دسمبر 1, 2012 - ایم بلال ایم
26 تبصر ے

اردو بلاگر اور حقائق کا بھوت

اپنے سمیت تمام اردو بلاگران سے نہایت معذرت کے ساتھ۔ مگر کیا کروں، حقائق کا بھوت کچھ ایسے ہی بیان کرتا ہے۔

عنیقہ ناز مرحومہ کے بلاگ کی ٹیگ لائن ”تخیل کے پر ہوتے ہیں اور کوئی اس کی اڑان نہیں روک سکتا“۔ میرے خیال میں واقعی یہ بات سچ ہے کیونکہ بالکل ایسے ہی میرے تخیل نے اڑان بھری، اور تو اور میں خود اسے روک نہ سکا۔ نتیجے میں یہ تحریر آپ کے سامنے ہے۔

میں اکثر خیالات کی وادیوں میں اتر جاتا ہوں اور نگری نگری گھومتا ہوں۔ آج بھی پچاس ساٹھ اردو بلاگران کے ہمراہ خیالات کی وادیوں میں اتر کر انٹرنیٹ کے خوفناک جنگل میں پہنچ گیا۔ ہم سب بلاگر معمول کی باتیں کر رہے تھے۔ کوئی شکوہ کرتا تو کوئی شکایت۔ کسی کی ہر تان مذہب پر آ کر ٹوٹتی تو کسی کا سُر سائنس سے شروع ہوتا۔ چند ”کھسر پھسر“ کرتے تو کئی تقریر جھاڑتے۔ کوئی میڈیا سے نالاں تو کوئی میڈیا کا حامی۔ کوئی دورِحاضر کا مقابلہ کرنے کو تیار تو کسی کو اردو بلاگنگ کے اغوا (ہائی جیک) ہونے کا خوف۔ چند مذاق مذاق میں اچھے اچھوں کی کلاس لیتے تو کوئی گہرے فلسفے سے دماغ کا دہی بنا رہا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم خود بھی عام لوگ ہیں اور دیگر عام لوگوں کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا رہے ہیں۔

انٹرنیٹ کے جنگل میں ہم اپنی باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک ”حقائق کا بھوت“ ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کچھ بلاگر گھبرائے مگر بہتوں نے حوصلہ کیا اور گھبرائے ساتھیوں کو دلاسہ دیا۔ بھوت نے پوچھا ”اوئے تم کون لوگ ہو، جو اس انٹرنیٹ کے جنگل میں پھر رہے ہو؟“ ہم میں سے ایک مزاح نگار آگے بڑھا اور بولا کہ تم کہاں کے حقائق کے بھوت ہو جو تمہیں خود حقیقت کا پتہ نہیں کہ ہم اردو بلاگر ہیں؟

بھوت نے قہقہ لگایا ہا ہا ہا ہا۔۔۔ ”اوئے اردو بلاگروں کے چیونٹی جتنے ٹولے! تم انٹرنیٹ کے اس وسیع جنگل میں اتنے تھوڑے ہو کہ حقیقت میں تمہارا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب حقیقت میں تمہارا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر حقائق کے بھوت کو تمہارا کہاں سے پتہ چلتا؟ چلو ذرا اپنا تھوڑا تفصیلی تعارف تو کراؤ۔“

ہم سب سوچ میں پڑ گئے کہ آخر اپنا کیا تعارف کروائیں، ہم نے تو آج تک کوئی تیر نہیں مارا۔ خیر بات تعارف کی تھی تو ایک دل جلا بلاگر بول پڑا کہ وہ جو انٹرنیٹ کے جنگل کے بنجر کنارے تھوڑی سی ویران زمین ہے ہم وہاں بستے ہیں۔ ادھر ہی ہمارا گھر اردو سیارہ اور اردو کے سب رنگ وغیرہ ہیں۔ ہمارا ایک مرکز فیس بک پر اردو بلاگرز گروپ کی صورت میں بھی ہے۔ کبھی کبھی دل پشوری کے لئے انٹرنیٹ کے گھنے جنگل میں بھی سیروتفریح کرنے آ جاتے ہیں۔

یہ سب سن کر بھوت ایک طنزیہ سی مسکراہٹ ہم م م م۔۔۔ کے ساتھ بولا اچھاااا۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے جس طرح کی تم آپس میں باتیں کر رہے تھے، اس سے مجھے لگا کہ تم لوگ کوئی تیس مار خاں ہو، ساری دنیا یہاں تک کہ میڈیا بھی تم لوگوں کو اغوا یا بدنام کرنے کے درپے ہے، مگر اب مجھے پتہ چلا کہ اصل میں تم لوگوں نے خوش فہمی کی افیون کھا رکھی ہے اور مدہوشی میں ادھر ادھر کی چھوڑ رہے تھے۔

حقائق کے بھوت کی یہ باتیں سنتے ہی ہمارا خون کھول اٹھا۔ کچھ بلاگر دلائل سے بات کرنے ہی لگے کہ ایک جیالا آگے بڑھا، نعرہ مارتے ہوئے بھوت پر کفر کا فتویٰ صادر کر دیا۔ دوسرے نے کہا کہ جا جا ”دُر فٹے منہ تیرا، وڈا آیا حقائق کا بھوت“۔ ایک آواز آئی پکڑ لو جانے نہ پائے۔ چیختی آواز سنائی دی کہ خبیث دہریہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک دہریہ بلاگر بولا، نہیں نہیں یہ بھوت دہریہ ہرگز نہیں۔ مُلا بلاگر بولا چپ کر دہریے، تو پہلے ہی بلاگنگ پر ایک دھبہ ہے۔ تو بھی کافر، یہ بھوت بھی کافر۔۔۔ بس پھر حقائق کے بھوت کو چھوڑ کر سارے بلاگر آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ زہریلے الفاظ کی بارش ہونے لگی۔

یہ سب دیکھ سن کر بھوت کو غصہ آیا اور چیختے ہوئے بولا چپ کرو۔ پہلے تو میں تم لوگوں سے اس لئے بات کر رہا تھا کہ چلو ان کو کچھ سمجھاتا ہوں مگر اب سنو اصل حقائق۔ آخر تم لوگ ہو کیا؟؟؟ پورے انٹرنیٹ کے جنگل کو چھوڑو صرف پاکستانی جنگل کی ہی بات کر لو تو چند لوگوں کے علاوہ تمہیں کوئی جانتا تک نہیں۔ تمہیں کوئی پڑھتا تو ہے نہیں اور تم خود ایک دوسرے کی تحاریروں پر تبصرے کر کے ”ڈنگ ٹپاؤ (دن گزارو)“ پالیسی کے تحت چل رہے ہو۔ تھوڑی دیر پہلے تم لوگ جو خدشے ظاہر کر رہے تھے، مثلاً کہ کہیں کوئی بندہ یا ادارہ اردو بلاگنگ کو اغوا نہ کر لے یا روائتی میڈیا کے مگر مچھوں کو خریدنے کی طرح برے لوگ اردو بلاگران کو خریدنے کی کوشش کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں بھوت نے پھر ایک زور کا قہقہ لگا کر، طنزیہ انداز میں کہا کہ بڑے ادارے؟ اردو بلاگنگ کا اغوا؟ اردو بلاگران خریدنے؟؟؟ ہا ہا ہا۔۔۔ صدقے جاؤں تمہارے۔۔۔ کیا پدی، کیا پدی کا شوربہ۔۔۔ اوئے یہ جو تم لوگ ایک دوسرے کو خوش فہمی کی افیون دیتے ہو، اس کے نشے سے باہر نکلو اور دیکھو کہ حقیقت میں تم کتنا اثر رکھتے ہو۔ بھوت نے انٹرنیٹ کے جنگل کے چاروں اطراف دونوں بازو کھول کر اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک عام بلاگ پر روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں مگر تمہارے بلاگوں کو دو چار سو لوگ دیکھ لیں تو تم الٹی چھلانگیں لگاتے ہو۔ اب خود اندازہ کرو کہ تم لوگ کتنے پانی میں ہو، معاشرے پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہو اور سوچ رہے ہو کہ کہیں برے لوگ تمہیں ہائی جیک نہ کر لیں۔ ہا ہا ہا۔۔۔اگر تم سوچ رہے ہو کہ مسئلہ زبان کا ہے یعنی انٹرنیٹ کے جنگل میں جن بلاگوں پر روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں وہ بلاگ انگریزی میں ہیں تو کچھ عقل سے کام لو۔ ایسا نہیں بلکہ ہر ملک کی قومی زبان میں لوگ بلاگنگ کر رہے ہیں اور ان کے بہت زیادہ قارئین ہیں۔ تمہارا مسئلہ زبان نہیں بلکہ سوچ کا معیار اور کچھ نیا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ تم لوگ اسی گھسے پٹے انداز میں سیاست، معاشرت اور سائنس وغیرہ کا رونا روتے ہو۔ یہ سب طریقے پرانے ہو چکے ہیں۔ لوگ کچھ نیا اور ہلکا پھلکا پڑھنا چاہتے ہیں۔ بہت لوگ اردو پڑھنا چاہتے ہیں مگر ذرا مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم لوگوں نے ایسا کونسا تیر مارا ہے جو لوگ تمہیں پڑھیں۔ جاؤ جاؤ اپنی کچی سوچ کی بستی میں جاؤ اور آپس میں دست و گریبان ہوتے رہو۔ یہ کہہ کر بھوت ناک منہ چڑاتے اور مزید یہ کہتے کہتے جانے لگا کہ جسے دیکھو کہتا پھرتا ہے کہ ابھی اردو بلاگنگ ابتدائی مراحل میں ہے۔ تم لوگوں نے اپنی نالائقیوں کو چھپانے کا اچھا بہانہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ بندہ پوچھے آٹھ دس سال تو اردو بلاگنگ کے آغاز کو ہو گئے ہیں ابھی اور کتنے سال تم لوگوں نے ابتدائی مراحل میں رہنا ہے۔ جاؤ کاکو! کسی اور دنیا میں جاؤ، پہلے اپنے ذہنوں کو جوان کرو پھر آنا بلاگنگ کے میدان میں۔۔۔ ہن ں ں ں۔۔۔

بہت ہی کڑوے سچ کہہ کر حقائق کا بھوت جانے ہی لگا کہ ایک اردو بلاگر جو شروع سے آخر تک چپ تھا، یک دم چھلانگ لگا کر آگے آیا اور بولا۔ اوئے بھوت، ٹھہر! ہماری بات سن کر جانا۔ بھوت رک گیا اور اردو بلاگر کی سننے لگا۔ بلاگر نے کہا کہ ہم تیرے یہ سارے حقائق مانتے ہیں مگر کیا تو نے ہماری اردو بلاگنگ کی تاریخ پڑھی ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ ہم کن مشکلات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں؟ تیرے اس انٹرنیٹ کے جنگل میں اکثریت کے سر پر کسی نہ کسی کا ہاتھ ہے، مگر ہم لوگوں نے بغیر کسی سہارے کے اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ کیا ہے۔ تو ہمارا موازنہ ان ”برگروں“ سے نہ کر جو دولت اور سہولیات کے زور پر اس جنگل میں تمام حفاظتی انتظامات کے ساتھ آتے ہیں بلکہ تو ہمارا حوصلہ دیکھ کہ بغیر کسی ڈھال کے ہم شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ جب یہ تیرے سارے ”برگر“ فراڈیوں کے نعرے مار رہے تھے تو انہیں اردو بلاگران نے سچ کا عَلم بلند کیا تو تیرے ان برگروں کو بھی ہوش آ گیا اور سوشل میڈیا پر حقیقت کے نام پر چھلانگیں لگانے لگے۔ ہم درست ہیں یا غلط، اسے چھوڑ، تو ہمارا شیر سا کلیجہ دیکھ کہ ہم جو سوچتے ہیں وہ دھڑلے سے لکھتے ہیں۔ ہے تیرے کسی برگر میں ہمارے جتنی دلیری؟ تو ہمارا موازنہ میڈیا سے نہ کر، ان کے پیچھے تو بڑے مضبوط ہاتھ ہیں، تو ہمیں دیکھ جن کے تن پر کپڑے نہیں پھر بھی تیرے اس انٹرنیٹ کے جنگل میں شیروں کی طرح گھوم رہے ہیں، اور تو اور تجھ جیسے حقائق کے بھوت سے بھی ٹکرا گئے ہیں۔ بس تھوڑا انتظار کر، وہ دن دور نہیں جب ہم تیرے اس جنگل پر راج کریں گے۔

اردو بلاگر کی اتنی باتیں سننے کے بعد بھوت کی عقل کچھ ٹھکانے آئی، جارحانہ لہجہ تبدیل ہو گیا اور وہ دلائل سے بات کرنے لگا۔ حقائق کا بھوت بولا، ٹھیک ہے تم لوگوں میں بہت خوبیاں ہیں، مگر تم لوگ ایسے شیر ہو جو آج تک کچھار میں ہی بیٹھے ہو۔ نہ تم نے باہر کی دنیا دیکھی اور نہ ہی باہر کی دنیا (انٹرنیٹ کمیونٹی) جانتی ہے کہ تم جیسے شیر بھی کوئی وجود رکھتے ہیں۔ ایک طرف دھڑلے سے بات کہنے کے معاملے میں تم لوگ شیر ہو تو دوسری طرف چند لوگوں کے علاوہ کسی میں اتنا حوصلہ تک نہیں وہ بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر اردو تحریر کا ایک لنک دے سکیں۔ تم اردو بلاگران میں ہی کئی اتنے احساس کمتری کے مارے ہوئے اور غلام ذہنیت والے ہیں کہ اردو کمیونٹی سے باہر اِدھر اُدھر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات کر لیں گے مگر اردو لکھنے کا حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔ مزید بھوت بولا کہ بے شک تم لوگوں میں خوبیاں ہیں، مگر تمام خوبیوں کے باوجود تم لوگ شکی مزاج اور جنگجو قسم کے ہو۔ مصلحت کے تحت بھی کسی کے ساتھ چلنے کی بجائے فوراً مقابلے بازی پر اتر آتے ہو اور اپنا نقصان کرتے ہو۔ اگر کوئی تمہاری غلطیوں کی نشاندہی کرے تو اکثر اوقات تم لوگ اسے ہی دھر لیتے ہو اور وہ خاطر کرتے ہو کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی تمہارا بھلا چاہے اور خلوص کے ساتھ تمہیں باہر کی دنیا سے متعارف کروانا چاہے تو تم الٹا اس پر شک کرتے ہو کہ کہیں یہ ہمیں اغوا نہ کر لے۔ اگر تم میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہے تو پھر بے فکر رہو، کوئی کسی کو اس طرح اغوا نہیں کر سکتا۔ باہر نکلو، کچھ ہلہ گلہ کرو، ڈنکے کی چوٹ پر اردو لکھو، لوگوں سے روابط بڑھاؤ، اپنے اندر دنیا کے ساتھ چلنے کا حوصلہ پیدا کرو تاکہ لوگ تمہیں جانیں، تمہیں پڑھیں، تمہارے وجود کا اقرار کریں۔ کئی دفعہ تو تم لوگ اپنے ساتھی بلاگران پر۔۔۔

بس بس بس۔ ابھی حقائق کا بھوت ”اگر مگر“ کرتے یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ میں نے اپنے تخیل کی اڑان کو بڑی مشکل سے ختم کیا اور فوراً لوٹ آیا۔ اب اس کی باتیں واقعی حقائق پر مبنی تھیں اور وہ ایک خوفناک شکل اختیار کر رہا تھا۔ عام انسانی فطرتی کمزوریوں کی وجہ سے مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ان تلخ حقائق کا مقابلہ کر سکتا، اس لئے ”لینڈنگ گیئر“ کھولا اور زمین پر اتر آیا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو تخیل کی اڑان بھریے، سچ کی تلاش کیجئے اور مجھے بھی سمجھائیے۔

اوئے بلال نس اوئے۔۔ تو نے شہد کے چھتے (بلاگستان) کو چھیڑا ہے۔۔ پتلی گلی ڈھونڈ اور نکل لے۔۔ کہیں روپوش ہو جا۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 26 تبصرے برائے تحریر ”اردو بلاگر اور حقائق کا بھوت

  1. صد فیصد درست فرمایا مگر میرا تھوڑا سا اعتراض بھوت صیب کی خوش فہمی پر ہے کہ ” لوگ کچھ نیا اور ہلکا پھلکا پڑھنا چاہتے ہیں۔ بہت لوگ اردو پڑھنا چاہتے ہیں مگر ذرا مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم لوگوں نے ایسا کونسا تیر مارا ہے جو لوگ تمہیں پڑھیں”- میرے خیال میں تو بھائی کوئی نہیں پڑھنا چاہتا لوگوں کو فقط سیاست پڑھنے سے دلچسپی ہے بس باقی کچھ نہیں۔جیسے بلاگر ویسے قاری۔ :mrgreen:
    اور باقی ہائی جیک کرنے کے بارے تو میں نے پہلے بھی کہا تھا پھر عرض کرتا ہوں کہ کوئی بھی تقریب میں جانے سے یا کسی کا کھانا کھانے سے میرا تو نہیں خیال میرے خیالات بدل جائیں گے اور ہم پر پستول رکھ کر تو وہ لکھوانے سے رہے اور لکھوا بھی لیں تو پھر وہی بات آتی ہے کہ میرے خیال میں ہمارا دائرہ اتنا محدود ہے کہ وہ کوئی فائدہ مند نہیں۔
    باقی ایک بار پھر لاجواب لکھا ہے آپ نے خوش رہیں

  2. یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اردو اور انگریزی بلاگس میں اتنا ہی بعد ہے جتنا ملکی ساختہ ٹرانسسٹر اور حالات حاضرہ اور خبروں کے جدید ٹی وی چینل کے آلات نشر میں ہوسکتا ہے۔
    لیکن میں اس موازنہ سے متفق نہیں ہوں اور اسکی ایک ذاتی سی وجہ ہے۔ جس کی تفصیل میں جانا الزامات کو سر لینے والی بات ہوگی۔ آج سے محض 2 سال پہلے تک میں انگریزی میں بلاگنگ کرتا تھا۔ اردو بلاگنگ کے بارے میں میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا ایک بار موضوع کی تحقیق میں برادر کاشف نصیر کے بلاگ پر جا پہنچا اور پھر وہاں سے سیدھی پرواز عنیقہ ناز مرحومہ کے بلاگ پر کی۔۔۔۔۔اس دن کے بعد سے ہی میں نے انگریزی بلاگس پر تین حروف بھیج دیے۔ اور اردو بلاگس پر تبصرے کرنا شروع کردیے حالانکہ مجھے کمپیوٹر پر اردو لکھنا بھی نہیں آتی تھی گوگل ٹرانسلٹریشن پر جاکر رومن اردو کو اردو میں تبدیل کرکے تبصرے کیا کرتا تھا۔ جو کچھ سیکھا محض اپنے شوق کی بنیاد پر سیکھا۔
    اگر آپکا خیال یہ ہے کہ انگریزی بلاگ پر کوئی معرکہ خیزی ہو رہی ہے تو مجھے معاف فرمائیے گا وہاں پر معاملات اردو بلاگنگ سے کہیں زیادہ خراب ہے۔یہاں اگر پاکستانی ہے تو وہاں پر بھی یورپین نہیں بیٹھے ہوئے۔
    مستقبل اردو بلاگنگ کا ہی ہے صرف اور صرف اردو بلاگنگ کا ۔۔۔۔۔ رکاوٹ اردو بلاگنگ سے آگاہی اور اردو لکھنے کی ضروری معلومات کا نا ہونا ہے۔

    1. آپ کے اس مثبت تبصرے سے کچھ دلی سکون ہوا ورنہ تو آپ کے مضمون “فحاشی کی تعریف” پڑھ کر آدھی جان نکل گئی تھی کہ کہیں جناب حالات حاضرہ کے صرف منفی رخ پر ہی توجہ دھرنے والوں میں‌سے نہیں؟

  3. اس پوسٹ میں غصہ کرنے والی تو کوئی بات نہیں
    ہاں غصہ کھانے والی باتیں کہ غصہ کھاؤ خود پر اور اورمحنت کرو
    کہ نام محنت سے ہی بنتے ہیں
    جو لوگ کام کرتے ہیں ان کا نام ہوتا ہے
    اور
    جو لوگ شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں ، بد نامی ان کا پیچھا کرتی ہے

  4. اس بھوت کی ایسی کی تیسی۔
    اب کے جنگل میں آئے تو مجھے بتائے گا۔
    میرا کتورا کسی شیر سے کم نہیں ،
    میرے کتورے نے اس کی دھجیاں اڑا دینی ہیں۔
    دوسری زبانوں کے بلاگر وں سے اردو بلاگرز کا معیار بہت اونچا ہے۔ کم از کم جپانی بلاگرز سے۔
    رہ گئے برگر بلاگر تو اگر ان کا معیا ر بلند ہے۔تو جناب وہ بھی معاشرے حالات کا رونا ہی تو روتے ہیں۔
    جعفر ، بلا امتیاز ، مرحوم بلاگر ڈفر ، علی ، جیسے اعلی اور ہلکا پھلکا لکھنے والے۔۔انگریجی کے برگر بلاگر میں پائے جاتے ہیں؟
    یہی بلاگر ” انگریجی” معیار کا بلاگ لکھنا شروع کردیں تو ۔۔بھوت صاحب سب سے پہلے “بے حیا” بلاگر کا فتوی دے دیں گے۔

  5. میں بھی اردو میں بلاگنگ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کچھ سمجھ نہیں لگتا۔ دوسری بات یہ کہ کوئی اللہ کا بندہ کوئی اچھی سی اردو تھیم ہے بنا دے۔

  6. جو بلاگر شروع سے آخر تک چپ تھا وہ میرا خیال ہے بلال صاحب ہونگے ۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اردو کےحوالے سے اگر کوئی کچھ کرسکتے ہیں اور نالج بھی ہے تبصروں تجزیوں سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔تو وہ اپنی کتب شائع کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بجائے بلاگنگ کرنے کے۔

  7. میرا خیال ہے کہ صاحبان اردو بلاگ کو خوش فہمی نہیں غلط فہمی ہے کہ ان کو کوئی نہیں پڑھتا ، بھائی جی وقت تو آفاقیوں کو بھی لگتا ہے پھلنے پھولنے میں ۔ میں یہ تو دعوی نہیں کرتا کہ اردو بلاگز مزید چند سالوں میں سورج کی طرح چمکیں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب موضوعات اور تحریروں میں اضافہ ہو گا تو یقینا اردو بلاگز کی بھی وہی اہمیت ہو گی جو انگریزی بلاگز کی ہے۔ کیا یہ کم کامیابی ہے کہ ہزاروں لاکھوں قاری رکھنے والے ادارے و اشخاص آپ لوگوں کی تحریریں چراتے پھر رہے ہیں :mrgreen:

    1. جی جناب آپ نے بالکل صحیح کہا۔ میں نے کئی فیس بک کے مشہور پیجز پہ بلال بھائی اور دوسرے لوگوں کی تحاریر پڑھیں ہیں۔ ان سے التجاء بھی کی ہے کہ حوالہ لکھا کریں۔ اردو بلاگز پہ اب وہ وقت نہیں رہا۔ بیشک لوگ ابھی لکھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ مگر اردو بلاگز کو ہزاروں کی تعداد میں پڑھاجاتا ہے۔

  8. بلال صاحب شائد چند باتوں سے اختلاف کروں کہ بھوت صاحب کی بعض دلائل سے میں متفق نہیں ہوں۔

    پہلی بات تو یہ کہ کمپیوٹر مین اردو لکھنے اور اسکو مستقل اسکو ذریعہ تحریر بنانے کیلئے سال دو سال قبل کوئی خاص انتظام نہ تھا۔ آج سے چند سال قبل جو لوگ اردو لکھتے تھے ،تووہ یا تو صرف ان پیج سے کام لیتے تھے اور یا رومن اردو لکھتے تھے۔ جو ساتھی اردو فونٹس انسٹال کرتے تھے اور پھر اسکے ذریعے لکھتے تھے تو شائد وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔

    آپکے توسط سے اردو میں لکھنا اور پڑھنا کافی اسان ہوا ،اور لوگوں کی رغبت اردو کی طرف بڑھنے لگی۔ خود میں نے کئی دفاتر وغیرہ میں پاک اردو انسٹالر کا تعارف کروایا۔اور اب اردو لکھنے اور پڑھنے کے بارئے میں جان کرلوگ اہستہ اہستہ انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں ۔

    میرئے خیال میں اگر ہم موازنہ کر لین کہ کب سے انترنیت پر انگریزی لکھنا آسان ہوئی ہے اور پھر کس فیصدی سے انگریزی بلاگ لکھے جا رہے ہیں تو شائد اتنے عرصے مں اردو بھی کافی ترقی کر لے۔

    ہلکے پھکے انداز مین لکھنے پر یاسر جاپانی بھائی کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں ۔

    اخر میں یہ کہونگا کہ سوشل میڈیا کی گونج کچھ کچھ اعلیٰ ایوانوں میں بھی سنی جا رہی ہے ،ہاں کسی معین نقطے پر انگلی رکھنا کہ جناب یہاں کی زیادہ سنی جا رہی ہے ،شائد تھوڑی مشکل ہو۔
    ویب سائٹس پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ یونیکود اردو کی ایک فضا ء سی بن رہی ہے،لیکن اب کافی اور کام بھی کرناہے اردو کیلئے ،اور وہ بھی بے سر و سامانی کے عالم میں ۔
    تو حوصلہ ہارنا نہیں بلکہ کمر باندھنا ہے۔

  9. اسلام و علیکم، انٹرنیٹ‌کے جنگل میں‌سیر کرتے ہویے اردوے بلاگنگ کے خوبصورت پودے سے تعارف ہوا، یہ پیدا بھلا قد میں‌چھوٹا ہو گھنے جنگل میں‌ایک تنہا پودا ہو مگر جس رفتار سے اس کے قد میں‌اضافہ ہو رہا ہے اور جس شوق اور محنت سے اس کے چاہنے والے اس کی رکھوالی اور اس کی دیکھ بھال کر رہے یں انشاللہ کچھ عرصہ بعد یہ اس گھنے جنگل میں‌دور سے پہچانا اور مانا چایے گا۔ دیے سے دیہ جل رہا ہے میں‌ںے خود اور 15 سے 20 افراد کو پاک اردو انسٹالر استعمال کرونا شروع کروا دیا صرف 6 ماہ میں، اور آج ٹوئیٹر ہو یا فیس بک ہم اردو میں‌ہی اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔
    اردو مٰں بلاگ لکھنے کا شوق اور اردہ بھی ہے امید ہے اس جنگل کے پرانے باسی اس نورد کی راہنمائی کریں‌گے تاکہ جلد منزل تک پہنچ سکوں

  10. بہت اچھا لکھا اور بہت اچھا لگا آپ کےخیالات کی وادیوں کو دیکھا کر یعنی پڑھکر ۔۔۔ میں نے بھی پانچ سال پہلے یہاں بلاگ بنایا تھا مگر کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیسے اردو لکھی جائے کیسے بلاگ کو استمعال کیا جائے پھر میں نے ایک فورم پر دل لگا لیا وہاں بلاگ بھی بنایا اور سب کچھ سیکھ بھی لیا پانچ سالوں کے بعد جب یہاں کی خبر لی تو اپنے چھوٹے سے کونپل کے اطراف لمبے لمبے درخت بھرے ہوئے دیکھےتو میں نے بھی نئے عزم سے اپنی تخیلات کی دنیا بسانے کی تھان لی ۔۔۔ ہم اپنی اس نکری کو تب ہی آباد کر سکے گے جب ہم ایک دوسروں کی محنت اور کاوش کو دل چسپی کی نگاہ سے دیکھے اور سراہنگے ۔۔خود کو عزت کے قابل بنایا جائے تو ہی دوسرے عزت کرتے ہیں ۔۔۔ میں نے یہاں واپس آنے کے بعد بہہت اچھے اچھے لوگ پائے ہیں بہت سارے اردو بلاگرز کا لکھا پڑھی بھی ہوں اور چپکے چپکےباتیں بھی سنی ہیں سب بہت ا چھے ہیں ۔ ان شاء اللہ بہہہہت بہت آگے جائنگی یہ اردو بلاگنگ

  11. اس حقائق کی بھوت کی تو۔۔۔۔۔
    لیکن بھوت کی زیادہ تر باتیں درست ہیں۔ میرے خیال میں سب سے بڑی وجہ جو شاید کسی نے اوپر بیان بھی کی تبصرے میں، وہ یہی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا پتا ہی نہیں کہ اردو بھی لکھی جا سکتی ہے۔۔۔ اردو انسٹالر نے تو بہرحال ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ اب کسی کو یہ نہیں بتانا پڑتا کہ اردو لکھنے کیلئے یہ چاہیئے، وہ کرو ایسا کرو وغیرہ۔۔ بس ایک کلک کرو اور ہو گیا!
    برف پگھل رہی ہے اور امید کی کرن چمکنے ہی والی ہے بسسسس۔۔۔۔ 😀

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *