باتوں کی بجائے عمل پر یقین رکھنے والا ہمارا بلاگر ساتھی، جو کہ آج کل فیس بک سے کنارہ کشی کیے بیٹھا ہے۔ اس کا مجھ سے اکثر یہی شکوہ ہوتا کہ تم بلاگرز کے قصیدے لکھنے اور اپنے بلاگ کو اردو بلاگستان کا ”ریڈیو“ بنانے کی بجائے اصل کام اور دیگر تحاریر پر توجہ دو۔ مگر میں نے اپنے اس دوست کی ایک نہ سنی اور آج پھر وہی کرنے جا رہا ہوں۔ ہمارے اس دوست کا نام محمد سعد ہے، اکثر دوست احباب پیار سے اسے ”مولبی لینکس“ کہتے ہیں اور اسے تیزابیت ہوئی رہتی ہے، جبھی تو اس کے بلاگ کا عنوان بھی تیزابیت ہے۔ 😀
خاموشی سے کام کرنے والے محمد سعد نے 2012ء میں ایک دفعہ میری تحریر کی وجہ سے چند الٹی سیدھی چھلانگیں لگائیں۔ انہیں چھلانگوں میں اس نے اخبار نویس عامر ہاشم خاکوانی صاحب کی توجہ اردو بلاگنگ اور کمپیوٹنگ کی طرف دلائی اور اردو بلاگستان کا تعارف کرایا۔ عامر خاکوانی صاحب نے میری تکرار اور دل کے پھپھولوں سے بھری لمبی چوڑی تحریر بمشکل پڑھی اور ایک تبصرہ بھی کیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ اردو بلاگنگ اور کمپیوٹنگ کے لئے ان سے جو ہو سکا وہ کریں گے۔ اس کے بعد ان سے معلومات کا تبادلہ بھی ہوا، مگر غالباً عامر خاکوانی صاحب کی مصروفیات کے باعث کچھ خاص نہ ہو سکا۔ اس ”واقعے“ کے بعد محمد سلیم صاحب کی بلاگ تحاریر نومبر 2012ء سے روزنامہ دنیا میں شائع ہونا شروع ہوئیں اور آج تک ہو رہی ہیں۔ محمد سلیم صاحب کی زبردست معیاری تحاریر ہونے کے سوا مجھے نہیں پتہ کہ ان کی تحاریر کی اشاعت کی وجہ کون تھا۔ یہاں بتاتا چلوں کہ محمد سعد سے پہلے بھی اردو بلاگنگ اور کمپیوٹنگ کی ترقی کے سلسلے میں کئی احباب مختلف اداروں اور صحافیوں سے رابطے کرتے رہے مگر اکثریت بے سود۔ ان میں اکثریت تب اردو محفل پر موجود دوستوں کی تھی اور خاص طور پر الف نظامی (نعیم اختر) صاحب اس معاملے میں خاصے متحرک تھے۔ ویسے کبھی کبھار اخبارات اردو بلاگرز کا ذکر کر دیتے، جیسے بی بی سی اردو اور ایکسپریس وغیرہ۔ البتہ پہلی اردو بلاگرز کانفرنس پر اردو بلاگرز کو اخبارات میں اچھی خاصی کوریج ملی۔ انہیں دنوں کچھ ”بڑے لوگ“ بلاگرز کی ترقی سے ”ڈرتے“ بھی محسوس ہوئے۔ 😉
خیر پچھلے دنوں مصطفیٰ ملک صاحب کی تین چار تحاریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئیں اور سنا ہے کہ انہوں نے بھی اردو بلاگستان کے سلسلے میں مختلف اداروں سے رابطہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چند دن پہلے دنیا نیوز کے کالم نگار اور میگزین کے ایڈیٹر عامر خاکوانی صاحب نے چند اردو بلاگرز سے رابطہ کیا۔ اس میں مجھے اپنے بلاگ پر ہونے والے تبصرے اور ریاض شاہد صاحب کے بلاگ کا علم ہے۔ ان میں عامر خاکوانی صاحب نے کہا کہ ”کئی اردو بلاگرز کی تحاریر اچھی ہیں اور ان کے خیال میں ایسے بلاگرز کی تحاریر قومی اخبارات میں شائع ہو سکتی ہیں“۔ اسی دوران یاسر خوامخواہ جاپانی صاحب کی تحریر بھی روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی۔ خیر اخبار میں اردو بلاگرز کی تحاریر شائع ہونے کی بات ریاض شاہد صاحب اور جن ساتھیوں کی تحاریر پہلے شائع ہو چکی تھیں ان کی وساطت سے اردو بلاگرز گروپ اور دیگر جگہوں پر زیرِ بحث آئی اور کئی بلاگرز کو اس پر تحفظات بھی تھے۔
اسی دوران میری عامر خاکوانی صاحب سے بات ہوئی۔ جس میں میں نے بلاگرز کے تحفظات کا ذکر کیا اور مشورہ دیا کہ کسی بلاگر کی پہچان اس کا بلاگ ہوتا ہے۔ جو بلاگر اپنی بلاگ تحریر اخبار میں چھپوانے پر راضی ہیں، اگر ہو سکے تو ان کی تحریر کے ساتھ بلاگ کا لنک بھی شامل کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کم از کم بلاگر کے نام کے ساتھ ”اردو بلاگر“ لکھا جائے جیسے ”محمد سلیم:اردو بلاگر“۔ اس پر انہوں نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”اخبار میں اردو بلاگرز کی تحریر شائع کرنے سے مجھے خوشی ہوگی۔ میں ان سے خود رابطہ کر کے ان کا شکریہ بھی ادا کروں گا۔ لکھنے والے کا مقام بلند ہوتا ہے، اسے پوری عزت اور تکریم ملنی چاہیے۔“ بلاگ کا لنک اور نام وغیرہ کا جو مشورہ عامر خاکوانی صاحب کو دیا تھا اس کے متعلق کئی بلاگر ساتھیوں کو گوگل ہینگ آؤٹ پر آگاہ بھی کر دیا تھا۔ ویسے انہیں ایسا مشورہ اس لئے دیا تھا کہ بلاگرز نے جو سالہاسال لکھ کر اپنی منفرد شناخت بنائی ہے وہ برقرار رہے۔ جب کسی بلاگر کا قاری اس کی تحریر اخبار میں دیکھے تو اسے واضح پتہ چلے کہ یہ کون ہے۔ مزید قومی اخبار کے ذریعے بلاگستان کا تعارف بھی ہو جائے۔ اب دیکھ لیں کہ محمد سلیم صاحب کی تحاریر ان کی منفرد شناخت (اردو بلاگر) کے بغیر ہی پچھلے سال سوا سال سے روزنامہ دنیا میں مسلسل شائع ہو رہی ہیں مگر اس سے کچھ خاص نہیں ہو سکا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ مجھے نہیں علم کہ عامر خاکوانی صاحب نے اس کے علاوہ بھی کسی بلاگر سے رابطہ کیا یا کسی بلاگر نے ان سے کیا۔
بہرحال کئی لوگوں اور خاص طور پر عامر خاکوانی صاحب کی کاوشوں کے نتیجے میں 31 جنوری 2014ء روزنامہ دنیا کے ڈائجسٹ والے صفحے پر ”بلاگرز کی دنیا“ کے عنوان سے باقاعدہ اس سلسلے کا آغاز کیا گیا۔ جس پر مجھ سمیت کچھ بلاگر ساتھی دنیا نیوز کا اور خاص طور پر عامر خاکوانی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب کچھ صحافی بلکہ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں ضرورت سے زیادہ دوری اور مخالفت جنم لے چکی ہے، تب انہوں نے ایک ”بولڈ سٹیپ“ لیا اور اس غیرضروری تناؤ کو ختم کرنے کی کوشش کا آغاز کیا ہے۔ مزید اردو بلاگرز کی قابلیت کو سراہتے ہوئے اتنی اہمیت دی کہ روزنامہ دنیا میں باقاعدہ ایک سلسلہ بلاگرز کے نام سے شروع کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ باقاعدگی سے چلتا رہے گا۔ اس سے اردو بلاگستان کی ترقی بھی ہو گی اور بلاگرز کو مزید اچھا لکھنے کی تحریک بھی ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا نیوز کو بھی فائدہ ہو گا اور معیاری مواد ملے گا۔ مزید انٹرنیٹ پر اردو بلاگستان کے قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اردو بلاگر کو پڑھنے والے موجود ہیں۔ ایسی صورت میں جن اردو بلاگرز کی تحاریر اخبار میں شائع ہوں گی، وہ بلاگر بھی انٹرنیٹ پر دنیا نیوز کی مزید تشہیر کا باعث بنیں گے۔ اس کے علاوہ مین سٹریم میڈیا کے لئے کئی نئے بہترین لکھاریوں کو آگے آنے کا موقعہ ملے گا، جس کا سہرا دیگر چند احباب کے ساتھ ساتھ یقیناً دنیا نیوز اور عامر خاکوانی صاحب کے سر بھی سجے گا۔ اگر یہ سلسلہ بہتر طور پر چلتا رہے تو سوشل میڈیا اور خاص طور پر اردو بلاگستان کی تاریخ میں انفرادی حیثیت کے بعد دنیا نیوز وہ پہلا ادارہ ہو گا جس نے باقاعدہ اردو بلاگرز کی حوصلہ افزائی کی ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ اردو بلاگرز کانفرنس کے بعد یہ قدم اردو بلاگستان کا اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔ آخر پر ایک مرتبہ پھر دنیا نیوز اور عامر خاکوانی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمام اردو بلاگرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک بڑے صحافتی ادارے کی طرف سے ان کی قابلیت کا باقاعدہ اعتراف کیا گیا۔ یہ کسی ایک فرد یا بلاگر کی کامیابی نہیں اور نہ ہی کسی ایک کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے بلکہ یہ پورے بلاگستان کی کامیابی ہے اور اس میں بہت سارے لوگوں نے مختلف اوقات میں مختلف کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر وہ بلاگرز جو ہمت رکھتے ہوئے مستقل مزاجی سے بہتر سے بہتر لکھتے رہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ ایک اچھی شروعات ثابت ہو گی اور آگے مزید بہتری کے در کھلیں گے۔
اس سلسلے میں تمام اردو بلاگرز کی بہترین تحاریر شائع ہوا کریں گی۔ جو اردو بلاگرز اپنی تحاریر شائع کرانا چاہیں، وہ اپنی بہترین تحاریر ”بلاگرز کی دنیا“ سلسلے کے ریفرنس سے براہ راست عامر خاکوانی صاحب کے ای میل (aamir.hashim[at]dunya.com.pk) پر بھیج سکتے ہیں۔ یاد رہے اس سلسلے میں تحاریر شائع کرنے کے انتخاب کا اختیار دنیا ڈائجسٹ کے ایڈیٹر کے پاس ہے۔ مزید تحاریر بھیجنے سے پہلے اس سلسلے میں روزنامہ دنیا کی یہ باتیں ضرور پڑھ لیجئے گا کہ ”اگرچہ اردو بلاگنگ میں سیاست اور کرنٹ افئیرز مقبول ترین موضوع ہے، مگر ڈائجسٹ کے صفحے کے مزاج کو دیکھتے ہوئے بلاگرز سے استدعا ہے کہ وہ ہلکے پھلکے موضوعات کے ساتھ معلومات افزا، انسپائرنگ اور ادبی موضوعات کو ترجیح دیں۔“
اردو بلاگنگ کے میدان میں زبردست پیش رفت پر تمام سینیئر (عمر نہیں، تجربے کے اعتبار سے 🙂 ) بلاگران اور دنیا نیوز بالخصوص عامر خاکوانی صاحب کا شکریہ اور مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ روزنامہ دنیا میں اس سیکشن کو میں اردو بلاگنگ کی ترقی کے ایک نئے سفر کی شروعات سے تعبیر کروں گا کہ جو روزنامہ دنیا کے توسط سے شروع ہوا۔ مجھے امید ہے کہ اردو بلاگنگ کا یہ سیکشن جلد ہی مکمل صفحے پر قابض آجائے گا 😆
آپ نے بہت عمدگی سے اس نئے اقدام کی وضاحت کی اور اسے سراہا ۔
لیکن آپ کی اور جناب یاسر صاحب کی پوسٹ پر آپ لوگوں کے نام کچھ ناآشنا سے لگے۔ بلاگ کا ایڈریس ہونا چاہیے یا بلاگ کا نام اور ای میل کا پتہ بھی ہونا چاہیے تھا جیسے تقریبآ ہر کالم نگار کے کالم میں اس کے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ہی ایک بلاگر کا تعارف مکمل ہو سکے گا ۔ورنہ عام لکھنے والوں اور بلاگ لکھنے والوں میںفرق واضح نہیں ہو گا ۔ شکریہ
آپکی رائے سے کُچھ حد تک اتفاق کرتا ہوں لیکن یاد رہے یہ بلاگر حضرات کیلئے اِس نوعیت کی پہلی کامیابی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ، بلاگرز اور دُنیا نیوز کی کاوشوں کی وجہ سے جلد ہی بلاگر حضرات اِنشاءاللہ اپنے مقاصد حاصل کرنے لگ جائیں گے۔ اور پھر صرف نام کی بجائے اگر نام کے ساتھ اُردو بلاگر کا ٹیگ استعمال ہو تو ہمارے لئے یہی بہت بڑی ہے۔ کیونکہ اُردو بلاگستان کی ترقی اور پہچان میں ہی بلاگرز کی ترقی اور پہچان ہے!
نورین تبسم صاحبہ! آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن کالم اور ڈائجسٹ کی تحریر میںفرق ہوتا ہے اور دونوںکا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ باقی میری تحریر چونکہ ”بلاگرز کی دنیا“ سلسلے میں چھپی تھی اور سلسلے کی ہیڈنگ میں میرے بلاگ کا لنک موجود ہے۔ البتہ یاسر بھائی کی تحریر پرانی روٹین میں چھپی ہے۔ بہرحال روزنامہ دنیا نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ ہر بلاگر کی تحریر کے ساتھ اس کے بلاگ کا لنک بھی شائع کیا جائے گا۔ جیسا کہ میں نے تحریر میں بھی لکھا ہے۔ رہی نام کی بات تو ابھی شروعات ہے، ان شاء اللہ آہستہ آہستہ سب کچھ ترتیب میں آ جائے گا۔
میرے خیال سے یہ اُردو بلاگستان کیلئے نہایت اہم اور بےحد خوشی کی خبر ہے۔ اِس سے بہت سے بلاگر کے تحفظات نہ صرف ختم ہوں گے بلکہ پُرانے بلاگرز کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے وہ مزید بہتر اور مزید خوشی سے لکھ سکیں گے اور نئے افراد بھی بلاگستان کی اِس دُنیا میں خوشی رکھیں گے۔
بلال بھیا اِس کامیابی کا بہت سا کریڈٹ فقط آپکو جاتا ہے اور پھر باقی محنت کرنے والے بلاگر دوستوں کو بھی۔
بھیا کی جانب سے عامر خاکوانی صاحب اور اُن تمام افراد کا بہت حد شکریہ جنہوں نے اِس سلسلے میں کاوش کی!
یہ بہت اچھا اقدام ہے، لیکن کافی سارے قارئین کو بلاگرز کے بارے میں پتہ نہیں ہے، میں یہ کہا چاہتا ہوں کہ اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیے
اردو بلاگرز کانفرنس کے بعد اردو بلاگرز کے لئے یہ ایک اور بہت بڑی کامیابی ہے جو اردو بلاگستان کے لئے اہم سنگِ میل ثابت ہو گی ، قطع نظر اس بات کے کہ کس نے کیا کیا پاپڑ بیلے ، اس کا اجر اسے اللہ کریم سے ملے گا کیونکہ جس جس نے بھی اس کاز کو آگے بڑھانے کے کئے کوشش کی ، بلا شبہ اس نے اردو بلاگرز اور اردو کی ترویج و ترقی کے لئے کام کیا ہے ، بہر حال پھر بھی محمد سعد کی سعی اور عامر خاکوانی کے کا تعاون کے لئے ہم سب تہہ دل سے مشکور ہیں ، بلال بھائی آپ کا شکریہ آپ نے مجھ ناچیز کو بھی یاد رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پاکستان اردو بلاگستان کو شاد و آباد رکھے (آمین)
آج دنیا میگزین میں آپ کا آرٹیکل “انٹرنیٹ پر کمائی کے طریقے” پڑھ کر بہت خوشی ہوئی، یہاں پر اس موضوع پر ایک اہم جز ” فوریکس ٹریڈ’ کے بارے میں مکمل آرٹیکل کی اشد ضرورت ہے ، کیونکہ ان دنوں بہت سے لوگ اس ٹریڈ میں شامل ہوچکے ہیں ، فوریکس ٹریڈنگ کے بارے میں مکمل مثبت اور منفی پہلوؤں پرآرٹیکل ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بلال صاحب ، واقعی اسعد صاحب اور آپ کی کاوشوں کی داد دینا پڑے گی جنہوں نے اردو بلاگرز کو اخبارات میں متعارف کرانے کیلیے پہلا پتھر پھینکا۔ امید ہے دنیا نیوز کی تائید کرتے ہوئے باقی اخبارات بھی اس سسلے کو آگے بڑھائیں گے۔
بلال صاحب ، آپ نے شاید نوٹ کر لیا ہو گا کہ آپ کی تحریر میں دنیا نیوز نے آپ کے بلاگ کا ایڈریس غلط چھاپ دیا ہے۔
جی میں نے نوٹ کر لیا تھا اور اس متعلق روزنامہ دنیا کو اطلاع بھی کر دی تھی تاکہ درستی ہو سکے۔ جو شائع ہو گیا وہ تو واپس نہیں ہو سکتا البتہ آن لائن ورژن میں ٹھیک ہو جائے اور کم از کم آئندہ ایسا نہ ہو۔
ایک اچھا اور منفرد اقدام ہے۔
امید ہے بلاگنگ کی ترقی اور مزید سلیقہ مندی کا سبب بنے گی۔تحاریر کی پختگی پر زور دیا جائے گا۔
عامر خاکوانی صاحب اور دنیا نیوز کا شکریہ ،اس کاؤش کیلئے
لیکن اخر میں وہی کہ بلاگر کو بلاگنگ کی وجہ سے یہ مقام ملا، اسلئے بلاگنگ پر مزید توجہ چاہئے۔
کچھ احباب کے گلے شکوے ہیں دنیا نیوز والوں سے ،امید ہے وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
منصور مکرم ، دنیا نیوز دنیا گروپ کا ٹی وی چینل ہے، اس کی ویب سائیٹ کے معاملات الگ ہیں۔ روزنامہ دنیا اسی گروپ کا اردو اخبار ہے ، جو اس وقت لاہور، کراچی، اسلام آباد ،گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور کوئٹہ سے شائع ہو رہا ہے، ملتان سے بھی اس کا ایڈیشن جلد شائع ہوگا۔ روزنامہ دنیا کی بھی اپنی ویب سائیٹ ہے، جس کے معاملات کا مجھے زیادہ علم نہیں۔ البتہ میں اس کے سنڈے میگزین اور براڈ شیٹ میگزین یعنی روزانہ کے رنگین صفحات کا ایڈیٹر یعنی میگزین ایڈیٹر ہوں۔ ہمارے پاس روزانہ کے سپورٹس، دینی، بچوں، ادب، خواتین، شوبز، پولیٹکل ڈائریاں کے صفحات ہیں اور سات دن کے لئے ہی ڈائجسٹ ایڈیشن۔ جو صاحب ان میں کسی بھی جگہ بھیجنا چاہیے ، وہ بھیج سکتا ہے، تاہم بلاگرز کی دنیا والا سلسلہ ڈائجسٹ میں شروع ہوا ہے۔ سپورٹس صفحے کے لئے فیس بک میں خاصے متحرک ایک نوجوان ثاقب ملک کو موقعہ دیا گیا، جو انگلینڈمیںمقیم ہیں، ثاقب ملک کے تجزیے تقریبآ ہر اتوار کے سپورٹس ایڈیشن میں شائع ہوتے ہیں۔ کوئی صاحب بچوں کے لئے کچھ لکھ سکے، مستند حوالوں سے کوئی دینی مضمون بھی بھیجے تو وہ بھی شائع ہوسکتا ہے ۔ سنڈے میگزین کے صفحات بھی آپ کے لئے کھلے ہیں، مگر تحریر کا غیرمعمولی ہونا لازمی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سنڈے میگزین کو نیٹ پر دیکھا اور پڑھا جائے تاکہ اندازہ ہوجائے کہ اس کا مزاج کیا ہے۔ایک بات اور کہ ممکن ہے کہ ہم سے بھی شکوے پیدا ہوں، کیونکہ ہمارے نام آنے والی ہر تحریر شائع کرنا ممکن نہیں۔ تحریر کا عمدہ اور متعلق یعنی ریلیونٹ ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی صفحے کے مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔
تفصیلی جواب دینے کا شکریہ ۔
تمام سینئر اُردو بلاگرز کی اُردو بلاگنگ اور انٹرنیٹ پر اُردو کی ترویج و ترقی کے لئے کی گئی کاوشوں اور محنت کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کا مین سٹریم میڈیا اُردو بلاگرز کی معیاری تحاریر کو چھاپ رہی ہے۔ تمام سینئر بلاگرز کا بہت شکریہ جنہوں نے ہم جیسے چھوٹے بلاگرز کو بھی یہ اعزاز بخشا اور خاص کر سعد بھائی، ایم بلال ایم ، مصطفیٰ ملک ، عامر خاکوانی صاحب اور دنیا نیوز کا شکریہ۔ اُردوبلاگستان اور تمام سینئر اُردو بلاگرز اس کامیابی کے لئے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
دنیا نیوز کے ساتھ ساتھ ایسے کئی ایک میگزینز، ہفت روزہ و علاقائی اخبارات اور ویب سائٹ بھی موجود ہیں جو کہ اُردو بلاگرز کی تحاریر کو شائع کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ دنیا نیوز قومی سطح پر اخبار ہے اس لئے اُن کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ بلاگ کی تحریر کے ساتھ مصنف کا نام اور بلاگ اور ای میل ایڈریس کا لنک دینا ضروری ہے تاکہ اُردوبلاگرز کی پہچان برقرار رہ سکے۔
بہت شکریہ ایم بلال محمود، آپ نے بڑی دردمندی اور خلوص کے ساتھ یہ تحریر لکھی۔ مجھے اردو بلاگستان کے معاملات کا زیادہ علم نہیں، سچی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک رائٹرز کی صرف دو ہی اقسام ہیں، اچھے رائٹر اور برے رائٹر۔ میں ذاتی طور پر اس کے علاوہ کسی اور تقسیم کونہیںمانتا۔ اچھا رائٹر جہاںبھی ہو، وہ عزت اور تکریم کا مستحق ہے، مجھے یہ کہنے میںکوئی باک نہیںاور میںیہ برملا کہنا چاہتا ہوں کہ اردو بلاگرز میں سے کئی بہت اچھا لکھنے والے موجود ہیں ، ان میںلکھنے کی صلاحیت اور تخلیقی تازگی موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ ان میں سے بعض کو ہمارے مین سٹریم اخبارات کے ایڈیٹوریل صفحات پر شائع ہونا چاہیے، وہ کسی بھی اچھے کالم نگار سے کم نہیں۔ ایک ڈس ایڈوانٹیج البتہ باہر بیٹھے لوگوں کو اور مین سٹریم سے باہر کے لوگوں کو رہتا ہے کہ ان کے رابطے اس طرح استوار نہیں ہوپاتے، اہم لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے جو آف دی ریکارڈ مگر بیک گرائونڈ نالج کے لئے اہم خبریں ضروری ہوتی ہیں، وہ نہیں مل پاتیں، بسا اوقات ان کا مشاہدہ اخبارات تک محدود ہوتا ہے ، مگر آپ لوگ بھی یقینآ یہ جانتے ہوںکہ اخبار میںجتنا کچھ مواد شائع ہوتا ہے، اس سے کہیںزیادہ شائع نہیں ہوتا اور اس سے بھی کہیں زیادہ ببن السطور شائع ہوتا ہے۔ تاہم اس کمی کے باوجود بہت سے ایشوز پر میںنے عمدہ تحریریں دیکھیں، میں سمجھتا ہوں کہ انہیں شائع ہونا چاہیے،اسی وجہ سے روزنامہ دنیا میں یہ سلسلہ شروع کیا۔ مجھے خوشی ہوگی کہ میری وجہ سے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے اردو بلاگرز کے مابین فاصلہ کم ہوجائے۔
بین السطور سے کیا مراد ہے؟؟؟ اس بارے میں کچھ وضاحت کر دیں۔ ایک ناول میں اس بارے میں پڑھا تھا لیکن کچھ سمجھ نہیں لگی
بین السطور یعنی بی ٹیون دا لائنز آپ یقینآ جانتے ہوںگے، یعنی لطیف اشاروں میں وہ بات بھی کہہ دی جائے جو قارئین سمجھ تو لیں،مگر وہ بات باقاعدہ طور پر لکھی نہ جانے کے باعث رائٹر یا صحافی قانونی گرفت میں نہ آسکے۔
پاکستان میں کئی لکھنے والے ہیں جن کی رسائی انٹر نیٹ تک نہیں ہے۔جن بیچاروں کے پاس انٹر نیٹ استعمال کرنے کے وسائل ہی نہیں ہیں۔قومی سطح کے اخبار میں لکھ کر نام کی مشہوری کئی لوگوں کی خواہش ہو گی کہ یہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے۔ ہم لوگ جو بلاگر ہیں اور ریگولر بلاگر بھی ہیں۔ میرے خیال ہما رے لئے ناموری کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی اور تقریبا سب ہی اپنی اپنی فیلڈ میں ایک اچھی زندگی گذار رہے ہیں۔
قومی سطح کے اخبار کو لکھنے والے کئی مل سکتے ہیں ،اور بلا معاوضہ مل سکتے ہیں ، بلکہ کئی لکھ کر اخبارات کو بھیجتے بھی ہوں گے ۔کچھ کو پذیرائی ملتی ہوگی اور کچھ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہو گا۔
دنیا اخبار کا اردو بلاگرز کی تحاریر کو شامل کرنا میرے خیال میں سوشل میڈیا کیلئے انٹر نیٹ پر اردو کی ترویج و اشاعت کیلئے اچھا قدم ہے۔بلاگرز کے نام سے تحریر شائع کی جا رہی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہم لوگ ویسے بھی بلا معاوضہ بلاگنگ کرتے ہیں۔اس طرح کی حوصلہ افزائی سےہم بلاگرز کی تحاریر میں بھی نکھار آئے گا۔اور مستقبل میں اردو بلاگرز کیلئے قارئین کا اضافہ بھی ہو گا۔ مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ میرے بلاگ پر دن کے پچاس قاری بھی نہیں آتے !!اگر بلال بھائی کے بلاگ پر ایک نیا قاری آئے گا تو گھومتا گھومتا دوسرے بلاگرز کے بلاگ پر بھی ضرور جائے گا۔کسی ایک بلاگر کی تحریر شائع ہونا پورے بلاگستان کیلئے فائدہ مند ہے۔بلکہ پورے اردو بلاگستان کی تحریرشائع ہونے کی طرح ہی ھے۔ہم ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے تو ٌدنیا اخبار میں اپنی تحریر کی اشاعت کی مروت یا لالچ کی وجہ سے ٌ دنیا ٌ والوں کو کیسے بخش دیں گے۔خاکوانی صاحب نے اردو بلاگرز کو عزت دی اور ہم ان کے مشکور ہیں۔
بہت شکریہ یاسر۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جہاں تک محمد سلیم ، شانتو ،چین کا تعلق ہے، ان کی تحریر کسی ذریعے سے دنیا ،کراچی میگزین سیکشن کے نوٹس میں آئی ، اسے چھاپا گیا، ان کی کئی اور چیزیںبھی شامل ہوئی، وجہ صرف ان تحریروںکا عمدہ بلکہ بہت عمدہ ہونا تھا۔وہ تحریریںمجھے بھی اچھی لگیں، میں نے دنیا لاہور کے ڈائجسٹ صفحے پر بھی انہیں چھاپا، ان دنوں دنیا، لاہور اور دنیا ،کراچی ، کے الگ الگ ڈائجسٹصفحات چھپتے تھے، آج کل ایک ہی صٍفحہ بن رہا ہے۔ بہرحال جب میرے علم میں محمد سلیم کا بلاگ آیا تو میںنے ان کی پچھلی تحریریںبھی پڑھیں اور پھر ان کے کسی سٹیٹس پر کمنٹس بھی دئیے، ان کے بلاگ پر ان ک پسندیدہ بلاگرز کے نام تھے ، میں نے وہ پڑھے تو کچھ اور بلاگرز کا پتہ چلا، یوں رفتہ رفتہ کئی بلاگرز کے بلاگ دیکھے اور پڑھے، ان میں یاسر خواہ مخواہ جاپانی، ریاض شاہد، بلال محمود وغیرہ کے بلاگ شامل تھے۔ کچھ اور بھی دوست تھے، بعض کی تحریریں کچھ زیادہ ہی مذہبی اور بعض کی کچھ زیادہ ہی سیاسی تھیں۔ اپنی جگہ پر وہ بھی اچھی تحریریں تھیں، مگر ہمارے ڈائجسٹ صفحے کے فارمیٹ اور روح کے مطابق نہیں تھیں۔ اس لئے اگر کسی کی تحریر ڈائجسٹ صفحے پر شائع نہ ہو سکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ معیاری نہیں، بلکہ اپنی ساخت میں وہ عمدہ ہونے کے باوجود ممکن ہے وہ ڈائجسٹ صفحے کے مزاج کے مطابق نہ ہو۔
اس حوالے سے آخری دو باتیں۔ ایک تو میں ایم بلال محمود کا ممنون ہوںکہ انہوں نے اس حوالے سے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور وہ اپنے انداز میں اس حوالے سے دوستوں کے تحفظات بھی دور کر رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں بلال کے جذبے ، اردو بلاگنگ کے لئے ان کی کمٹنمنٹ اور خلوص سے متاثر ہوا ہوں، انہوں نے اوپر دئیے بلاگ میںجو کچھ لکھا، میں اس کی تصدیق اور تائید کرتا ہوں، واقعی سعد صاحب ہی نے مجھے ان کی جانب متوجہ کیا تھا، اس وقت میں ایکسپریس میں تھا، افسوس کہ میری اپنی غیرمعمولی مصروفیت کے باعث کچھ پیش رفت نہ ہوسکی۔
دوسرا یہ کہ مجھے اپنی کمپیوٹر جہالت کا اعتراف ہے، مجھے نہیں پتہ کہ بلاگ کا کیا ایڈریس ہوتا ہے ، مین ڈومین کے الفاظ کیا ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لئے آج دنیا ڈائجسٹ میں محمد سلیم
کے بلاگ کے آخر میں ایڈریس شامل نہیںتھا۔ اس لئے جو دوست تحریر بھیجے ، وہ آخر میں خود ہی اپن ایڈریس لکھ دے ، تاکہ ہمیں آسانی ہو۔ یہ ممکن ہے کہ کہیںپر ہم سے کوتاہی ہو، مگر اس کی ہمیں رعایت دینی چاہیے ، کیونکہ یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ دانستہ یا شعوری کوشش نہیں ہوگی۔ میری تمام تر ہمدردی ، حمایت اور سپورٹ رائٹرز کے لئے ہے کہ میں خود اسی برادری کا فرد ہوں، یہ اور بات کہ میں نے اس وقت لکھنا شروع کیا، جب ابھی فیس بک نہیں ایجاد ہوئی تھی، اور اخبارات میںبذریہ ڈاک مضامین بھیجا کرتے تھے، اس لئے مجھے لکھاریوں اور ان کے احساسات کا بخوبی اندازہ ہے۔
دنیا نیوز دنیا گروپ کا ٹی وی چینل ہے، اس کی ویب سائیٹ کے معاملات الگ ہیں۔ روزنامہ دنیا اسی گروپ کا اردو اخبار ہے ، جو اس وقت لاہور، کراچی، اسلام آباد ،گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور کوئٹہ سے شائع ہو رہا ہے، ملتان سے بھی اس کا ایڈیشن جلد شائع ہوگا۔ روزنامہ دنیا کی بھی اپنی ویب سائیٹ ہے، جس کے معاملات کا مجھے زیادہ علم نہیں۔ البتہ میں اس کے سنڈے میگزین اور براڈ شیٹ میگزین یعنی روزانہ کے رنگین صفحات کا ایڈیٹر یعنی میگزین ایڈیٹر ہوں۔ ہمارے پاس روزانہ کے سپورٹس، دینی، بچوں، ادب، خواتین، شوبز، پولیٹکل ڈائریاں کے صفحات ہیں اور سات دن کے لئے ہی ڈائجسٹ ایڈیشن۔ جو صاحب ان میں کسی بھی جگہ بھیجنا چاہیے ، وہ بھیج سکتا ہے، تاہم بلاگرز کی دنیا والا سلسلہ ڈائجسٹ میں شروع ہوا ہے۔ سپورٹس صفحے کے لئے فیس بک میں خاصے متحرک ایک نوجوان ثاقب ملک کو موقعہ دیا گیا، جو انگلینڈمیںمقیم ہیں، ثاقب ملک کے تجزیے تقریبآ ہر اتوار کے سپورٹس ایڈیشن میں شائع ہوتے ہیں۔ کوئی صاحب بچوں کے لئے کچھ لکھ سکے، مستند حوالوں سے کوئی دینی مضمون بھی بھیجے تو وہ بھی شائع ہوسکتا ہے ۔ سنڈے میگزین کے صفحات بھی آپ کے لئے کھلے ہیں، مگر تحریر کا غیرمعمولی ہونا لازمی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سنڈے میگزین کو نیٹ پر دیکھا اور پڑھا جائے تاکہ اندازہ ہوجائے کہ اس کا مزاج کیا ہے۔ایک بات اور کہ ممکن ہے کہ ہم سے بھی شکوے پیدا ہوں، کیونکہ ہمارے نام آنے والی ہر تحریر شائع کرنا ممکن نہیں۔ تحریر کا عمدہ اور متعلق یعنی ریلیونٹ ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی صفحے کے مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔
بلال بھاٰی آپ نے یقنا’ بہیت بڑا سنگ میل طے کر لیا ھے۔ مبارک ھو۔یعنی آپ نے اس سلوک کو جو الیکٹرونکس و پرنٹ میڈیا شوسل میڈیا سے سو کن ”سوتن“ والا سلوک ھو رھا تھا کافی حد تک ختم ھو جا ے گا۔آپ کے کا لم کو پڑھا جو کہ کا فی معلو ماتی تھا۔ لیکن اگر آپ ایک چیز کو بار بار مت دھراہیں تو اپ تحریر میں مذید جان آ جا ے گی۔والسلام
بلال بھائی! کسی کی پروا مت کیجیے.آپ لکھیے اور جہاں لکھنا ہے لکھیے. جب بلاگنگ نام ہی آزادی کا ہے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے شخص کی آزادی میں مداخلت کرے. میں عامر خاکوانی کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اردو بلاگرز کو پلیٹ فارم مہیا کیا
ماشاء اللہ، کیا میلہ لگا ہے احباب کا اس تحریر پر، بلال بھائی شکریہ قبول کیجیئے۔
ایک بار ڈفر نے ایک نئے بلاگر کی حوصلہ افزائی میں لکھا کہ یہ لکھاری میرا صحیح شاگرد ثابت ہوگا، اس کے جواب میں، میں نے لکھا تھا کہ ملتان میں استاد اور شاگرد کے دو تعزیئے نکالے جاتے ہیں۔ بڑے نام کی لاج اور روایت برقرار رکھتے ہوئے استاد کا تعزیہ اور جدت اور بہتری کی طرف رواں دواں شاگرد کا تعزیہ استاد سے دو قدم آگے ہے۔ مطلب یہ تھا کہ نجانے پرانے لکھنے والوں کو کیسی شہ اور کیسی مطلوبہ ہمت افزائی نا مل پائی کہ ان کی تحاریر موقع مناسبات پر یا پھر مہینوں میں ایک بار ہی نظر آنے لگی، نئے نئے بلاگرز آئے اور روزانہ کچھ نیا پڑھنے کو ملنے لگا۔
خاکوانی صاحب کا اقدام بہتر اور قابل تحسین ہے کہ لگی لپٹی روٹین میں ذرا سی تبدیلی آئی ہے اور اب نئے، اچھوتے اور شعور و آگہی دیتے مواضیع پر بلاگ لکھے جائیں گے اور اگر بلاگر کا مطمع نظر اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرناتھا تو یقیناً اس روش سے بلاگر کا وہ ہدف بھی پورا ہوگا۔
ڈھیروں مبارک باد وصول کریں بلال بھائی۔۔۔۔۔۔ میں بھی اردو بلاگنگ کا حصہ بننا چاھتی ھوں۔ آپ کی رھنمائ درکار ھے۔
سلامِ محبت قبول ہو! آج جانا کہ ہم بلاگر بن کر زیست کو شاد کرسکتے ہیں ۔ایم بلال ایم آپ کا شکریہ۔یوں تو ہم جنگ اخبار میں اظہار کے لیے جگہ پاتے ہیں لیکن یہاں آکر آزادی شوقِ تحریر زیادہ پائی اور خاکوانی سے معتبرین کی نظرِ کرم اور آپ لوگوں کا اشتیاقِ اظہار بہت بھایا۔سلامتی صحت و توانائی من و تن قبول کیجیے احباب۔آپ کا اپنا سلیم انور عباسی
اس قدر محبت اور حوصلہ افزائی کے لئے بہت بہت شکریہ۔
ہمیشہ خوش رہیں، آباد رہیں۔