ کیا ہو گیا بھائی؟ ہوں… کچھ نہیں… کچھ نہیں… بس ایسے ہی تھک کر بیٹھ گیا تھا۔ چلو آگے چلیں۔ ایسا کرو کہ تم آگے چلے جاؤ اور تھوڑی دور کر جا بیٹھ جانا اور میرا انتظار کرنا۔ دراصل اب مجھے تنہا چلنے کا مزہ آنے لگا تھا۔ جنگل میں ایک اور کھوکھا نما دکان آئی۔ اس کے پاس چائے، کافی اور فرائیز بھی تھے۔ تینوں میری پسندیدہ آئیٹمز اور میں کچھ کھائے پیئے بغیر ہی کسی ملنگ کی طرح موج میں اُدھر سے گزر گیا۔ اب سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ایسا کیونکر ہوا۔ حالانکہ مجھے ادھر رکنا چاہیئے۔ کچھ کھانا پینا چاہیئے تھا۔ مگر جب خیالوں میں لیلیٰ ہو تو مجنوں کہاں کسی اور چیز کی پرواہ کیا کرتے ہیں۔ خیر میں چلتا رہا اور پھر ایک جگہ رک کر سانس لینے لگا۔ جنگل اب تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ نیچے سے شفان آتا دکھائی دیا۔ حیرانی ہوئی کہ یہ تو میرے سے آگے تھا، پھر پیچھے کیسے رہ گیا۔ پاس آیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اپنے انداز میں نچ کے یار منا رہا تھا۔ ابھی شفان سے اتنا ہی پوچھا ”وضو کدھر کیا تھا“ کہ پورٹر نے اوپر سے آواز لگائی ”بھائی آ جاؤ۔ جہاز بانڈہ آ گیا ہے۔“ ایک دفعہ لگا کہ کہیں پورٹر میرے والے ہتھکنڈے مجھ پر ہی تو نہیں آزما رہا۔ لیکن جب شفان اوپر پہنچا تو اس نے بھی تصدیق کر دی۔ جہازبانڈہ کی زیارت کرنے سے پہلے ایک پتھر کی اوٹ میں رک گیا۔ بسکٹ کھائے، پانی پیا اور تازہ دم ہو کر میدان میں اترا۔ رانا عثمان کا حیرت کدہ اور محمد احسن کا میکدہ یہ جہازبانڈہ کوئی مذاق تھوڑی ہے۔

قدم اٹھایا، آگے بڑھایا… فطرت نے مجھے پکڑ لیا، اپنے سحر میں جکڑ لیا… چاروں اور وسیع نظارے، سرسبز میدان کے کنارے کنارے… نیچے چمکتا گلستان، اوپر کھلا آسمان، درمیان میں انسان اور محوِرقص سارا جہان… چھیڑو کوئی راگ، غم جائیں گے بھاگ… واقعی حیرت کدہ تھا، اک میکدہ تھا، اک محبوب نگری تھی۔۔۔ جہازبانڈہ کے دوسرے کنارے راج تاج محمد صاحب کا کاٹیج اور کیمپنگ سائیٹ تھی اور ہم نے وہیں جانا تھا۔ کاٹیج سے پرے دور، بلند پہاڑوں سے ایک آبشار گرتی تھی۔ ساتھ ہی بائیں ہاتھ جنوب مشرقی پہاڑوں کے پیچھے اک میخانہ تھا۔ جہاں بہت بڑے جی ہاں بہت بڑے کٹورے میں مے جھلکتی ہے اور کٹورے کے کناروں پر اکثر رند مدہوش پائے جاتے ہیں۔ ہم ابھی جہازبانڈہ میں تھے اور کاٹیج کی طرف جا رہے تھے۔ پورٹر آگے آگے، اس کے پیچھے شفان اور میں؟ میں تو کہیں بھی نہیں تھا۔ میں تو تھا ہی نہیں۔۔۔ وہ تو بس اک سہانا خواب تھا… جو لاجواب تھا۔۔۔

میدان کے درمیان پہنچ کر کہا کہ رک جاؤ۔ ان نظاروں کو اچھی طرح دیکھ لو۔ یہ وقت پھر نہیں آنے والا۔ وہیں ایک بڑا پتھر پڑا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھا بلکہ نیم دراز ہو کر نظارے جذب کرنے لگا۔ بڑی مزے کی نیند آنے لگی اور اسی اثنا میں ایک بندوق بردار بندہ آیا اور نالی بلکہ دونالی سیدھی کر کے پوچھا ”آپ میں محسن کون ہے؟“ ایسا لگا کہ جیسے ہی اسے محسن کا پتہ چلے گا تو ”ٹھاہ“۔ ہم نے کہا کہ محسن تو ابھی پیچھے ہے۔ ”ٹھیک ہے، آپ یہیں رکیں، ابھی آگے نہیں جانا۔“ کہہ کر وہ غالباً محسن کی تلاش میں نکل گیا۔ اسی طرح ٹریک پر بھی ایک بندے نے محسن کا پوچھا تھا۔ ہم اُدھر ہی بیٹھے تھے کہ دور سے محسن آتا دکھائی دیا۔ حوصلہ ہوا کہ ”ٹھاہ“ نہیں ہوا۔ پاس پہنچا تو ماجرہ پوچھا۔ ”دراصل راجہ صاحب نے پوری ٹیم کو باقاعدہ خوش آمدید کہنا ہے۔ آپ یہیں بیٹھیں اور جو جو پہنچتا جائے، اسے اِدھر ہی روکنا۔ میں آگے جا کر حالات کا جائزہ لے کر آتا ہوں۔ پھر ایک ساتھ چلیں گے۔“ یہ کہتے ہوئے محسن آگے چل دیا۔ دور سے راجہ صاحب کے کاٹیج کے آس پاس ہلچل نظر آ رہی تھی۔ احسن بھائی کی ٹولی بھی پہنچ آئی۔ جیسے ہمیں بندوق کے زور پر روکا گیا تھا، اب بندوق تو نہیں تھی مگر میں نے ویسے ہی انداز میں احسن بھائی کو روک لیا۔ پھر ایک اور ٹولی پہنچی۔ کافی انتظار کے بعد جب باقی پہنچے نہ محسن واپس آیا تو یہی فیصلہ ہوا کہ اب ہمیں چلنا چاہیئے۔ میدان کے کنارے پہنچ کر دیکھا تو نیچے جھیل کٹورہ سے آتے پانیوں کے کنارے ہماری ٹیم کے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ راجہ صاحب نے انہیں ادھر روکا بلکہ بندوق کے زور پر روکا ہوا تھا۔ وہ کیا ہے کہ جب محسن آگے خبر لینے گیا تو راجہ صاحب نے اسے بھی یہی کہا تھا کہ ادھر ہی رک جاؤ۔ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو۔۔۔آہو۔۔۔ راجہ صاحب بڑے زبردست انسان ہیں اور مان دعوی سے بات کرتے ہیں۔

جب ہم بھی نالہ عبور کر کے محسن لوگوں سے جا ملے تو اسے کہا کہ جاؤ راجہ صاحب کا ترلہ منت کرو کہ ٹیم کافی تھکی ہوئی ہے۔ اتنوں کو ہی خوش آمدید کہہ لیں۔ باقی پتہ نہیں کب پہنچیں۔ محسن ہنستا ہوا جانے لگا اور بولا ”تسی مینوں گولی مروا کے ای رہو دے“۔ خیر راجہ صاحب نے درخواست قبول کر لی۔ نالے سے اوپر جہازبانڈہ کے مشرقی میدان میں چڑھے۔ سامنے چونے کی مدد سے زمین پر بڑا سا خوش آمدید لکھا تھا۔ راہداری پر ”ربن“ بندھا تھا۔ پاس ایک بندہ پلیٹ میں قینچی رکھے کھڑا تھا۔ راہداری کے اردگرد کئی لوگ قطار میں کھڑے تھے۔ ربن کاٹنے کے لئے مس سمیرہ کی بیٹی کو آگے کیا گیا۔ ربن کٹا اور لوگوں نے پھول برسائے اور نعرے لگائے۔۔۔ ہیں جی۔۔۔ یہ تو کمال ہو گیا۔ سیاحوں کا ایسا شاندار استقبال صرف راجہ تاج محمد ہی کر سکتا ہے۔ ”راجہ جی تسی گریٹ او۔“
(تالیاں۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔ آپ کا نوکر راجہ تاج محمد۔۔۔)

کارواں سرائے نے کاٹیج کے کچھ کمرے بھی بُک کرائے ہوئے تھے اور ساتھ خیموں کی آپشن بھی تھی۔ شفان نے مجھے کہا ”کیا خیال کیمپنگ نہ کی جائے؟“ میرا جواب تھا ”بھائی! جب کمرہ دستیاب ہو تو کیمپنگ کا کوئی جواز نہیں رہتا۔“ بتاتا چلوں کہ ٹریک پر شفان ایک زبردست ساتھی ثابت ہوا۔ ویسے بھی بہت اچھا انسان ہے۔ چونکہ اب یہ میرا دوست بن چکا ہے۔ اس لئے زیادہ تعریف کر کے اسے خراب نہیں کروں گا۔۔۔ خیر کمرے میں سامان رکھا۔ تھکاوٹ سے چُور ہونے کے باوجود کیمرہ پکڑا اور باہر نکل گیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ روشنی ہماری تھکاوٹ نہیں دیکھتی۔ وہ بس اپنی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔ ہم مریں یا جئیں مگر روشنی کے حساب سے ہی چلنا پڑتا ہے۔ تکنیکی لحاظ سے جو ہے سو ہے مگر جسمانی و ذہنی لحاظ سے ”یہ فوٹوگرافی نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے“۔ فوٹوگرافی کے حوالے سے ایک دفعہ لکھا تھا کہ کبھی منظر آسانی سے پکڑ میں آ جاتے ہیں اور کئی دفعہ تو بڑی خجل خرابی کے بعد بھی مطلوبہ منظر نہیں ملتا۔ بعض اوقات فقط ایک تصویر بنانے کے لئے فوٹوگرافر کو لمبا سفر کرنا، پانی میں اترنا، پہاڑ چڑھنا، انتظار کرنا، بہروپ بنانا، تاک لگانا، مڈ میں اترنا اور خاک ہونا پڑتا ہے۔ جی ہاں! خاک ہونا پڑتا ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ اگر کوئی بدیانتی نہ کرے، ڈنڈی نہ مارے تو یہ کچھ کچھ درویشی قسم کا شعبہ ہے۔ اور ہم تو اس معاملے میں ”صاحبوں“ کے عشرِعشیر بھی نہیں اور بس شوقیہ فنکار ہیں۔۔۔

شام ہونے والی تھی۔ گردونواح کا کچھ جائزہ لیا اور کچھ تصویریں بنانے کے بعد آرام کی غرض سے بستر میں جا گھسا۔ کیونکہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے، اس لئے تھوڑا آرام کرنا چاہا۔ لیکن ہماری قسمت میں چین کہاں تھا۔ محسن کی آواز آئی ”بلال صاحب!“ جی سائیں فرماؤ۔ ”ایک مہربانی تو کریں۔“ جی دو کر دیتے ہیں۔ ”وہ ذرا خیمے تو لگوا دیں۔ میں دیگر کاموں پھنسا ہوا ہوں۔“ جی اچھا سائیں۔۔۔ کر لو تسی آرام۔۔۔ گوکہ ہم بھی باقیوں کی طرح کارواں سرائے کے مہمان ہی تھے، مگر محسن سے اپنا پیار ایسا ہے کہ اس وقت ہم بھی کارواں سرائے ہی تھے۔ میں اور عمر منج خیمے لگانے چل دیئے۔ یہیں عمر بھائی سے تفصیلی تعارف ہوا اور معلوم ہوا کہ جناب گوجرانوالہ کے پاس ایک دیہات میں رہتے ہیں اور ہماری طرح بنیادی طور پر زمیندار ہی ہیں اور غلطی سے چار جماعت پڑھ گئے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے جناب! ہم زمینداروں کا بھلا تعلیم سے کیا لینا دینا۔ اگر ہم لوگ پڑھ لکھ گئے تو یقین کرو آپ لوگ بھوکے مرو گے۔ کیونکہ پھر ہم نفع نقصان کا مکمل حساب کتاب کر کے فصلیں اگائیں گے۔ پھر ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ”مٹی کٹے“ کے علاوہ فائدہ ایک ٹکے کا بھی نہیں اور سارا مال تو حکومت کی ملی بھگت سے ”بنیا“ ہضم کر جاتا ہے۔ خیر چھوڑیں یہ بتائیں کہ خیمے کہاں لگانے ہیں؟ ”فلاں فلاں نے کیمپ میں رہنا ہے۔ جہاں یہ کہتے ہیں، وہیں لگا دیں۔“ جی مس عنبر بتائیں کہ کہاں لگاؤں؟ میدان کھلا تھا اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں لگانا بہتر ہو گا۔ آخر مجھ سے پوچھا گیا ”آپ اپنے لئے لگاتے تو کہاں لگاتے؟“ جی میں تو اُس جگہ پر لگاتا اور خیمے کا منہ مشرق کی طرف رکھتا۔ کیونکہ جب صبح پہاڑوں کے پیچھے سے سورج اُگے گا تب خیمے کا دروازہ کھول کر بستر میں لیٹے لیٹے چمکیلی برفیلی چوٹیوں کا نظارہ بہت خوب ہو گا۔ اس کے بعد مزید دو خیمے لگائے۔ اِدھر سے فارغ ہوئے تو سورج دور کے دیسوں میں اتر چکا تھا۔ اور پھر رات نے جہاز بانڈہ کو آ لیا۔

کھانا کھایا گیا اور حسبِ معمول فوڈگرو نے زبردست کھانا پیش کیا۔ اس کے بعد رحمان بابا کا پشاوری قہوہ لاجواب تھا۔ مگر ہم جیسے لوگ جن کا بلڈ گروپ ہی ”ٹی پازیٹو“ ہے، بھلا وہ چائے کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں؟ میرے جیسا ایک اور بھی تھا، جو یہی پوچھتا پھر رہا تھا کہ کیا چائے نہیں ملے گی۔ میں نے یونس عباسی کو کہا ”بھائی آرام سے قہوہ پیو، اس کے بعد میں خود تمہیں چائے بنا دیتا ہوں۔“ اور پھر چائے بنانے لگا تو طلبگار ر بڑھتے گئے۔ اتنے بڑھے کہ جن کے لئے خاص طور پر بنانی تھی، انہیں ہی چائے نہ ملی۔ پھر دوبارہ بنائی۔

باہر الاؤ جل رہا تھا۔ وہ لکڑی جو ہمارے اِدھر آٹھ دس ہزار روپے میں مکعب فٹ ملتی ہے۔ وہاں کئی کئی فٹ رات بھر میں آگ میں جھونک دیئے جاتے ہیں۔ ویسے اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ کیونکہ وہ لوگ لکڑی نہ جلائیں تو کیا دل جلائیں؟ ہاں! کاٹیں ضرور مگر نئے درخت بھی ساتھ ساتھ لگائیں۔ اگر آپ کو درختوں کی کٹائی اور آگ میں جھونکنے پر دکھ ہو رہا ہے تو ان لوگوں تک سستی گیس پہنچا دیں، پھر کوئی لکڑی نہیں جلائے گا۔ خیر الاؤ جل رہا تھا اور سب اس کے اردگرد بیٹھے تھے۔ اجی! وہی ہو رہا تھا جسے آپ ”بون فائر“ بولتے ہیں۔ شراروں کی دھمالیں دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور کمرے سے کیمرہ پکڑ لایا۔ ابھی آگ کے پاس ٹھیک طرح فوٹوگرافی نہیں ہوئی تھی کہ آسمان کی طرف دیکھا۔ اوئے لوگو! بادل چھا رہے ہیں۔ اگر کسی نے ”گلیکسی والی تصویر“ بنوانی ہے تو جلدی کرو۔ سجیل آپ خیمے میں گھس جاؤ۔ جب میں آواز دوں تو روشنی جلانا اور ایسے ہی بند بھی کرنا۔ پہلے بغیر کسی بندے کے ایک تصویر بنائی اور پھر اسی جگہ مس عنبر کی تصویر بنائی۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ کیا ہے کہ لائیٹ مین سجیل اور باقی احباب کی باری آنے سے پہلے ہی بادل چھا گئے۔ کئی لوگ افسوس کا اظہار کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ فکر نہ کریں، ان شاء اللہ کل سہی۔

تمام خواتین و حضرات واپس آگ کے پاس بیٹھ گئے اور اب موسیقی کا دور چلا۔ محسن رضا نے پہلا گانا سنا کر ہی مار ڈالا۔
میرے ہوش لے لو دیوانہ بنا دو
کوئی بات چھیڑو فسانہ بنا دو
نظاروں کو دل کی کہانی سنا کر
بہاروں کا موسم سہانا بنا دو
نہ یوں شرم سے تم نگاہیں جھکا لو
مجھے زندگی دو مجھے مار ڈالو

آخر مصرع پر قدرت نے زبردست بیگ گراؤنڈ میوزک دیا۔ بادل شدید گرجے۔ اس کے بعد شفان حسن نے شہرت بخاری کی غزل چھیڑ کر سونے پر سہاگہ کر دیا۔
ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ آئیں تو حیران وہ جائیں تو پریشان
یارب کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو

اچھی بھلی محفل جاری تھی۔ بات رقص تک پہنچنے ہی والی تھی۔ مگر رحمان بابا آ گئے اور بولے ”چلو اب سو جاؤ۔ صبح جھیل کٹورہ بھی جانا ہے۔“ انہوں نے شاید مذاق میں کہا ہو مگر کئی احباب تو ایسے تھے کہ وہ رحمان بابا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے کمروں میں پہنچ چکے تھے۔ تب مجھے ”ذوق“ کا اندازہ ہوا۔ اور پیچھے رہ گئے دو چار لوگ، اک مسافرِشب اور اک منظرباز۔ کچھ دیر مزید محفل چلی اور پھر بارش نے کہا کہ بھئی اٹھتے ہو یا میں اٹھاؤں۔ اور ہم اٹھ کر سونے چلے گئے۔ کمرے میں پہنچا، بستر میں گھسا مگر نیند نہ آئی۔ حالانکہ دن بھر ایک مشکل ٹریک نے تھکا دیا تھا۔ تھوڑی دیر کروٹیں لینے کے بعد بستر سے نکلا، جاگر پہنے، برساتی اوڑھی اور باہر چل دیا۔ مجھے نہیں یاد کہ کتنی دیر گھپ اندھیرے، برستی بارش میں اور جہازبانڈہ کے کس کنارے چلتا رہا۔ چلتے چلتے پیچھے سے پائل کی جھنکار آنے لگی۔ اور پھر… اچانک بجلی سی کوند گئی… من کے دریاؤں میں طغیانی آئی… رات گنگنانے لگی… دل میں اتر جانے لگی… وصل کی ہوائیں چلنے لگیں… اور میرے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ رک کر اور آنکھیں بند کر کے لمبا سانس کھینچا۔ اس کی خوشبو روح تک اتر گئی۔ مڑ کر اس کی طرف دیکھے بغیر میں نے کہا ”اچھا تو یہ سب تیرا کیا دھرا تھا۔ بہانے بہانے سے محفل ختم کرائی اور مجھے یہاں بلایا۔“
”تو اور کیا کرتی۔ تم بھی تو وہ ’رونقیں‘ چھوڑ نہیں رہے تھے۔ مجھے لگا کہ تم بھول گئے ہو۔“
”ارے! کیسے بھول سکتا ہوں۔“ پھر دونوں ہاتھ کھول کر اور گھومتے ہوئے چاروں اور اشارہ کرتے ہوئے کہا ”دیکھ تیری ’لذتِ آشنائی‘… مجھے کہاں کہاں لے آئی۔“ اتنا کہتے کہتے مڑ کر دیکھا تو وہ نظر نہ آئی اور میں گنگنایا کہ
زلف رخ سے ہٹا کے بات کرو
رات کو دن بنا کے بات کرو
آشیاں کے چراغ مدہم ہیں
ذرا آنکھیں اٹھا کے بات کرو
وہ رات کو دن بنا کر اور آنکھیں اٹھا کر بولی ”میرے پیارے! یہ تم کن چکروں میں پڑ گئے ہو؟“
”کسی چکر میں نہیں پڑا۔ سیدھی سادی سیاحت کے مزے لوٹ رہا ہوں۔“
وہ: ”زیادہ بنو نہیں۔ باقیوں کو تم دھوکہ دے سکتے ہو، مجھے نہیں۔ سب جانتی ہوں۔ ویسے بھی مجھے نہیں معلوم ہو گا تو کسے ہو گا؟“
میں اصل مدعے کی طرف آنے کی بجائے اِدھراُدھر کی ہانکتے ہوئے بولا ”چل چھوڑ۔ یہ دیکھ کہ۔۔۔“ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ وہ کچھ چڑ کر بولی ”آخر تمہیں مسئلہ کیا ہے؟ تم اس نگری کیونکر آئے؟“
دور کہیں اقبال کا اقبال بلند ہوا اور میری زبان پر اس کا یہ شعر آیا ”دل کہ ہے بے تابی الفت میں دنیا سے نفور…کھنچ لایا ہے مجھے ہنگامہ عالم سے دور“
وہ: ”زیادہ شاعری نہ جھاڑو… جو بھی ہو، تمہیں نہیں آنا چاہیئے تھا۔“
میں: ”کیا میرے آنے پر پابندی ہے؟“
”ہاں پابندی ہے… میں نے پہلے بھی تمہیں منع کیا تھا۔۔۔ کہا بھی تھا کہ ان ’معاملات‘ میں نہ پڑنا۔ مگر تم ہو کہ۔۔۔ کیا اندازہ بھی ہے کہ ’یہ سب‘ کیا بلا ہے؟“
”جو بھی بلا ہے میری بلا سے… میں بہت دور نکل آیا ہوں… اب جو ہو گا دیکھا جائے گا۔“
”کوئی دور نہیں آئے۔ ابھی بھی وقت ہے پلٹ جاؤ۔ معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں جتنا تمہیں لگتا ہے۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ اس میں تمہاری جان بھی جا سکتی ہے۔“
”تو کیا یہ اچھا نہیں کہ صرف موت کا مزہ چکھنے کی بجائے، زندگی کا مزہ چکھ کر موت کا مزہ چکھا جائے۔“ اسی وقت کسی جہان میں رقصِ درویش ہوا۔ شمس کا رومی بولا ”موت کا ذائقہ ہر کسی نے چکھنا ہے، مگر زندگی کا ذائقہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔“
اب کہ وہ کچھ نرمی سے بولی ”شمس اور رومی کی بات نہ کرو۔“ پھر کچھ سوچنے کے انداز میں کہنے لگی ”خیر تمہارا بھی قصور نہیں۔ یہ کیا دھرا بھی تو میرا ہی ہے۔ مگر۔۔۔“ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں ٹوکتے ہوئے بولا ”یہ ساری باتیں تم پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکی ہو۔ اب پھر کہنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ تم جانتی ہو کہ اب میں سمجھنے والا نہیں۔ کہیں بہانے بہانے سے تم مجھے ملنے۔۔۔؟“
”ملنے کی بات نہ کرو کیونکہ بہت بہاریں پہلے ملاقاتوں کا وقت گزر گیا تھا۔ بس اتنی گزارش ہے کہ تھوڑا سنبھل کر چلو۔“
میں: ”جب وقت گزر چکا ہے تو پھر مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔“
وہ: ”میری بات سمجھو۔ یہ کوئی معمولی نہیں بلکہ بہت بڑا کھیل ہے اور اگر غصہ نہ کرو تو کہتی ہو کہ اس میں تم بس اک معمولی پیادے ہو۔“
”ہاں! جانتا ہوں کہ معمولی پیادہ ہوں۔ اِدھر بساط سے ہٹوں گا تو اُدھر دنیا کو پتہ بھی نہ ہو گا کہ کوئی منظرباز اس دنیا میں آیا تھا، کیونکہ ہم جیسوں کے بارے میں تمہاری دنیا کا یہی دستور رہا ہے۔ مگر پھر بھی میں باز نہیں آنے والا۔“
”خود بھی مرو گے اور دوسروں کو بھی مرواؤ گے۔“
”جہاں اتنا عرصہ پل پل مرے، چلو وہاں ایک دفعہ اور سہی۔“ اسی لمحے کے لئے باباغالب نے اک مصرع کہا تھا ”مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا“۔
”تم پاگل ہو چکے ہو۔۔۔“
”محترمہ! میں پاگل ہی اچھا اور مجھے سیانا بننے کا کوئی شوق بھی نہیں۔“ ہر سو تجمل کلیم گونجے ”پاگل ہو کے سمجھاں آئیاں…ٹھیک سیانے ردی بیٹھاں“۔۔۔
وہ پیر زمین پر پٹختے ہوئے بولی ”تم آج بھی ضدی ہی ہو۔“ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی اور میری کوئی بات سنے بغیر ہی جانے کے لئے مڑی۔ ابھی اس نے ایک دو قدم ہی اٹھائے ہوں گے کہ میں نے آواز دی ”بات سنو“۔ وہ رک تو گئی مگر پلٹی نہیں۔ میں نے اک آہ سی بھر کر کہا ”تم بھی اب تک ویسے کی ویسی ہو۔ وہی محبت اور وہی۔۔۔“ وہ کچھ نہ بولی اور چلی گئی۔ اور میں اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔

٭٭٭

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
(مرزا غالب)

اگلی قسط (چوتھا حصہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – تیسری قسط

  1. انہیں جانتے کہ ایک طرف فطرت اپنا آپ نچھاور کرتی ہے تو دوسری طرف گند ڈالنے اور قدرتی (فطرتی) حسن برباد کرنے پر جوابی حملہ بھی کرتی ہے۔ اور جب فطرت انتقام لینے پر آئے تو اس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ اور نسلیں برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ فطرت تو رہبر، ہادی و مرشد جیسی ہوتی ہے… یہ تو محبوب کی نگری ہوتی ہے… ZABARDAST , BOHAT HKHOOB

  2. ”موت کا ذائقہ ہر کسی نے چکھنا ہے، مگر زندگی کا ذائقہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔“ جلال الدین رومی

    اور “ٹی پازیٹیو”
    بہت زبردست ۔ بهترین انداز بیان ۔ مزا آگیا۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *