اکتوبر 12, 2011 - ایم بلال ایم
11 تبصر ے

شدت پسندوں کے جھرمٹ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر معاشرے کی طرح ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی کئی سوچ رکھنے والے گروہ موجود ہیں لیکن ان سب میں دو گروہ مجھے منفرد نظر آتے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن دونوں میں ایک عادت مشترک ہے اور وہ عادت ہے ”شدت پسندی“۔ میں ایک گروہ کو ”مذہبی شدت پسند“ کہتا ہوں تو دوسرے کو ”روشن خیال شدت پسند“۔ میرے کہنے پر نہ جائیے گا کیونکہ یہ تو ان دونوں گروہوں کی نشاندہی کے لئے ان کے نام رکھ دیئے ہیں وگرنہ ان دونوں کا مذہب اور روشن خیالی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ تعلق اس لئے نہیں کہ اگر انہیں اسلام اور روشن خیالی کی سمجھ ہوتی تو یہ کبھی ایک دوسرے کے دشمن نہ ہوتے بلکہ دوست ہوتے کیونکہ اسلام خود ایک روشن خیال مذہب ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ایک گروہ نے اسلام کا نام لے کر پتہ نہیں کس مذہب کی تبلیغ کی ہے تو دوسرے نے بے غیرتی اور بزدلی کو روشن خیالی کا نام دے دیا ہے۔ ان گروہوں کی سوچ بس اتنی ہے کہ یہ ہر حال میں خود کو مذہب اور روشن خیالی کا ٹھیکیدار بنانا چاہتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ لوگ اسے مذہب کا رکھوالا سمجھیں اور دوسرا روشن خیالی کی سمجھ کے بغیر ہی روشن خیال بن بیٹھا ہے۔ اپنے اوپر لگے مذہب اور روشن خیالی کے خود ساختہ لیبل کی حفاظت کے لئے یہ لوگ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، چاہے اس کے لئے کسی بھی حد تک گرنا پڑے۔ میری نظر میں ان دونوں گروہوں نے اسلام اور روشن خیالی کی اپنی مرضی کی تعریف کر رکھی ہے اور جس تعریف کا اسلام اور روشن خیالی کوئی واسطہ نہیں۔

زیادہ تر جگہوں پر آپ کو یہ دونوں گروہ ہی آپس میں دست و گریباں نظر آئیں گے۔ یہ گروہ ایک دوسرے کی مخالفت میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ ایک گروہ عورت کے دنیا میں کردار کو اتنا محدود کر دیتا ہے کہ وہ عورت کو بچے پیدا کرنے والی مشین سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ دوسرا گروہ قانون فطرت کو مذاق سمجھتے ہوئے عورت کو سرِبازار رکھ دیتا ہے۔ ایک گروہ عورت کو اتنے پردوں میں بند کرتا ہے کہ عورت کا سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے تو دوسرا پردوں سے ایسا آزاد کرتا ہے کہ عورت ننگی کر کے رکھ دیتا ہے۔ ایک جہاد کا نام لے کر ایسا شدت پسند بنتا ہے کہ جہاد کے بنیادی اصولوں تک کو فراموش کرتے ہوئے بے گناہوں تک کو مار دیتا ہے تو دوسرا اس کی مخالفت میں ایسا ”روشن خیال شدت پسند“ بنتا ہے کہ جہاد کا نام سنتے ہی ہیجڑا بننے کی تلقین شروع کر دیتا ہے اور اسلام کو سخت مذہب ثابت کرنے پر لگ جاتا ہے۔ ایک گروہ چھوٹی چھوٹی بات پر سزائے موت کے فتوے صادر کر دیتا ہے تو دوسرا مخالفت میں اس حد تک چلا جاتا ہے کہ چوروں، ڈاکوں اور قاتلوں تک کو سزا نہ دینے کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے۔ ایک گروہ سائنس کی مخالفت میں انتہا کرتا ہے تو دوسرا سائنس کو حرف آخر سمجھتا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ان گروہوں کااسلام اور روشن خیالی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا شعوری یا لاشعوری طور پر صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ لوگوں کو بس مذہبی یا روشن خیال شدت پسند بناؤ اور اپنا الو سیدھا رکھتے ہوئے جیب بھی گرم رکھو۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان گروہوں میں صرف الو سیدھا اور جیب گرم رکھنے والے ہی نہیں بلکہ کچھ عام سادہ لوح لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کی لڑائی میں مرتا صرف عام انسان ہے۔ کچھ انہیں کی حرکتوں سے تنگ آ کر روشن خیال شدت پسند بن جاتے ہیں اور کچھ مذہبی شدت پسند۔

ہمارا دیگر المیوں کی طرح ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری عام عوام زیادہ تر شخصیت پرست ہے۔ جب عام بندہ انہیں دونوں گروہوں کے کسی فرد کی کسی اچھی یا اپنے مطلب کی بات سے متاثر ہوتا ہے تو اسی وقت شخصیت پرستی کے سمندر میں غوطہ لگا دیتا ہے۔ پھر اس بات کے بعد کی ساری باتیں چاہے اچھی ہوں یا بری بس فلاں صاحب نے کہہ دی ہیں تو بس یہ اچھی ہی ہیں۔ پھر انہیں گروہوں میں رہتے ہوئے آہستہ آہستہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اور وہ انسان بھی شدت پسند بن جاتا ہے۔ اسی طرح کرتے کرتے آج مذہبی اور روشن خیال شدت پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہمارا معاشرہ شدت پسندوں کے جھرمٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں شدت پسندی کی ان دونوں صورتوں بلکہ ہر ایک صورت کو روکنا ہو گا اور میانہ روی اختیار کرتے ہوئے، اسلامی اصولوں کے عین مطابق ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینا ہو گا۔

باتیں تو اور بھی کرنے کو ہیں لیکن آخری بات پر تحریر ختم کرتا ہوں کہ خدا نے ایک عدد دماغ اسی لئے دیا ہے کہ انسان خود بھی کچھ سوچے، نہ کہ ”مولبی اور میڈم“ کی باتوں کو ہی حرفِ آخر سمجھے۔ ہم سب کو خود بھی تھوڑا بہت سوچنا چاہئے کہ کیا ہم شدت پسندوں کے جھرمٹ کا حصہ بن گئے ہیں/بننے جا رہے ہیں یا ہم نے میانہ روی اور حکمت سے کام لیتے ہوئے اسلام کے اصل اصولوں پر چلتے ہوئے روشن خیالی کا مظاہرہ کرنا ہے؟ ہمیں خود احتسابی کرنی ہو گی کہ کہیں ہم بھی ان شدت پسندوں میں شامل تو نہیں؟ ہمیں سوچنا ہو گا کہ میانہ روی بھی کوئی چیز ہے۔

اے میرے اللہ ہم سب کو سیدھا رستہ دکھا، رستہ ان لوگ کا جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کا۔۔۔آمین

اگلا حصہ:- شدت پسندی اور معاشرے پر اس کے اثرات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 11 تبصرے برائے تحریر ”شدت پسندوں کے جھرمٹ

  1. جناب بلال صاحب، بات یہاں ختم ہونی چاہیے کہ روشن خیال مخالف گروپ کو شدت پسند اس لیے قرار دیتا ہے کہ “مولوی” اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور روشن خیالوں کو ان کی یہ روش پسند نہیں۔۔۔ اسی طرح “روشن خیال گروپ” کو مخالف اس لیے تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ “قواعد زندگی / مقصد‌حیات” کو بھول کر اپنے نت نئے قوانین بنانے پر زور دیتے ہیں۔۔۔ مجھے بھی میرے دوست احباب اکثر مولانا یا مولوی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں مستورات کو سات پردوں میں رکھنے اور ہر بات کا جواب اپنی مرضی کے فتویٰ سے دیتا ہوں۔۔۔
    آپ کی تحریر اچھی ہے لیکن مولوی اور روشن خیال کے موازنے اور اصلی مطلب اخذ کرنے میں شاید آپ کچھ جلد بازی کر گئے ہیں۔۔۔

