اب وہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ فصلوں کے بیچ و بیچ باباجی کا ڈیرہ ایک بڑے کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پاک و ہند سے سکھ برادری کے ساتھ ساتھ مسلمان یاتری(سیاح) بھی جوق در جوق وہاں پہنچ رہے ہیں۔ اور ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور جانے کے لئے پر تول رہے تھے اور جس سے بھی ذکر کرتے تو اکثریت کا خیال۔۔۔ آہو۔۔۔ حالانکہ اپریل 1469ء کو شہر ننکانہ صاحب میں پیدا ہونے اور 22ستمبر 1539ء کو کرتارپور میں وفات پانے والے بابا گرو نانک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بغداد کے ایک مسلمان بزرگ حضرت مراد کے ہاتھ پر بیعت تھے۔ مسلمان باباجی کو اپنا بزرگ (پیر) مانتے تھے اور سکھ مذہب کے لوگ اپنا گرو۔۔۔ اسی بات کو لے کر باباجی کی وفات پر دونوں مذاہب والے اپنے اپنے طریقے سے آخری رسومات کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ مسلمانوں نے قبر بنائی اور سکھوں نے سسکار کر کے سمادھ استھان بنا دی۔ یہ دونوں نشانیاں یعنی قبر اور سمادھ استھان آج بھی کرتارپور میں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ ویسے جو مسلمان کرتارپور جاتے ہیں، کیا ان میں سے کسی نے باباجی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی؟۔۔۔ او نئیں نئیں، بحث نئیں۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بابا گرو نانک زبردست قسم کے مسافر(سیاح) بھی تھے۔ ان کا شمار دنیا کے بڑے اور قابل ذکر سیاحوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باباجی نے سولہویں صدی کے ابتدائی تقریباً 24 برسوں میں 28ہزار کلومیٹر سے زیادہ سفر کیا۔ امن کا پیغام پھیلانے اور حق کی تلاش میں چین، عراق، مکہ، مدینہ، ترکی، افغانستان، سری لنکا اور نیپال وغیرہ کے ساتھ ساتھ ویٹیکن سٹی(روم) بھی گئے۔
کئی سال پہلے وہ اپریل کا ایک روشن دن تھا، جب ہم بابا گرو نانک کے گاؤں کرتار پور صاحب کی اور نکلے۔ گجرات سے چلے اور پھر سیالکوٹ سے ناروال کے راستے میں تحریک آزادی کے کارکن پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور مزار کے ساتھ والی مسجد میں نماز ادا کر کے کرتارپور کی یاترا کو چل دیئے۔ کرشن چندر کے ناول ”غدار“ کے ”فرضی کردار“ تقسیم ہند کے وقت جن علاقوں میں ظلم سہتے رہے، ہم ”اصلی کردار“ انہی علاقوں میں پھرتے پھراتے، چین کی بنسری بجاتے اور ناروال سے آگے دریائے راوی کے اس پُل کے قریب سے گزرے جو تقسیم ہند کے وقت لاکھوں مہاجرین کے لئے آخری امید تھا۔ تقسیم ہند کے بعد اس پُل کو اکھاڑ دیا گیا اور وہاں صرف چند باقیات ہی موجود تھیں۔ جبکہ کرتارپور کوریڈور کے سلسلے میں اب وہ پُل دوبارہ تعمیر ہو چکا ہے۔ بہرحال تب ہم پُل کی باقیات کے پاس سے گزر کر پاک بھارت سرحد کے قریب کرتارپور میں گوردوارہ دربار صاحب پہنچے۔ تب آج جیسا ماحول تو تھا نہیں۔ بلکہ گندم کی وسیع و عریض فصلوں کے بیچ و بیچ سفید چونے سے ڈھکی ایک عمارت تھی۔ جس کے اردگرد ماحول ایسا تھا کہ میری سوچیں بے اختیار ”ٹائم ٹریول“ کیے دیتیں اور اک باباجی کنویں سے پانی نکال کر فصلوں کر سیراب کرتے۔ پیاری پیاری محبت بھری باتیں کرتے۔ فطرت سے محبت اور امن کا پیغام پھیلاتے۔۔۔ خیر ہم اُس احاطے کے قریب پہنچے کہ جس میں وہ عمارت تھی، اس کے سلاخوں والے چھوٹے سے گیٹ پر دو تین بیچارے اپنے آپ سے بھی مجبور پولیس والے کھڑے تھے۔ انہوں نے ہمیں گوردوارے کے احاطہ میں جانے سے روک دیا۔ اور پھر معلوم ہوا کہ اگر سردار گوبند سنگھ اجازت دے تو چلے جاؤ۔ خیر گیٹ کے اُس پار سفید عمارت کی طرف سے گوبند سنگھ صاحب آتے دیکھائی دیئے۔ مذاکرات شروع ہوئے، مگر سردار جی تو۔۔۔ آخر ہم میں سے کسی نے کہا کہ سردار جی بہت دور سے صرف گوردوارہ دیکھنے آئے ہیں، کیا آپ کو اچھا لگے گا کہ ہم خالی ہاتھ لوٹ جائیں۔ سردار جی مان تو گئے مگر عمارت تک جانے کی بجائے شرط رکھی کہ اس کنویں سے آگے نہیں جانا۔ ہم کنویں کو دیکھتے اور اس کے آس پاس کھڑے ہو کر پسِ منظر میں گوردوارہ کو لا لا کر تصویریں بناتے رہے۔ ہمارے اشتیاق کو دیکھ کر سردار جی پگھل گئے اور نعرہ مارتے ہوئے بولے ”اوئے سردارا! مُنڈیاں نوں اندر لے جا۔ سب کُج وکھا تے نالے بابے دا لنگر کرا“۔ اُس وقت ہمیں بڑی سخت بھوک لگی ہوئی تھی اور لنگر کا سن کر منہ میں پانی تو آیا مگر وہی کہ۔۔۔آہو۔۔۔ کسی طرف سے آواز آئی کہ سکھ اہلِ کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ دوسری طرف سے آواز آئی بھوک برداشت کر لو۔ پھر کسی نگری سے بابا فریدؒ کی بازگشت سنائی دی ”پنج رُکن اسلام دے ،تے چھیواں فریدا ٹُک… جے لبھے نہ چھیواں، تے پنجے ای جاندے مُک“۔ اردو مفہوم: اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں اور اے فرید چھٹا ”روٹی“ ہے، اگر چھٹا نہ ملے تو باقی پانچوں بھی جاتے رہتے ہیں۔
ہم آگے بڑھے تو پہلے ”اکال پُرکھ واھئے گورو جی کا معجزہ“ دیکھا یعنی وہ بم جو کہ 1971ء میں انڈین ایئر فورس نے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور کو تباہ کرنے کے لئے پھینکا تھا۔ مگر واھئے گوروجی (اللہ سبحانہ تعالیٰ) کی خاص رحمت سے وہ بم پھٹ نہ سکا اور اپنی اسی حالت میں ابھی تک وہاں موجود ہے۔ جہاں وہ بم تھا اس کے ساتھ ہی وہ کنواں بھی تھا کہ جس کے پانی سے بابا گرو نانک اپنی فصلوں کو سیراب کرتے تھے۔ کنویں کے بعد باباجی کی قبر پر گئے اور سمادھ استھان دیکھا۔ اور پھر باری آئی لنگر کی۔۔۔ ہم نے جم کر کھایا اور چنا چاول شدید لذیذ تھے۔۔۔ کیا آپ کو اس پر اعتراض ہے؟ او نئیں نئیں، بحث نئیں۔۔۔ وہ کیا ہے کہ باباجی صرف سکھوں کے تھوڑی تھے۔۔۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ باباجی کے دور کے وہ مسلمان جو غالباً ان کے آس پاس ہی رہتے، اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھتے اورکانوں سے سنتے، باباجی کی بنوائی مسجد میں نمازیں ادا کرتے، تاریخ انہی مسلمانوں کے بارے بتاتی ہے کہ وہ باباجی کو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کا بزرگ مانتے تھے۔ گوکہ تاریخ میں ”باباجی مسلمان تھے“ کی کئی شہادتیں موجود ہیں مگر ہم ان بحثوں میں نہیں پڑتے۔ او نئیں نئیں، بحث نئیں۔۔۔
جو بولے سو نہال، ست سری کال (وہی خوشی و کامیابی پائے جو یہ بولے کہ خدا کی ذات مطلق حق ہے)۔
بہت عالی نگارش ہے۔اپنی فتوحات کو جاری رکھیں۔اللہ آپ کے قلم کو طاقت اور برکت عطا فرماییں۔ آمین!