مستری جی کو خدا حافظ کہہ کر ”لاہور چلے ہم“ کا نعرہ لگایا تو پتہ چلا کہ اسی دن (23جنوری2013ء) محسن عباس بھائی بھی لاہور جا رہے ہیں۔ یوں ہم دونوں کا ایک ساتھ لاہور جانے کا پروگرام بن گیا۔ ہم دونوں چناب کنارے ملے اور لاہور روانہ ہو گئے۔ امید تھی کہ ”زندہ دلانِ لاہور“ و ”لاہوری اردو بلاگر“ ہمیں راوی پل پر خوش آمدید کہیں گے۔ 🙂 مگر ایسا نہ ہوا بلکہ وہی سڑکیں، سڑکوں پر ناچتی گاڑیاں اور صرف اپنی زندگیوں میں مصروف “زندہ دلانِ“ لاہور۔ خیر ہم پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کے کام کاج کے سلسلے میں رات سات بجے کے قریب ”پاکستان ٹوڈے“ کے دفتر سے ارسلان عدنان کو ساتھ لے کر، اس ہوٹل پہنچے جہاں اردو بلاگران کو ٹھہرانے کا انتظام تھا۔ بذات خود ایک ایک کمرہ دیکھنے اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دے کر ہوٹل سے چل دیئے۔
ہوٹل سے ہم عمران عدنان صاحب کے دفتر پہنچے تو پتہ چلا کہ ارسلان عدنان، عمران عدنان، احمد ہمایوں خان اور نواز طاہر وغیرہ کانفرنس کے انتظامات میں محسن بھائی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ محسن بھائی کی زبانی ان لوگوں کے نام سن چکا تھا مگر ملاقات پہلی دفعہ ہو رہی تھی۔ میری مصروفیات و سستی اور محسن بھائی کی چین سے پاکستان فلائیٹ کی تاخیر کے باعث کئی کاموں میں کافی تاخیر ہو چکی تھی۔ خیر جب ہم عمران عدنان صاحب کے دفتر پہنچے تو سب اپنے اپنے کمپیوٹر چالو کر کے کام میں لگ گئے۔ کوئی کانفرنس کے مقررین سے رابطے تو کوئی پریس ریلیز تیار کر رہا تھا۔ میں پچھلی رات صرف تین گھنٹے سویا تھا، پھر گجرات سے لاہور کا سفر اور پھر کام کاج، اتنی تھکاوٹ ہو چکی تھی کہ بے عقلی کے کسی کونے سے آواز آئی کہ م بلال م تم نے یہ کیا بلا (کانفرنس) اپنے گلے ڈال لی ہے۔ خیر کام کرنے والوں کو کھانے کا بھی ہوش نہیں تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کانفرنس میں صرف دو دن باقی تھے اور ان دو دنوں میں سے بھی ایک دن بارہ ربیع الاول کی چھٹی ہونے کی وجہ سے لاہور بند ہونا تھا اور پھر اگلے دن کانفرنس۔ آ جا کر ہمارے پاس ایک دن بچتا تھا اور اسی میں سارے کام مکمل کرنے تھے۔ خیر رات کے دو بجے ہمت جواب دینے لگی تو ہم کام کاج بانٹ کر اپنے اپنے ٹھکانوں کو چل دیئے۔ محسن بھائی نے بہت کہا کہ وہ جو فلاں مقرر کو تفصیلات بھیجنی ہیں وہ ابھی تیار کر لیتے ہیں مگر میں نے کہا اللہ والو اب جا کر آرام کرو۔ ان شاء اللہ کل سارے کام ہو جائیں گے۔
اس رات بھی ٹھیک طرح سے نہ سو سکا اور پھر اگلے دن (24 جنوری 2013ء) صبح جلدی جلدی اٹھ کر کام کاج کرنے لگ پڑا۔ سب سے پہلے چیمبر آف کامرس جہاں کانفرنس ہونی تھی اسے دیکھنے اور وہاں کا انٹرنیٹ چیک کرنے چلے گئے۔ سب کچھ ایک دم زبردست تھا۔ اسی دوران خرم ابن شبیر کا فون آیا کہ میں لاہور پہنچ چکا ہوں۔ میرے بعد کانفرنس میں شرکت کے لئے لاہور پہنچنے والا یہ دوسرا بندہ تھا۔ خیر سارا دن ادھر جا، اس کو یہ کہہ اور دیگر کام کرتے گزر گیا۔ رات آٹھ بجے دکانیں بند ہو جانی تھیں اور میں ڈیجیٹل پرنٹنگ کی ایک دکان کے کونے میں بیٹھا کانفرنس کی کچھ چیزیں ڈیزائن کر رہا تھا۔ دکان بند ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے۔ اللہ بھلا کرے میرے ہم نام محمد بلال خان کا جس نے سٹیج پر لگنے والا بینر وقت پر تیار کر دیا اور محسن بھائی اسے چین سے ہی پرنٹ کروا لائے تھے۔ میں اسی سٹیج والے بینر سے گرافکس لے کر ڈیزائن تیار کر رہا تھا۔ اسی دوران دکان والوں کی نظر براہ راست فوٹوشاپ میں لکھنی جانے والی اردو پر نظر پڑی تو وہ بہت حیران ہوئے۔ ان کے پوچھنے پر پاک اردو انسٹالر کا تعارف کروایا ہی تھا کہ انہوں نے کہا بھائی جان سکون سے کام کرو اب ہم آٹھ بجے دکان بند نہیں کرے گے مگر ایک شرط پر کہ جانے سے پہلے ہمیں اس پاک اردو انسٹالر کے بارے میں تفصیلی بتا کراور پاک اردو انسٹالر دے کر جانا۔ میں نے دل میں کہا کہ ”نیکی اور پوچھ پوچھ“ بہرحال ہمارا کام کوئی نو ساڑھے نو ختم ہوا۔ دکان سے نکلتے ہوئے میں نے کہا یہ پاک اردو انسٹالر میں نے ہی بنایا ہے تو ان لڑکوں نے مجھے ایسے پکڑ لیا جیسے میں ان کا پیر ہوں۔ خیر پھر ملنے کا کہہ کر دکان سے نکل آئے۔ اس کے بعد دیگر کچھ کام کاج اور کانفرنس کے سلسلے میں ہی چند لوگوں کو ملنا تھا تو ادھر چلے گئے۔کراچی اوردیگر علاقوں سے آنے والے اردو بلاگران جو اس وقت سفر میں تھے انہیں چند ضروری ہدایات بذریعہ ایس ایم ایس بھیجیں۔ یوں رات چار بجے فارغ ہوئے۔
25 جنوری کی صبح آٹھ بجے اٹھا۔ کچھ کام کاج کیے، پھر گیارہ بجے کے قریب کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی سے آنے والے کاشف نصیر، اقبال حیات اور شعیب صفدر بھائی کو میں اور محسن بھائی ریلوے اسٹیشن لینے گئے۔ بس جی موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو نہ مل سکے۔ ہم ریلوے اسٹیشن پر انتظار کرتے رہے جبکہ مہمان رکشہ لے کر ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ کافی انتظار کے بعد ہم ہوٹل واپس آئے تو استقبالیہ پر تینوں بلاگران سے ملاقات ہوئی۔ سب بڑی گرم جوشی سے ملے۔ کراچی سے آنے والوں کو دیکھ کر میری طرف سے کانفرنس تو اسی وقت کامیاب ہو گئی تھی۔ کراچی والے نہا دھو کر تازہ دم ہوئے تو ہم کھانا کھانے چلے گئے۔ کھانے کے بعد عین لکشمی چوک کے درمیان کھڑے ہو کر تصاویر بناتے رہے اور لاہوری ہم پر ہنستے رہے۔ ہوٹل پہنچ کر ہم سب گپ شپ کرتے رہے جبکہ محسن بھائی اور احمد ہمایوں خان صاحب کراچی سے آنے والے ایک صاحب کو ایئر پورٹ لینے چلے گئے۔ اب کانفرنس کی انتظامیہ میں کراچی والے دوست بھی شامل ہو چکے تھے۔ میں کراچی والے دوستوں کو پہلی دفعہ مل رہا تھا اور اس سے پہلے میری ان سے کوئی خاص سلام دعا بھی نہیں تھی مگر مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر ہمارے درمیان ایسا کونسا رشتہ تھا جس وجہ سے ہم پانچ منٹ کے اندر اندر ایسے گھل مل گئے تھے جیسے صدیوں کی دوستی ہو۔ اسی دوران پشاور سے دنیا ٹی وی چینل کے سٹاف رپورٹر مسرت اللہ جان صاحب تشریف لے آئے۔ ان کو کمرہ کھلوا کر دیا تاکہ وہ آرام کر سکیں۔ محسن بھائی ائیر پورٹ سے شام کو تقریباً سات بجے واپس آئے تو پھر میں، کاشف نصیر، اقبال حیات اور شعیب صفدر بھائی گاڑی لے کر مال روڈ کا چکر لگانے نکل پڑے۔ اسی دوران ایک دوست کا فون آیا اور وہ طنزیہ انداز میں بولا کہ تم تو کہہ رہے تھے کہ کانفرنس چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ہونی ہے جبکہ اردو بلاگ فورم کی ویب سائیٹ پر ایوان صنعت و تجارت کا لکھا ہوا ہے۔ 🙂 یوں کانفرنس کے دنوں کا پہلا لطیفہ وجود میں آیا۔ خیر کراچی والوں کو کئی اہم مقامات کا تعارف کروانے کے بعد ہوٹل پہنچے۔ اتنے میں محسن بھائی کے کچھ دوست بھی آ چکے تھے تو ہم سب مل کر رات کا کھانا کھانے چلے گئے۔ اس کھانے میں اردو بلاگر کاشف نصیر، م بلال م، اقبال حیات، جواد فیضی(مست ایف ایم 103 لاہور)، مسرت اللہ جان اور محمد عامر وغیرہ شامل تھے کیونکہ شعیب صفدر بھائی اپنے رشتے داروں کے گھر ان سے ملنے چلے گئے تھے۔
موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے کئی کام متاثر ہو رہے تھے۔ لائیو سٹریمنگ کے لئے کیمرے کی تار میں مسئلہ آ رہا تھا۔ ہوٹل کا انٹرنیٹ جو ایک دن پہلے ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر آج اسے موت پڑ چکی تھی۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والوں سے رابطے نہیں ہو رہے تھے۔ اوپر سے میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ اگر کچھ الٹا سیدھا ہوا تو میرے ہی کئی ساتھی بلاگران نے میری عقل ٹھکانے لگا دینی ہے۔ وہ کیا ہے کچھ بلاگران تو اس کانفرنس کو ”اپنی کانفرنس“ سمجھ رہے تھے جبکہ کئی لوگوں نے کانفرنس کی انتظامیہ کو حریف بنا رکھا تھا اور اسی تلاش میں تھے کہ کہیں ذرا سی بھی غلطی ہو اور ہم انتظامیہ کو دھر لیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں سالہا سال کی محنت کو نظر انداز کر کے صرف ایک چھوٹی سی غلطی پر بندے کو دھر لیا جاتا ہے۔
بلاگران کو رات ٹھہرانے کا انتظام ہوٹل کی چوتھی منزل پر تھا جبکہ بڑی مشکل سے ہوٹل کی دوسری منزل پر انٹرنیٹ چلا۔ اقبال حیات اور محمد عامر کو دوسری منزل پر عارضی طور پر کمرہ کھلوا کر دیا تاکہ وہ لائیو سٹریمنگ کا مسئلہ حل کر سکیں۔ اِدھر موبائل سروس چلی تو اُدھر کاشف نصیر نے رجسٹریشن کروانے والے احباب کو ایس ایم ایس کے ذریعے یادہانی کروائی۔ جب زندہ دلانِ لاہور اپنی زندگیوں میں مصروف تھے تب یہ سر پھرے کراچی سے آ کر کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ جب ایک دو لاہوری اردو بلاگر کو چھوڑ کر باقی کانفرنس میں جانے یا نہ جانے کا سوچ کر سو چکے تھے تب یہ کراچی کے اردو بلاگر انہیں ایس ایم ایس کر کے یاد کروا رہے تھے کہ بھائیو! آپ کے شہر میں کانفرنس ہو رہی ہے لہٰذا وقت پر پہنچ آنا۔ کراچی سے شرکت کرنے والے اردو بلاگرو! م بلال م آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہے اور آپ کو سلام پیش کرتا ہے جنہوں نے وقت پر پہنچ کر انتظامی معاملات میں ہمارا ساتھ دے کر اس پہلی دو روزہ بین الاقوامی اردو بلاگرز کانفرنس 2013ء کو کامیاب بنایا۔ خیر ہم سب کام کاج ختم کر کے تھکے ٹوٹے رات کے تقریباً ساڑھے تین بجے بستروں پر گر پڑے۔
اگلا حصہ:- اردو بلاگرز کانفرنس کا پہلا دن
چلو جی مبارک ہووے۔ بقیہ حصہ کا انتظار رہے گا۔
خیر مبارک جناب۔ ویسے مبارک تو سارے بلاگستان کے لئے بنتی ہیں۔ باقی ہر دوسرا بندہ آپ کا پوچھ رہا تھا کہ عبدالقدوس کدھر ہے اور کیوں نہیں آیا۔
بلال بھائی، زیادہ انتظار نا کرائیے گا باقی کی باتیں جاننے کیلئے۔ شکریہ شکریہ شکریہ
محمد سلیم بھائی میری کوشش ہے کہ جلد از جلد سارا احوال لکھوں۔ انتظار کروانے کی معذرت چاہتا ہوں۔
کانفرنس چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ہونی ہے جبکہ اردو بلاگ فورم کی ویب سائیٹ پر ایوان صنعت و تجارت کا لکھا ہوا ہے
یعنی آپ نے جگہ ہی غلط بتائی۔۔۔۔۔گلابی انگریجی کی ہمیں کیا سمجھ ۔۔۔ہیں جی
باقی کراچی والے واقعی ہی ہمارے پیارے ہیں۔۔ان کے اسی خلوص کی وجہ سے ہی ہمیں ان سے پیار ہے۔
کامیاب کانفرنس کی مبارکباد قبول کریئے۔
بس جی جگہ بتانے میں غلطی ہو گئی۔ 🙂
خیر مبارک جناب۔ ویسے آپ سب کو مبارک ہو جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔
ہیں ں ں ں ں ۔ابھی تک کئی نہیں کمنٹا ۔لو جی پھر تو میں نمبر لے گیا۔
میں باوجود کوشش کے بعض مسائل کے سبب شرکت نہ کرسکا، اور اس کنفرنس کو بہت مس کیا،لیکن اردو بلاگرز کی اس حوالے سے تحاریر سے شوق کچھ کچھ پورا ہوگیا۔۔بہرحال اللہ کا شکر ہے کہ کانفرنس کامیاب رہی ،اور آئندہ کیلئے ابھی سے ارادہ کرکے ختم ہوگئی۔
اور ہاں کانفرنس کا پہلا لطیفہ مبارک ہو۔
پچھلے دنوں چند وجوہات کی بنا پر ماڈریشن آن کرنی پڑی اور پھر بند کرنی یاد ہی نہیں رہی۔ اس وجہ سے آپ کو پہلے تبصرے نظر نہیں آ رہے تھے۔
بہرحال آپ کی محبتوں کا شکریہ۔ یہ سب دوست احباب کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے ورنہ میں اس قابل نہیں تھا۔
اتنی ساری محنت کا کریڈٹ تمام منتظمین کو جاتا ہے جنہوں نے ایک اعلیٰ قسم کی کانفرنس منعقد کروائی۔ میری طرف سے اس کامیاب کانفرنس پر مبارکباد قبول فرمائیں۔
بھائی کریڈٹ تو ہر اس اس کو جاتا ہے جس نے کسی بھی حوالے سے کانفرنس کو کامیاب کرنے میں کام کیا اور خاص طور آپ جیسے احباب جنہوں شرکت کر کے کانفرنس کامیاب کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔۔۔آمین
جان دے یار
چِل مار
یہ حریف سمجھنے والے نہ ہوں تو پرفیکشن نی آتی
تو کامیاب کانفرنس پہ مبارکیں وصول کر بس 🙂
لگتا ہے لغت میں ”ڈفر“ کا مطلب بدل دینا چاہئے کیونکہ ڈفر تو بہت سیانی باتیں کرتا ہے۔ باقی خیر مبارک جناب۔ اگر ایسے ہی حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو ان شاء اللہ اور بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
😛 😛
یہ تو آپ بھگو بھگو کہ مار رہے ہیں
ویسے جی اندازہ نہیں تھا اور میرا کسی کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ اسلئے میں تو اجنبیوں کی طرح شریک ہوا اور سارے واقف وہیں پر بنے۔
اسکے علاوہ میں نے رجسٹریشن میں لکھا تھا کہ کسی بھی قسم کی انتظامی مدد درکار ہو تو میں حاضر ہوں مجھے رپلائے تک نہیں آیا۔
نہ بھائی جان ہماری کیا مجال کہ کسی کو بھگو بھگو کر ماریں۔ باقی آپ نے جو انتظامی مدد کا رجسٹریشن کرواتے ہوئے کہا تھا تبھی تو لکھا ہے کہ ایک دو لاہوریوں کو چھوڑ کر۔ آپ کی وجہ سے ہی چند لاہوریوں کو چھوڑا ہے ورنہ تو۔۔۔۔ 🙂
ہا ہا چلیں بچت ہوگئی آپ کی :پ اب ہم بھی لاہور پہ سر اٹھا کر جئیں گے بھئی احسان کیا ہے
😛 😛
السلام علیکم
تفصیلی احوال شیئر کرنے کا شکریہ
کانفرنس کے انعقاد میں جن جن ساتھیوں نے کام کیا سب ہی شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اتنے کم وقت میں اتنا بڑا کام کرنا پڑے تو پھر راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد تو ہوتا ہے لیکن کام کی کامیاب تکمیل کے بعد جو سکون ملتا ہے وہ ساری تھکن بھلا دیتا ہے
امید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اردو بلاگران کا قافلہ جانب منزل رواں دواں رہے گا۔
سارے دوستوں کو میرے ولوں سلام
وعلیکم السلام
بھائی صرف کام کرنے والے ہی شکریہ اور مبارکباد کے مستحق نہیں بلکہ جنہوں نے شرکت کی وہ زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ رہی بات کامیابی کے بعد سکون کی تو بھائی جی یہ بلاگستان ہے یہاں کامیابی کے بعد سکون نہیں بلکہ لوگ الٹی تکلیف دیتے ہیں۔ مگر جس کے ساتھ آپ جیسے دوست احباب کی حوصلہ افزائی اور تعاون اسے کسی چیز کا کوئی غم یا خطرہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔۔۔آمین
اب تو آپ گر پڑے ہیں تو کیا کہیں ۔ چلیئے اگلی کانفرس پر سہی ۔ اگر میں زندہ ہوا
محترم ہم کہاں گر پڑے ہیں؟
باقی اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی اور لمبی عمر دے۔۔۔آمین۔ ہمیں ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے۔
ویل ڈن۔۔۔۔ کہانی کا پہلا حصہ تو بھاگ دوڑ میں ہی گزرا۔۔۔
شکریہ جناب۔ جی بالکل بھاگ دوڑ کرنی پڑنی، میں نہیں چاہتا تھا کہ میری طرف سے کوئی کمی رہے۔
مستری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تفصیل بھی لکھ دیں 😛
ارے بھائی تحریر کے شروع میں سب سے پہلا لنک ہی مستری والی بات کا ہے۔ بہر حال آپ اس لنک پر مستری والی بات پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.mbilalm.com/blog/i-am-going-to-lahore/
اردو بلاگر کانفرنس اچھا تجربہ تھاجسکے لئےہم بہرحال محسن عباس صاحب کے شکر گزار ہیں۔ مگر ہمیں کانفرنس اور اسکی اخباری کوریج سے زیادہ خوشی آپ بھائیوں سے ملکر ہوئی ہے۔وہ لمحہ کتنا خوبصورت تھا جب لاہور کی سڑک پر رات کے دو ڈھائی بجے گجرات کا ایم بلال اور کراچی کا ایم کاشف چہل قدمی کررہا تھا۔
آپ کا برجستہ انداز، شاکر عزیز کےکاٹ دار فقرے، محمد سعد کا پراسسنگ کرتا دماغ، ذوہیر چوہان کی خاموش طبعیت اور یاض شاہد صاحب کی پروقار شخصیت سے ملکر خوشی ہوئی۔ ابو عبداللہ، مہتاب ، راجہ اکرام ، پردیسی صاحب اور سعد ملک ودیگر لوگوں کی محبت بھی بہلائے نہیں بھولتی۔ آپ سب دوستوں کو کراچی والوں کی طرف سےکراچی یاترا کی دعوت ہے
اجی ہماری کانفرنس تو اسی وقت کامیاب ہو گئی تھی جب ہم آپ کو ملے تھے۔ واقعی اس چھوٹی سی چہل قدمی کا بہت مزہ آیا تھا۔ دوستوں سے یہ ملاقات ایک اہم یادگار بن گئی ہے۔ کراچی یاترا کی دعوت کا بہت بہت شکریہ۔ کوشش تو یہی ہے کہ جلد کراچی چکر لگے مگر دیکھیں حالات کیا کہتے ہیں۔
بہت بہت مبارک ہو ، خصوصا قرار دادِ لاہور بہت ہی اہم ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ گریجوائشن تک اردو لازمی اور کمپیوٹر سائنس کے نصاب میں اردو کمپیوٹنگ کا مضمون شامل کیا جائے۔
خیر مبارک جناب۔ ویسے قراردادِ لاہور والا آئیڈیا میرا تھا جو کہ آپ کی کانفرنس کے متعلق بھیجی گئی راہنمائی سے ہی میرے ذہن میں آیا تھا۔
بلال بھائی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پہ بہت بہت مبارک ہو۔
مجھے اس کانفرنس میں شامل نہ ہونے کا بہت افسوس ہے لیکن ان شاء اللہ بشرط زندگی اگلی بار لازمی شرکت کروں گا
خیر مبارک جناب۔ کسی کا تو پتہ نہیں مگر میں نے آپ کو بہت مس کیا۔ ویسے آپ آئے کیوں نہیں تھے؟ خیریت تو تھی؟ بہر حال اگلی دفعہ تو ہم آپ کو اٹھا کر بھی کانفرنس میں لے جائیں گے۔
دوسری قسط کا منتظر۔۔۔ 🙂
لیں جناب دوسری قسط حاضر ہے
http://www.mbilalm.com/blog/urdu-bloggers-conference-1st-day/
میں بلاگر تو نہیں ہوں لیکن پاکستان میں موجود کسی بھی قسم کی ایسی تعمیری سرگرمی کو دیکھ کر انتہائی دلی خوشی ہوتی ہے۔ اس سرگرمی کے موقع پر اگر میں پاکستان میں ہوتا تو لازم شرکت کرتا۔ خیر اس بات کی کمی آپ نے دور کر دی ہے یہ سارا احوال اتنی تفصیل سے لکھ کر۔ کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر تمام لوگوں کو بہت بہت مبارک باد۔