    1. عمران اقبال بھائی سب سے پہلے تو تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
      ویسے مجھے بھی لگ رہا ہے کہ میں اصلی مطلب اخذ کرنے میں جلدی کر گیا اور ٹھیک طرح اپنی بات کی وضاحت نہیں کر سکا۔ دراصل اس تحریر میں میں نے ان دو گروہوں پر بات کی ہے جو ہمارے معاشرے کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ خود کو روشن خیال کہنے والے طبقے کو یہ بتانا چاہ رہا تھا لوگوں کو تم شدت پسند تو کہتے ہو لیکن کبھی غور کرو تم بھی اپنی باتوں اور کردار میں شدت پسند ہی ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی مذہب کے نام پر شدت پسند بنا ہوا ہے اور کوئی روشن خیالی کے نام پر۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مذہب کا نام لے کر ہر الٹا سیدھا کام کرتے جا رہے اور مذہب کے غلط تاثر کا سبب بن رہے۔
      بھائی میں تو خود کہتا ہوں کہ اسلام کی اپنے مطلب کی تشریح نہ کی جائے۔ اسلامی معاشرہ ہو جہاں ہم سکون سے سانس لیں اور بوقت جنگ اسلامی قوانین کے مطابق جہاد کریں۔ معاشرہ اتنا روشن خیال ہو کہ لوگوں کے دل اتنے بڑے ہوں کہ نظریات کے اختلاف پر دوسرے کو قتل نہ کریں بلکہ دلیل سے بات کو رد کریں۔
      حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا
      ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
      رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

  2. میرا خیال ہے کہ جب راہنمائی کے لئے قابل لوگ کم ہوں تو اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔۔۔
    دوسرا سب سے بڑا مسئلہ میڈیا کی مخالفت ہے۔۔۔ وہ جس کو چاہے اچھا ثابت کردے اور جس کو چاہے برا۔۔
    اور جہاں تک آج کل جو لوگ یہ کہتے ہیں‌اسلام پسند عورت کو قید رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہے ۔۔ اگر آپ سڑک پر یا مارکیٹ میں گھوم کر دیکھیں تو آپ کو بے شمار عورتیں شرعی پردے میں ملیں گی۔۔۔ اس سے آپ کیا نتیجہ اخذ کریں گے۔۔۔؟
    اور اگر میڈیا کی طرح آپ طالبان کو عورت کے مسئلے پر بدنام کرنا شروع کریں گے تو یہ ان کا معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ صدیوں سے ہے۔۔۔۔

    1. اس میں تو کوئی شک نہیں کہ رہنمائی کے لئے قابل لوگ بہت ہی کم ہیں اور ہم اپنے مطلب کی تعریف کرتے ہیں اور عمل شروع کر دیتے ہیں۔
      محترم میں نے بھی تو یہی رونا رویہ ہے کہ اللہ نے ایک عدد دماغ دیا ہے ہمیں اسے بھی کسی کام میں لانا چاہئے نہ کہ بس جو ادھر ادھر یا میڈیا سے سنے اسے ہی حرفِ آخر مان بیٹھیں۔
      شرعی پردے والی عورتوں کی تو بات ہی نہیں بلکہ میں تو خود یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ شرعی قوانین کے مطابق رہو اور نہ اتنے آزاد ہو جاؤ کہ بالکل پردہ ختم کر دو اور نہ اتنے سخت کے شرعی پردے میں اور پردے خود سے شامل کرتے جاؤ۔ رہی بات اس معاملے میں میرا نتیجہ اخذ کرنے کی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ شرعی قوانین کے مطابق والوں کی بات میں نے کی ہی نہیں بلکہ میں تو دونوں اطراف کے شدت پسندوں کی بات کر رہا تھا دوسری بات اگر نتیجہ اخذ کروں تو یہی کروں گا کہ واہ کیا بات ہے کتنے اچھے لوگ ہیں جو اسلام کی مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔
      رہی بات طالبان کی تو میں انہیں بدنام نہیں کر رہا بلکہ میں تو اس سے مخاطب ہوں جو اپنی روایات کو اسلام کا نام دیتا ہے۔

  3. بلال بھائی آپ نے شدت پسند طبقے کی نشانیاں بتائیں کہ یہ
    چاہتا ہے کہ لوگ اسے مذہب کا رکھوالا سمجھیں ۔
    عورت کے دنیا میں کردار کو اتنا محدود کر دیتا ہے کہ وہ عورت کو بچے پیدا کرنے والی مشین سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ عورت کو اتنے پردوں میں بند کرتا ہے کہ عورت کا سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
    جہاد کے بنیادی اصولوں تک کو فراموش کرتے ہوئے بے گناہوں تک کو مار دیتا ہے۔
    چھوٹی چھوٹی بات پر سزائے موت کے فتوے صادر کر دیتا ہے۔
    سائنس کی مخالفت میں انتہا کرتا ہے۔

    پھر آپ نے فرمایا کہ آج مذہبی اور روشن خیال شدت پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہمارا معاشرہ شدت پسندوں کے جھرمٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔

    مجھے نہیں پتا کہ آپ پچھلے تین سالوں سے تحریک طالبان کا نام استعمال کرکے انکے پردے میں کام کرنے والے یہودیوں، ہندوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں یا عام مذہبی طبقہ ، علماومولویان کرام کی طرف۔ اگر تو یہ اشارہ تحریک طالبان کی طرف ہے تو یہ بات غلط ہے کہ ان جیسی شدت پسندی ہمارے معاشرے میں عام ہورہی ہے اور سوات و وزیرستان کے علاوہ پنجاب اور سندھ وغیرہ کے مذہبی لوگ انہی میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اگر یہ اشارہ ہمارے معاشرے کے مذہبی لوگوں اور علما کی طرف ہے تو اس کی ہمیں تو کوئی بڑی مثال نظر نہیں آئی۔

    روشن خیالی کا دعوی کرنے والا طبقہ مذہبی لوگوں اور اسلام پر پابندی سے کاربند طبقہ کو بھی شدت پسند کہتا رہتا ہے۔ اگر آپ اس قسم کے روشن خیالوں اور شدت پسندوں کی بات کررہے ہیں تو اس میں واقعی اضافہ ہورہا ہے۔ میں بھی اس قسم کا ایک اسلامی شدت پسند ہوں۔
    جب ہم اسلامی میانہ روی کی بات کرتے ہیں تو وہ وہی ہے جس کا نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور جس کو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوری دنیا تک پہنچایا۔ اب چاہے وہ کسی کو پسند ہے یا ناپسند حقیقی اسلام وہی ہے۔

    1. محترم میں ہر اس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جو اپنے اپنے کام میں‌شدت پسند بنا ہوا ہے۔ ایک گروہ مذہب کے نام پر مذہب کو بدنام کر رہا ہے تو دوسرا گروہ روشن خیالی کے نام روشن خیالی کو ہی بدنام کر رہا ہے اور آپسی جنگ میں مذہب اور روشن خیالی دونوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ محترم میں‌تو میانہ روی کی بات کر رہا ہوں کہ ہمیں اسلام کے اصولوں کے مطابق میانہ روی سے کام لینا ہو گا۔ اسلام کے مطابق عورت کو حقوق اور آزادی دینی ہو گی۔ دیگر معاملات میں بھی اور عورت کے ساتھ بھی نہ مذہبی شدت پسندوں جیسا اور نہ ہی روشن خیال شدت پسندوں جیسا سلوک کرنا ہے بلکہ اسلام کے عین مطابق چلنا ہو گا۔

    2. حقیقی اسلام وہ ہے جو قرآن پاک میں ہے ،
      کونسے صحابہ جو جنگ جمل اور جنگ صفین کرتے نظر آتے ہیں ،
      کونسی احادیث جو ڈھائی سو سال بعد عباسیوں اور امویوں کی قتل و غارت گری کے بعد جمع کی گئیں؟؟؟
      کبھی صرف قرآن کو آنکھیں اور دماغ کھول کر پڑھو تاکہ تم جیسوں کو پتہ چل سکے کہ آخر اصل اسلام ہے کیا

  4. او بھائی جھرمٹ سائیں‌!
    میں‌اکھیا کہ جہاں اتنے سارے “میانہ رو” تبصرے اکھٹے ہوگئے وہاں اک ادھا “شدید” قسم کا تبصرہ بھی تو ہونا چاہیے۔ :think:
    تو اسی سلسلے میں ایک عدد تڑی لے کر وارد ہوا ہوں۔ :devil:
    عرض کیا ہے۔۔۔۔
    بندہ بن اوئے ! :lightning:

    1. لے دس، کبھی لیڈر بناتے ہو تو کبھی سائیں بنا دیتے ہو۔ بندہ جائے تو کدھر جائے۔۔۔ :think:
      واقعی پہلے ہی مجھے بندہ بننا چاہئے تھا لیکن اب پوری چار تحاریر لکھ کر اس پورے مسئلہ کے فلسفے کی اپنی طرف سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے۔ خیر تحاریر لکھ لی ہوئیں ہیں بس وقت کے ساتھ ساتھ شائع کر دوں گا۔
      لو جی بندہ بن گئے :beatup: اور کوئی حکم

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *