میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں کہ زیادہ تر کامیاب چیزیں اتفاقاً بن جاتی ہیں۔ گذشتہ رات ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ شام سات بجے سے شروع ہو کر رات دو بجے تک یعنی سات گھنٹے جاری رہنے والی، ہینگ آؤٹ پر اردو بلاگران کی ملاقات اور بات چیت ختم ہونے پر گوگل نے شکر کیا ہو گا کہ انہوں نے جان تو چھوڑی۔ دراصل کل اچانک ہی ایک دوست نے فیس بک کے اردو بلاگر گروپ میں اعلان کیا کہ شام چھ بجے گوگل ہینگ آؤٹ پر بلاگران جمع ہوں گے۔ تمام لوگ شرکت فرما کر ثواب درین حاصل کریں۔ 🙂 ساڑھے پانچ کے قریب میں نے پوچھا کہ ہینگ آؤٹ کا لنک تو دو، مگر جواب ندارد۔ چھ بج گئے مگر کوئی لنک نہیں۔ آخر پتہ چلا کہ ہمیں نہر والے پل پر بلا کر ماہی خود غائب ہے بلکہ یہاں تو پل (لنک) تک نہیں تھا۔ بہر حال ایک طرف سے آواز آئی کہ چلو جو آ گئے ہیں وہ ہی مل بیٹھتے ہیں۔ پھر جی ہم آگے بڑھے اور فوراً ہینگ آؤٹ شروع کر دیا۔
ہینگ آؤٹ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا تو پھر جو ہوتا گیا، میں کرتا گیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہینگ آؤٹ میں ایک وقت میں صرف دس بندے ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اتفاقاً اور راہ چلتے شروع ہونے والے ہینگ آؤٹ میں بلاگران جمع ہونے شروع ہو گئے اور فوراً دس ہو گئے۔ اب مزید کی گنجائش نہیں تھی۔ جیسے ایک بچے کو کہیں ساتھ نہ لے کر جائیں، تو اس بچے کی جو حالت ہوتی ہے، کچھ ایسی ہی ڈفر میاں کی حالت تھی کیونکہ یہ بھی شامل ہونے سے رہ گئے تھے۔ 🙂 مجھے اس وقت بہت برا لگ رہا تھا کہ بہت سارے بلاگر شامل ہونے سے رہ گئے۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ صرف دس شامل ہو سکتے ہیں تو پھر میں کبھی بھی یہ شروع نہ کرتا۔ اب شروع کیے ہوئے کو بند نہیں کر سکتا اور شامل نہ ہونے والوں کا بھی افسوس ہو رہا تھا۔
محمد سلیم بھائی بولے کہ بلال بھائی آپ میزبانی و نقابت کے فرائض انجام دیں۔ بس جی پھر ہم نے مائیک سنبھالا اور سب کو باری باری تعارف کرانے کی دعوت دی۔ دوست احباب آتے جاتے رہے۔ ایک جاتا تو دوسرا آ جاتا۔ یوں سات گھنٹے کے طویل ملاقات میں کل 31 لوگوں نے شرکت کی۔ اب کس کس نے کیا کیا کہا ایک تو سب کچھ لکھ نہیں سکتا دوسرا یاد بھی نہیں رہا۔ اگر کسی کی کوئی بات یا نام بھول جاؤں تو معذرت۔ گو کہ ہنسی مذاق بھی ہوا لیکن زیادہ باتیں اردو بلاگنگ کی ترویج پر ہوئیں۔ شروع میں شاکر عزیز، راجہ افتخار اور یاسر جاپانی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یہ تینوں جلد ہی ہینگ آؤٹ چھوڑ گئے۔ مزید شعیب صفدر نے بھی خوب حصہ لیا۔ کوئی چھوڑ کر گیا تو ڈفر میاں فوراً گھس گئے اور پھر ایسے بیٹھے کہ کچھ نہ پوچھیں۔ یقین کرو، اس بندے میں ٹرک کی بیٹری لگی ہوئی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ 🙂 گو کہ میں پہلے بھی کہتا ہوں مگر ہینگ آؤٹ پر اس کی باتیں سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ ”ڈفر“ کسی جاہل کو نہیں بلکہ سیانے کو کہتے ہیں۔ چند وجوہات کی بنا پر درمیان میں میزبان (میں) خود تھوڑی دیر کے لئے غائب ہو گیا۔ پیچھے سے کون آیا اور کیا باتیں ہوئیں ان کا مجھے علم نہیں۔ جب واپس آیا تو میرا خیال تھا کہ سب جا چکے ہوں گے مگر دیکھا تو پتہ چلا کہ محفل ابھی تک گرم ہے۔
پہلے بھی اندازہ تھا مگر صحیح معنوں میں آج پتہ چلا ہے کہ اردو بلاگستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا ہے۔ سب نے بہت دلچسپی اور سنجیدگی سے بحث میں حصہ لیا۔ جہاں ڈفر جیسا بندہ سنجیدہ گفتگو کر رہا ہو تو خود سوچیں وہ کتنی اہم ملاقات ہو گی۔ بلکہ میں یا کوئی دوسرا درمیان میں چھوٹی موٹی شرلی چھوڑتا تاکہ ملاقات ضرورت سے زیادہ سنجیدہ نہ ہو۔ محمد اسد نے بحث میں خصوصی دلچسپی لی، زھیر چوہان، عمران اقبال، راجہ اکرام اور عمیر لطیف بھی شامل رہے۔ اگر عمار ابن ضیاء، علی حسان، محمد سعد اور ارسلان شکیل (انکل ٹام) کا ذکر نہ کیا تو زیادتی ہو گی۔ زیادتی تو اب بھی ہو رہی ہے کیونکہ دیگر کئی دوست احباب بھی تھے جن میں رائے ایم اذلان، محمد عبداللہ، عمران اسلم، محمد احمد، ابو عبداللہ، عمران علی مغل اور ہم سب کے ہر دلعزیز ”جاہل اور سنکی“ شامل تھے۔ اگر کسی کا نام بھول رہا ہوں تو معذرت چاہتا ہوں۔ خیر اس دوران کئی دوست احباب چند لمحات کے لئے آتے رہے اور جاتے رہے۔
کسی کے پاس مائیک نہیں تھا اور کسی کو شرم آ رہی تھی مگر پھر بھی کسی نے سن کر، کسی نے لکھ اور کسی نے بول کر اپنا کردار ادا کیا۔ کافی تاخیر سے عمر بنگش بھی شامل ہوئے۔ ان کے پاس شاید مائیک نہیں تھا یا پھر یہ مائیک استعمال کرنے سے ڈر رہے تھے۔ 🙂 بہر حال جو بھی تھا مگر لکھ کر کافی تنقید برائے تعمیر کرتے رہے بلکہ ملاقات کے اختتام کے قریب ان کے پائیدار سوالات کے جوابات پر ہی بحث ہوتی رہی۔ اس کے علاوہ اس آن لائن ملاقات میں اردو بلاگنگ اور بلاگستان کے بہت سارے معاملات زیرِ بحث آئے۔
نئے بلاگران کے مسائل، ان کی فوری خواہشات اور گلے شکوے، بلاگ کیا ہے، ڈائری بلاگ، موضوعاتی بلاگ، سیاسی بلاگ، اردو بلاگنگ کی ترقی، قارئین کی تعداد میں کیسے اضافہ ہو، فی الحال بلاگستان کہا پر کھڑا ہے، اردو اور انگریزی بلاگر اور ان کی بلاگنگ میں فرق، بلاگ کیوں لکھا جائے، نئے لوگوں کو اس طرف کیسے متوجہ کیا جائے، کیا تشہیری مہم چلائی جائے یا نہیں، اگر چلائی جائے تو کیسے، کیا اردو بلاگ سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، اردو بلاگران کو کیا کرنا چاہئے، تحریر کتنی لمبی ہونی چاہئے اور ہفتے کے کن کن دنوں میں پبلش کرنی چاہئے، کس انداز میں سوشل میڈیا پر شیئر کرنی چاہئے، کمنٹس ضروری ہیں یا قارئین، نئے بلاگران میں اضافہ ضروری ہے یا نئے قارئین کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جائے، یہ جو فیس بک پر اردو بلاگر کے نئے نئے گروپ بن رہے ہیں یہ بننے چائیے یا نہیں، ان گروپس کے فوائد اور نقصانات، کونسا طبقہ اردو بلاگنگ کی طرف آ سکتا ہے اور کونسے طبقے کو اردو بلاگنگ کی طرف قائل کیا جائے ؟ یہاں تک کہ اردو اور اس کے رسم الخط تک پر بھی بحث ہوئی۔ دوست احباب نے بلاگنگ سے خود میں کیا تبدیلیاں دیکھیں، یہ بھی بتائی گئیں۔ اس کے علاوہ کئی ایک موضوعات اور بلاگز کا بھی ذکر ہوا۔
بات سے بات نکلتی رہی اور ایک کے بعد ایک موضوع زیرِ بحث آتا رہا، جس پر ہینگ آؤٹ میں موجود ایک کے بعد ایک دوست کی رائے لی جاتی رہی۔ یوں سات گھنٹے کب گزرے کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ کئی ایک نے صبح دفتر جانا تھا مگر دفتر کو بھول کر بس بلاگنگ پر بات کرتے ہی جا رہے تھے۔ کسی کا جانے کو دل نہیں کر رہا تھا مگر اب کچھ کچھ تھکاوٹ ہونے لگ پڑی تھی اور ویسے بھی ڈفر کی ٹرک کی بیٹری بھی کچھ کچھ ختم ہونے لگی تھی۔ بیچارے ڈفر میاں نے رات کا کھانا تک نہیں کھایا تھا۔ ویسے کئی احباب نے ملاقات کے دوران ہی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے بیٹھے کھانا کھایا، جیسے محمد اسد بھائی نے۔ آخر پر سب کو الوداعی کلمات کہنے کا کہا۔ ایک ایک کر کے سب نے الوداعی کلمات کہے اور چلے گئے۔ سب کو روانہ کرنے کے بعد میں نے بھی ہینگ آؤٹ بند کر دیا۔ کسی کا تو پتہ نہیں مگر یہ سات گھنٹے بلاگنگ کے حوالے سے میرے اہم ترین وقت میں سے تھے کیونکہ اس دوران میں نے کئی ایک بلاگر کی شخصیت کے بارے میں جانا اور خاص طور پر بلاگنگ کے حوالے سے دوسروں کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا۔ فکر نہ کریں وقت کے ساتھ ساتھ کئی ایک تحاریر کے ذریعے آپ کو بھی تجربات سے آگاہ کر دیں گے۔ ویسے چند دنوں کے اندر اندر اردو بلاگران کی ایک بڑی آن لائن ملاقات کا پروگرام بن رہا ہے۔ اس بارے میں فیس بک کے اردو بلاگر گروپ سے اپڈیٹ مل جائے گی۔
میں نے بھی گھسنے کی کوشش کی تھی لیکن پلگ ان کا مسئلہ آگیا تھا اپڈیٹ کیا تب تک بھول ہی گیا کہ کیا کرنا ہے 😀
ریکارڈ میں کیل ٹھونک کر محفوظ کر لیں۔
ہینگ آؤٹ کا نعرہ مار کر غائب ہو جانے والے دوست۔
بلاگستان کے مولبی مشوم تھے۔
انہیں ایک بار پہلے بھی کہا تھا کہ پاس ہوتے تو چھتر ضرور مارتا 😆
اب دوسری بار بھی کہوں گا مولبی ساب اب تو بہت دل کر رہا ہے
آپ کو چھتر مارنے کا ۔۔
تیسری بار جدہ جاکر ہی ماروں گا 😆
نوٹ ؛- یہ مولبی ساب ہمارے پیارے ضیاءالحسن بھائی ہیں، کوئی خوامخواہ کا مولبی چھتر کھانے کی خواہش کا اظہار زبردستی نا کرے۔
ہمارے پاس چھتر مارنے کی سروس میسر نہیں ہے۔
آپ کا یہ تبصرہ ای میل کرکے آپ کی گڈر کٹ کا پروگرام بنایا جا سکتا ہے
مائیک وغیرہ ٹھیک تھا یار، میںخود ہی نی بولا۔
میں قدرے تاخیر سے پہنچا، اس لیے شروع میں جو بلاگران شامل رہے ان سے بات چیت کا موقع نہیں مل سکا۔ پھر کچھ دیر تک ‘ہینگ آؤٹ فل’ کی وجہ سے انتظار کرنا پڑا۔ بہرحال! اچھی گفتگو رہی۔ تقریباَ تمام ہی ساتھیوں سے پہلی بار بات چیت ہوئی اور ان کی رائے جان کر بہت کچھ سیکھا بھی۔ میرے خیال سے اگر ہینگ آؤٹ کو آن ائیر رکھا جائے تو بہترین ہوگا۔ جو لوگ اردو بلاگر نہیں ہیں لیکن دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے بھی شرکت میں آسانی ہوجائے گی۔
مجھے یہ پڑھ کر افسوس بھی ہو رہا ہے اور غصہ بھی آ رہا ہے ٹیگ ہی کر دیتے
اتنے سارے بلاگرز میں صرف میں ہی نہیںتھا
آپ فیس بک کے گروپ میں ایکٹیو رہا کریں۔
ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا نا جناب
بلال بھائی آپکو بھی مبارک بڑا اچھا خلاصہ پیش کیا ہے- سب دوستوں سے مل کر بہت اچھا لگا اور کئ دوست اپنی تحریروں سے زیادہ سیانے لگے اور اب تو ان کی تصویر کسی اسی سالہ بڈھے کی بن گئ ہے- 🙂 خیر جی پروگرام بہت اعلی تھا
یار خرم ہم سے بدلہ لیا گیا ہے . یہ زیادتی ہے میں بھی احتجاج کرتا ہوں . 😥
بالکل میں یہی سمجھا ہوں
میں تو سمجھا تھا کہ شاید بلال صاحب کوئی روٹی ٹکر کا انتظام کرنے گئے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ویسے میں خود حیران ہوں کہ ڈفر کی بڑی لمبی بیٹری تھی۔ اگلے ہینگ آؤٹ میں کوشش کی جائے کہ مسائل کے بارے میں گفتگو ہی نہیں بلکہ انکا حل بھی نکالیں ۔ ہاتھ کے ہاتھ
سب دوستوں سے بات چیت کر کے بہت اچھا لگا۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر یہ تسلی ہوئی کہ اردو کی تشہیر و ترویج کے لیے بلاگر کتنے سنجیدہ ہیں۔۔۔ اللہ آپ سب کو خوش رکھے۔۔۔
ابو عبداللہ بھائی کی بات دوہراوں گا کہ کئی احباب اپنی تحاریر کی نسبت بات چیت میں زیادہ سیانے لگے۔۔۔
ایسی آن لائن ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہیے۔۔۔
اردو بڑی مزے کی زبان ہے جی، کل جو تھوڑی بات بلاگران سے ہوئی، وہ بہت محبت بھری، دل رکھنے والے لوگوں کا ایک قبیلہ سا بنتا جارہا، جو ایک دوسرے کو ذاتی طور پر جانتے نہیںمگر ایک قدر مشترک پر اکٹھے ہوگئے، اردو، پس امید لگ گئی ہے کہ یہ قوم ابھی تک زندہ ہے،
بہت نوازش بھائی جی آپ نے ایک طرح سے غیر حاضر بلاگرز کو بھی اس مضمون کے ذریعہ ایک طرح سے شامل کر لیا ہے ۔بہت بہت شکریہ اس مضمون کے لکھنے کے لئے۔۔
😛 ملاقات کا سن کے ہی بہت اچھا لگا
یار لگا دی نا تم نے میری ٹریکٹری بیٹری کو نظر
ساڑھے گیارہ سو کے اٹھا آج
چھٹی مارنی پڑی اس گوگل لٹکم لٹکائی کی وجہ سے
جسے تم ہینگ آؤٹ کہہ رے
اگرچہ میری شرکت کا دورانیہ خاصا مختصر رہا، لیکن آدھ، پون گھنٹے میں اس محفل سے خوب لطف اندوز ہوا۔ بدقسمتی کہ غیر متوقع طور پر بجلی نے داغِ مفارقت دی۔
تاہم، گوگل ہینگ آؤٹ کی کوتاہ دامنی کا صحیح اندازہ کل ہوا۔ کہاں دس افراد کی حد اور کہاں اردو بلاگرز قطار در قطار اپنی باری کے منتظر 🙂
امید ہے کہ اگلی بار ہینگ آؤٹ منصوبہ بندی اور باقاعدہ ایجنڈے کے ساتھ رکھا جائے گا۔
میں نے ہینگ آوٹ والا میسیج دیر سے پڑھا ، بعد میں چیک نہیں کیا کہ اب تو بس ختم ہو چکی ہو گی لیکن یہ کیا پتہ تھا کہ سات گھنٹے چلے گی
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 😛 😛
اگر اس گوگل لٹکم لٹکائی کے بجائے میرا خیال ہے گوگل ٹاک یا اسکائپ کی سہولت استعمالی جائے تو کچھ بہتر نہ ہوگا۔؟؟؟
ایک عمدہ ملاقات! جس میں جاننے کا موقع ملا۔
یہ بھی اندازہ ہو کہ تحریر کسی کی شخصیت کا مکمل آئینہ نہیں ہوتے ملاقات اور گفتگو کا انداز بھی جانچنہ ضروری ہے!! ہم دوبارہ واپس آنا چاپتے تھے مگر اپنے والد کے ڈر کی وجہ سے آپ احباب سے دوبارہ ملاقات نہ ہو سکے اور دوسرا ٹیبلٹ میں پنگ آؤٹ کو کوئی مسئلہ آ رہا تھا!!
میں چند دن سے انٹر نیٹ سے دور رہا ،اس لئے ہینگ اوٹ کا پتہ نہ چل سکا، بہر حال ایک اچھا طریقہ ہے۔ کبھی کبھی گوگل ہینگ آوٹ کرنا چاہئے، مخصوص مواقع پر تاکہ آپس میں ربط بھی رہے اور ملاقات بھی ہوسکے،کیونکہ اس سے بھی ملاقات کا ایک قسم کا شوق پورا ہوجاتا ہے۔
گوگل ہنگ آوٹ کے علاوہ فیس بک والے بھی اسی طرح کا سروس فراہم کرتے ہیں لیکن اسکے لئے سکائپ استعمال کرنا ہوگا،باقی طریقہ کار کیلئے تحقیق کی جائے۔
چنگا نئیں کیتا۔ جو لوگ اردو بلاگر گروپ میں نہیں ہیں، ان کو تو اطلاع دینا تھی۔ ہمیں جب اطلاع ملی تو جگہ اتنی بھر چکی تھی کہ اندر آنے ہی نہیں دیا گیا۔ جب بمشکل داخل ہو پائے تو نیٹ کی سست ماری رفتار نے کچھ ہی دیر میں باہر نکال دیا۔ اس لیے دو کوششیں کرنے کے بعد بالآخر منہ لٹکا کر واپس چلے آئے۔ بہرحال، ایسی محفل ہوتی رہنی چاہیے۔
آپکی طبیعت کیسی ہے اب؟ امید ہے صحت کافی حد تک اچھی ہوئی ہوگی۔
طبیعت پہلے سے بہتر ہے الحمد للہ. دعا کریں مکمل طور پر ٹھیک ہو جائے
میں نے بھی کئی بار کوشش کی کے اس ہینگ آوٹ میں داخل ہو سکوں ، لیکن ہر بار ہاوس فل کا پیغام ہی ملتا رہا۔
بہت اچھا لگا تھا سب بلاگرز کے ساتھ مل بیٹھنے کا ۔ اگر اگلی دفعہ بھی ایسا کچھ ہوا تو ضرور شامل ہونے کی کوشش کروں گا ۔
اتنے سارے ستارے اور ایک جگہ۔۔۔ یہ روداد پڑھ کر دل بیقرار ہوگیا۔
جو لوگ محروم رہ گئے اب انہیں جلد ہی ایک اور ملاقات کا بندوبست کرنا چاہیے۔
بلال بھائی! وڈیو کانفرنس کے کسی اوپن سورس سافٹ وئیر کا کھوج لگایے تا کہ اگلی بارے ستاروں کی پوری کہکشاں سج سکے۔
یعنی جو فیس بک اکاؤنٹنہیں رکھتا، وہ ہینگ آؤٹ سے بھی آؤٹ؟؟؟
اطلاع ہوتی تو شاید ہم بھی شامل ہوتے، گرچہ وقت کا فرق کافی ہے پاکستان اور آسٹریلیا میں۔
اچھا لگا اردو والون کی کوشش کرنا اور ملاقات کرنا