جب ایک میلے میں جوگی نے خوبصورت نوجوان دیوی کو دیکھا تو دیوانہ وار اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ گویا جوگی کو ہلکا نہیں لینے کا۔ اگر ایک طرف رانجھا عشق میں ناکامی کے بعد جوگی بنتا ہے تو دوسری طرف کوئی جوگی واپس پلٹا بھی کھا سکتا ہے۔ چرخے کی کُوک سن کر پہاڑ سے اتر سکتا ہے۔ لہٰذا جوگیوں سے بچ کے رہنا۔۔۔ بہرحال جوگی کو دیوی سے محبت ہوئی تو اسے حاصل کرنا چاہا۔ مگر دیوی کے دل میں ایسا کچھ نہ تھا۔ اور جب جوگی نے اصرار کیا، دیوی کا پیچھا نہ چھوڑا تو وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے بھاگی اور ایک پہاڑ کی غار میں جا پناہ لی۔ اس تصویر کے درمیان میں آپ کو وہی ”تری کوٹہ“ یعنی تین چوٹیوں والا پہاڑ نظر آ رہا ہے۔ جس کی بلندی تقریباً 2700میٹر ہے۔ اس پہاڑ پر روشنیاں شاید جوگی اور دیوی کی یاد میں ہی جل رہی ہیں۔ مکمل قصہ سناتا ہوں مگر اس سے پہلے بتا دو کہ یہ تصویر بنائی تھی منظرباز نے… تقریباً 78 کلومیٹر کے فاصلے سے… سرحد کے پار سے… پنجاب کے میدانوں سے… چناب کے کناروں سے… اک چاندنی رات میں۔۔۔ جب پہاڑ جلے… چاندنی بکھرے… اور عکس تیرے پانیوں پر۔۔۔
ویسے زیادہ حیران و پریشان نہ ہوں، کیونکہ ہم رات میں اس سے بھی کہیں زیادہ فاصلے سے تصویر بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ بس ذرا کچھ معاملات نمٹ لیں تو وہ بھی دکھائیں گے اور گینیز بک کو بھی اطلاع کریں گے۔ اور تب تک بھیا جی آپ ”یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا“ کا راگ الاپنا چھوڑیں اور ”لانگ ڈِسٹنس آبزرویشن“ کا شوق پالیں اور پھر فطرت کے کمالات دیکھیئے۔۔۔
بہرحال یہ پہاڑ ہمالیہ کے زیریں سلسلے میں آتے ہیں۔ جو کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع ریاسی میں ہیں۔ جہاں تری کوٹہ پہاڑ ”کٹڑہ“ شہر پر تاج کی مانند پھیلا ہے۔ آپ کو یہ جان کر بالکل بھی حیرانی نہیں ہونی چاہیئے کہ ان پہاڑوں میں ٹرین بھی چلتی ہے اور دریائے چناب انہیں کے پاس سے ہو کر پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ البتہ اس بات پر حیرانی ضرور ہونی چاہیئے کہ دنیا کا بلند ترین ریلوے پُل حال ہی میں دریائے چناب پر ضلع ریاسی میں ہی بنا ہے۔۔۔
اور ہاں! وہ جوگی والی بات کچھ یوں ہے کہ ”کن پھٹے جوگی“ فرقے کے بانی یعنی ٹلہ جوگیاں والے گرو گورکھ ناتھ کا ایک چیلہ (شاگرد) بھیرو ناتھ بھی تھا۔ کہتے ہیں کہ اسے تمام تانترک سِدھیوں پر عبور حاصل تھا۔ اب سدھیاں بھلا کیا ہیں؟ مراقبہ، چلہ یا یوگا وغیرہ کے ذریعے حاصل کردہ غیر معمولی، روحانی یا مافوق الفطرت طاقت یا صلاحیت کو سِدھی کہتے ہیں۔ جیسے کہ ہوا میں اڑنا، پانی پر چلنا، ماضی تک رسائی اور چھٹی حس کے ذریعے کسی جگہ، انسان یا چیز کے بارے میں جان لینا وغیرہ وغیرہ۔ ویسے یہ تانترک بدھ مت کی سدھیاں ہیں۔ جبکہ مختلف مذاہب کی مختلف ہیں۔ اپنے ہاں بھی تو روحانی طاقتیں پائی جاتی ہیں۔
بہرحال ایک ہندؤں مذہب میں جوگی اور دیوی کی کہانی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ تقریباً نو سو سال پہلے تانترک سِدھوں کا مالک بھیروناتھ ویشنو دیوی پر عاشق ہوا اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں دیوی کو زیر کرنا چاہا۔ دیوی بھاگی اور جب اس تصویر والے پہاڑ پر موجود غار کے قریب پہنچی تو اس نے ہنومان کو بلایا اور کہا کہ ”میں اس غار میں نو ماہ تک تپسیا کروں گی، تب تک تم بھیرو ناتھ کو غار میں داخل نہ ہونے دینا“۔ آج اس غار کو ”اردھا کنواری“کہتے ہیں۔ خیر تپسیا کے بعد آخر کار بھیروناتھ اور ویشنو دیوی کا مقابلہ ہوا اور دیوی نے کالی کا روپ دھار کر بھیروناتھ کا سر قلم کر دیا۔ مرتے وقت بھیروناتھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے دل سے معافی مانگی۔ ویشنو دیوی نے نہ صرف اسے معاف کیا بلکہ دوبارہ جنم لینے کے چکر سے بھی نجات دلائی۔ اور ساتھ ساتھ کہا کہ جب کوئی یاتری میرے درشن کو آئے گا تو اُس کی یاترا تبھی مکمل ہو گی، جب وہ تمہارے سر کے بھی درشن کرے گا۔ بعد میں ویشنو دیوی تین چٹانوں کی صورت اختیار کر گئی اور آج تک وہیں رہتی ہے۔ بعض کے مطابق پاروتی، لکشمی اور سرسوتی کی مشترکہ توانائیوں سے ویشنو دیوی بنی تھی۔
تصویر میں پہاڑ کے اوپر سے آنے والی روشنی کی دو لائنیں جہاں مل رہی ہیں، وہیں پر وہ غار اور اس کے پاس ہی بابا بھیروناتھ کا مندر ہے۔ کیسی عجب بات ہے کہ تصویر میں پانیوں پر تیرتے سبھی عکس ایک رنگ کے ہیں، مگر بھیروناتھ کے مندر سے آنے والی روشنی کا رنگ مختلف ہے۔ شاید عشق کے دستور ہی نرالے ہوتے ہیں۔ بہرحال بائیں ہاتھ اوپر جو روشنیوں کا جھمگٹا ہے، وہاں پر ویشنو دیوی کا مندر ہے۔ یہ پہاڑ ہندؤں کے لئے مقدس ہے اور ہندوستان بھر سے یاتری(زائرین) بذریعہ ہوائی جہاز جموں یا پھر ٹرین یا بس پر پہلے کٹڑہ شہر پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے تقریباً چودہ کلومیٹر کی پیدل چڑھائی کر کے، ان روشنیوں والے راستوں سے پہاڑ کے اوپر جہاں روشنیوں کی لکیریں ختم ہو رہی ہیں، وہاں پہنچتے ہیں۔ اس کے بعد چیئر لفٹ یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے ویشنو دیوی کے مندر تک جاتے ہیں۔۔۔ ہور کُج ”تپسوی مہاراج“ دے لائق؟ تپسوی سے یاد آیا کہ اس مندر کا شمار بڑے مندروں میں ہوتا ہے، جہاں سالانہ لاکھوں کروڑوں یاتری آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ امیر ترین مندروں میں سے ایک ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں کی سالانہ آمدنی سولہ ملین ڈالر کے آس پاس ہے۔ ویسے اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں بھی اکثر درباروں اور بعض گردواروں کی آمدنی اس سے کوئی کم نہیں۔ کبھی محکمہ اوقاف کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ تو لیجیئے گا۔
بس جی! کوئی ریاضت کرتا ہے… کوئی سچا عشق… کوئی جوگی بنتا ہے… کوئی ولی کا درجہ پاتا ہے… کوئی “اُس” تک پہنچ جاتا ہے… اور کوئی اس سب کا کاروبار کرتا ہے… ٹھیک ہے بھئی ٹھیک ہے… سب ٹھیک ہے… سبھی کی اپنی اپنی گردش ہے… سبھی کا اپنا اپنا مدار ہے۔۔۔ اور ہاں! یاد آیا کہ سکرین کو نوے درجے گھما کر تصویر کو پورٹریٹ (ورٹیکل) میں دیکھیں۔ سر پر رومال باندھے، اس کا پلو گلے میں ڈالے، تری کوٹہ پہاڑ میں کوئی چہرہ پکارتا ہوا نظر آئے گا۔ اب یہ آپ پر ہے کہ دیو دکھتا ہے یا پری یا کچھ بھی نہیں۔ ویسے مجھے تو جوگی رانجھے کی ہیر دکھائی دیتی ہے… ہر منظر میں تیری صورت دکھائی دیتی ہے۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں