جون 24, 2010 - ایم بلال ایم
12 تبصر ے

کیا ہم پینڈو انسان نہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سننے میں آیا ہے کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی چلو اس سے کم سہی لیکن نصف سے زیادہ ضرور ہے اور وہ دیہی علاقوں میں رہتی ہے یعنی ”پینڈو“ ہے۔ میں بھی ایک پینڈو ہوں۔
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ شہریوں کو زیادہ حقوق اور دیہاتیوں کو کم کیوں؟ کیا ہم دیہاتی انسان نہیں ہوتے؟ ایک بات واضح کر دوں کہ تمام پاکستانی شہری میرے لئے محترم ہیں اور میں ان کی اتنی ہی قدر کرتا ہوں جتنی میں دیہاتیوں کی کرتا ہوں۔ یہاں بات قدر یا عزت کی نہیں بلکہ اپنے حق کی ہے اور میں اپنے حق کا مطالبہ کسی عام شہری سے نہیں بلکہ صاحبِ اختیار لوگوں سے کر رہا ہوں۔ عام شہری سے تو گذارش ہے کہ جہاں آپ اپنے حق کے لئے آواز اٹھاؤ وہاں اپنے دیہاتی بھائیوں کو بھی یاد رکھو۔
واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں کہ کیا ہم دیہاتی انسان نہیں؟ یہ خیال میرے ذہن میں اس لئے آیا کہ یہاں میرے گاؤں میں شام سات بجے کی بجلی بند ہے اور ابھی بھی بند ہے۔تقریبا 2 بجے کے قریب ایک بار آئی ۔ 30منٹ رہی اور پھر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ہمارے گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر جلالپورجٹاں ہے۔ اگر ہم اپنے چھت پر جائیں تو شہر کی بتیاں نظر آتی ہیں۔ ابھی بجلی نے ”مت ماری“ تو میں صحن میں گیا اور پھر سوچا چھت پر جا کر دیکھتا ہوں کہ شہر کی بجلی ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ شہر میں بجلی ہے اور یہ عذاب صرف دیہاتیوں کے لئے ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اکثر بھی نہیں بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔ یہ بات آپ بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ خیر نیچے آیا لیپ ٹاپ آن کیا اور پھر کیا ؟ پھر یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔
جب کسی سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیہات کو کم بجلی اور شہر کو زیادہ تو جواب ملتا ہے شہر میں انڈسٹری ہوتی ہے اور اگر اسے بجلی نہیں ملے گی تو انڈسٹری بند ہو جائے گی۔ شہری لوگ بجلی جانے اور گرمی لگنے پر گھر سے باہر نہیں نکل سکتے اس لئے ان کو بجلی زیادہ دی جاتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اگر شہر کو بجلی صرف ان دو وجوہات کی بنا پر زیادہ دی جاتی ہے تو ہم دیہاتی مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں تو پھر کیا فصلوں کوآنسوؤں سے سیراب کریں؟ تیل کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں آ جا کر بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل سے کام چلایا تو بجلی بھی ”ٹھس“۔اگر انڈسٹری کے بغیر گزارہ نہیں تو زرعی ملک میں زراعت کے بغیر گزارہ کیسے ہو گا؟ میں مانتا ہوں انڈسٹری کے بغیر گزارہ نہیں لیکن کیا زراعت کے بغیر گزارہ ممکن ہے؟ کیا ہم دیہاتی گرمی لگنے پر باہر فصلوں میں جا بیٹھیں؟ کیا ہمارے بچوں کو گرمی نہیں لگتی؟ کیا ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہمارے بچے پنکھوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھ سکیں؟ کیا ہمیں سستی بجلی دیتے ہو جو ساری ساری رات بند رکھتے ہو؟کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے؟ کیا ہمیں ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں؟ کیا ٹھنڈا پانی پینے سے ہمارے پیٹ خراب ہو جاتے ہیں؟اوئے بتاؤ ہمیں بتاؤ کیا ہم جانور ہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ کیا ہم پاکستانی نہیں؟ سیاست دانو جواب دو تم کیسے پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کو صرف دیہاتی کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہو؟
صرف ایک بجلی کا مسئلہ نہیں ہر بات میں دیہاتیوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مانا کہ ایک دیہات کی آبادی کم ہوتی اس لئے اس کو ساری سہولیات نہیں دی جاسکتی۔لیکن کچھ دیہات ملا کر مشترکہ سہولت تو دی جا سکتی ہے۔ جیسے سکول، کالجز اور ہسپتال وغیرہ۔ ہوتا کیا ہے کہ سکول اور ہسپتال بنائے تو جاتے ہیں لیکن پھر استاد اور ڈاکٹر صاحب غائب۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے یہ پینڈو لوگ ہیں ان کو تعلیم اور صحت کی کیا ضرورت۔ حکومت دیہات سے زیادہ شہری سکول و کالجز اور ہسپتالوں کی نگرانی کرتی ہے لیکن دیہات کو دیہات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ دیہات میں شہر جتنی سہولیات نہیں دی جا سکتیں لیکن جب چند دیہاتوں کو ملا کر شہر جتنی آبادی ہو جائے پھر تو سکول، کالج اور ہسپتال شہر جیسے ہونے چاہئیں۔ ہم دور دراز سفر کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمیں بھی تعلیم اور صحت کا ویسا ہی معیار ملنا چاہئے جیسا شہری بابو کو ملتا ہے۔ یہاں ہمارے ساتھ والے گاؤں میں ہائی سکول ہے اور شہر میں بھی ہائی سکول ہے۔ دونوں میں طلباء کی تعداد میں کوئی خاص فرق نہیں لیکن شہر کے سکول کا معیار اور ہے اور گاؤں کے سکول کا معیار اور۔ جو تھوڑے بہت اچھے استاد ہیں وہ سب شہر کے سکول میں ہیں اور جو سارا دن حقہ پینے والا بندہ ہے وہ گاؤں کے سکول میں استاد ہے اور وہ سارا دن بچوں کو اسی کام لگائے رکھتا ہے۔میں مانتا ہوں چھوٹی جگہ پر چھوٹے پیمانے پر اور بڑی جگہ پر بڑے پیمانے پر کام ہوتا ہے۔ اب ہر گاؤں میں یونیورسٹی تو نہیں بن سکتی لیکن بالکل بنیادی سہولیات تو بغیر کسی تفریق کے ملنی چاہئیں۔شہرمیں رہنے والے کو گرمی لگتی ہے تو گاؤں میں رہنے والے کو بھی لگتی ہے۔ شہری بچے کو تعلیم کا حق ہے تو دیہاتی بچے کو بھی اتنا ہی حق ہے۔ ہم دور دراز سفر کرنے کو تیار ہیں۔ ہم پینڈو کہلوانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے لیکن خدا کے لئے ہمیں مساوی حقوق دیئے جائیں۔ پہلے ہی پیارے پاکستان میں لوگ تفرقوں میں تقسیم ہیں، کوئی صوبہ مانگ رہا ہے تو کوئی ملک۔ کوئی پنجابی کی صدا لگا رہا ہے تو کوئی سندھی کی، کوئی پاکستانی سے زیادہ بلوچی کہلوانا پسند کرتا ہے تو کوئی ہزاروی۔ اس سے پہلے کہ شہری اور پینڈو کی صدائیں بھی بلند ہونا شروع ہو جائیں۔ خدا کے لئے عوام کو پاکستانی بناؤ اور ہم جیسے پینڈو لوگوں کو بھی انسان اور پاکستانی سمجھو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”کیا ہم پینڈو انسان نہیں؟

  1. بلال بھائی۔۔
    اس تحریر میں آپ کی معصومیت کا عکس نمایاں ہے۔ :love:
    میں‌کبھی دیہات میں‌نہیں رہا۔۔۔اس لیے آپ کے درد کو محسوس کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن دوستوں، رشتہ داروں سے لاہور بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ وہ بھی شکایت کرتے ہیں‌کہ بجلی نہیں، گیس نہیں، پانی نہیں۔ سُنا ہے بعض علاقوں‌میں‌بجلی بارہ بارہ گھنٹے بند رہتی ہے۔ کچھ جاننے والوں‌ نے گیس کی استریاں لے رکھیں‌ہیں۔ :rolleyes:
    چلئے غصہ رفع کیجئے۔ موڈ اچھا کرنے کے لئے میں‌آپ کو اپنے پسندید شاعر۔۔حضرت امام دین گجراتی کا کلام سناتا ہوں جو اُنھوں نے جلال پور جٹاں کی عظمت اور جی ٹی روڈ کی مداح‌ سرائی میں‌کہا تھا۔
    ؎ یہ سڑک
    سیدھی جلال پور جٹاں‌کو جاتی ہے
    :whistling:
    .-= عثمان کے بلاگ سے آخری تحریر … ہوزے ساراماگو۔۔۔ایک عہد کا خاتمہ! =-.

  2. آپ نے سیاستدانوں کی توہین کی ہم سے برداشت نہیں ھوئی۔ 😥 😥 😥
    اب گاوں میں آپ کے علاوہ گائے ماتا اور بھینسیں بھی ھوتی ہیں انہیں بھی ہم سیاستدان اور حکمراں بجلی دیں۔ :laughloud:
    ویسے میں خود بھی دیہاتی ہوں۔نہ گیس نہ بجلی ہمیں لوڈ شڈنگ کی پریشانی ھی نہیں ھے۔

  3. اس کی ايک وجہ تو يہ ہے کہ انگريزوں نے جو لوگ ديہات کے نمبردار يا چوہدری مقرر کئے تھے وہ مال اکٹھا کر کے مالدار ہو گئے اليکشن وہ ديہات سے جيتتے ہيں مگر رہائش بڑے شہروں ميں رکھتے ہيں بچے ان کے ولائتوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اپنی بجلی وہ فِٹ رکھتے ہيں اور اپنے ووٹروں کی قربانی ديتے ہيں
    .-= افتخار اجمل بھوپال کے بلاگ سے آخری تحریر … لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے =-.

  4. بالکل انسان ہیں بلکہ سچ پوچھیئے تو سب سے بڑھ کر انسان ہیں کہ آپ لوگوں کے دم سے ہی پاکستان کی رونقیں ہیں آپ جان مارتے ہیں تو پاکستانیوں کو غذا نصیب ہوتی ہے اور اس معاملے میں ہم آپکے ہم آواز اور ہم احتجاج ہیں اللہ ان ارباب اختیار کو ہدایت عطافرمائے :pray:

  5. ویسے جو لوڈ شیڈنگ کا حال ہے وہ شہروں میں بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔۔لیکن دیہات میں تو بتی ہوتی ہی نہیں ہے۔۔
    جب میں اسلام آباد سے لالہ موسیٰ آتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں۔۔۔۔۔وہاں صرف چار گھنٹے بجلی جاتی ہے اور وہ بھی اگر ذرا سی بارش ہو جائے تو دو گھنٹے پہ آ جاتی ہے۔۔۔۔ اور ہماری یونیورسٹی چک شہزاد یعنی اسلام آباد کے گاؤں میں ہے۔۔۔!
    😆
    .-= عین لام میم کے بلاگ سے آخری تحریر … ڈائری لکھنا =-.

  6. ميں آپ کے غم ميں برابر کی شريک ہوں اور آپکے گاؤں کی بجلی کے ليے تو سب بلاگروں کو مشترکہ احتجاج کرنا چائيے بجلی نہيں آئے گی تو ہمارے بلاگ تو يکے بعد ديگرے بند ہی ہو جائيں گے، آپ سولر سسٹم کا کيوں نہيں سوچتے ؟
    .-= پھپھے کٹنی کے بلاگ سے آخری تحریر … 180 ڈگری =-.

  7. بھائی جی دیہاتوں کو بجلی دینے کا نعرہ سیاہ ستدانوں نے لگایا تھا، آئی میرے گاؤں میں بجلی، کھمبے لگا کر وہ تو ووٹ لے گئے پیچھے سیاپا ڈال گئے۔ اب نہ شہروں کو پوری ہوتی ہے نہ دیہاتوں کو۔ شہریوں کا تو ہگنا بھی بجلی کے بغیر نہیں چلتا، واسا کے ٹیوب ویل بجلی سے ہی چلتے ہیں پاء جی ورنہ خشبوئیں ہوجائیں ہر پاسے۔ تو عرض یہ ہے کہ پہلے جہاں جہاں بجلی ہے اسے تو پورا کرلیں باقیوں کی باری تو بعد میں آئے گی۔
    آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ دیہوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا شہروں کا، لیکن شہروں میں روزی روٹی بھی بجلی سے ہی چلتی ہے، دیہوں میں اس کے بغیر بھی گزارا ہوجاتا ہے۔ بس یہ بات ہے۔ میں نے صرف بجلی کی بات کی ہے ہسپتال اور سکولوں کی نہیں، ان کو پیدا نہیں کرنا پڑتا، بجلی کو پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اور چلتے چلتے گیس کی بات بھی کرتا چلوں۔ سیاہ ستدان اپنے آبائی حلقوں میں گیس کے کنکشن دھڑا دھڑ لگوا رہے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو لوگ لکڑی جلا لیتے ہیں، ہم کیا کریں؟ جو کئی سالوں سے گیس کے عادی ہیں فیصل آباد میں تو دور نیڑے سے لکڑی ملتی بھی نہیں۔ سائیں بات یہ ہے کہ کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اگلوں کو چیز پوری نہیں پڑتی اور نئے آتے جاتے ہیں۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ دیہوں کو یا چھوٹے شہروں کو سہولت نہ دیں۔ لیکن جن کو دی ہوئی ہے ان سے تو نہ چھینیں۔ لاہور جیسے شہر میں کئی علاقوں میں اگست سے گیس کا پریشر اتنا کم ہوجائے گا کہ روٹی بھی نہیں پکے گی، میرے گھر میں پچھلے سال سے سردیوں میں چراغ جتنی گیس آتی ہے صبح اور شام کو روٹی پکانے وقت، میری خالہ کے گھر جو ایک چھوٹے شہر میں ہے یہ لمبا شعلا نکلتا ہے، ان کے علاقے کے سیاہ ستدان نے تازہ تازہ گیس دلوائی ہے انھیں۔ چناچہ اسے خوش کرنے کے چکر میں ہماری مومیائی نکالی جارہی ہے۔
    .-= دوست کے بلاگ سے آخری تحریر … اشکے وئی اشکے =-.

  8. اقتباس» عثمان نے لکھا: بلال بھائی۔۔
    اس تحریر میں آپ کی معصومیت کا عکس نمایاں ہے۔ :love:
    میں‌کبھی دیہات میں‌نہیں رہا۔۔۔اس لیے آپ کے درد کو محسوس کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن دوستوں، رشتہ داروں سے لاہور بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ وہ بھی شکایت کرتے ہیں‌کہ بجلی نہیں، گیس نہیں، پانی نہیں۔ سُنا ہے بعض علاقوں‌میں‌بجلی بارہ بارہ گھنٹے بند رہتی ہے۔ کچھ جاننے والوں‌ نے گیس کی استریاں لے رکھیں‌ہیں۔ :rolleyes:
    چلئے غصہ رفع کیجئے۔ موڈ اچھا کرنے کے لئے میں‌آپ کو اپنے پسندید شاعر۔۔حضرت امام دین گجراتی کا کلام سناتا ہوں جو اُنھوں نے جلال پور جٹاں کی عظمت اور جی ٹی روڈ کی مداح‌ سرائی میں‌کہا تھا۔
    ؎ یہ سڑکسیدھی جلال پور جٹاں‌کو جاتی ہے:whistling:

    آپ کو معصومیت نظر آ رہی ہے اور یہاں ہم غصے سے لال پیلے ہو رہے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ تو پورے ملک میں ہے لیکن میں نے نوٹ کیا ہے شہروں اور دیہاتوں میں اس معاملے میں بڑی تفریق کی جا رہی ہے۔ بڑے شہروں کے مقابلے میں ہمیں جتنی بجلی ملتی ہے اگر اس کا حساب لگایا جائے تو ہمارے ہاں ڈبل لوڈ شیڈنگ ہے اور اوپر سے کوئی شیڈول نہیں۔
    امام دین گجراتی کی بات نہ کریں۔ پتہ نہیں‌وہ ایسے تھے بھی یا نہیں لیکن جیسا ان کا کلام یہاں مشہور ہے اگر اس کا ایک شعر لکھ دیا جائے تو پھر بلاگ کو تالا ہی لگانا پڑے گا۔ ویسے سنا ہے امام دین گجراتی سے کسی نے کہا کہ بڑے شعر لکھتے ہو کبھی نعت بھی لکھو تو امام دین گجراتی نے نعت لکھی اور اس کے بعد کچھ نہیں لکھا۔

    اقتباس» یاسر خوامخواہ جاپانی نے لکھا: آپنے سیاستدانوںکی توہین کی ہم سے برداشت نہیں ھوئی۔ :cry::cry::cry:
    اب گاوں میں آپ کے علاوہ گائے ماتا اور بھینسیں بھی ھوتی ہیں انہیں بھی ہم سیاستدان اور حکمراں بجلی دیں۔ :laughloud:
    ویسے میں خود بھی دیہاتی ہوں۔نہ گیس نہ بجلی ہمیں لوڈ شڈنگ کی پریشانی ھی نہیں ھے۔

    محترم جتنا غصہ تھا شکر کریں الف ب پ تک کام رہا ورنہ ارادہ تو ی ے تک جانے کا تھا۔
    آپ ہمیں بجلی اور دیگر سہولیات دیں گائے اور بھینس کے حقوق ہم خود دے لیں گے۔ بجلی نہ ہو پھر تو سیاپا ہی نہ رہے۔ ہم کوئی متبادل سوچیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے نہ مکمل بند کرتے ہیں نہ مکمل دیتے ہیں۔ یعنی کتا کھو چہ لٹکایا اے۔

    اقتباس» افتخار اجمل بھوپال نے لکھا: اس کی ايک وجہ تو يہ ہے کہ انگريزوں نے جو لوگ ديہات کے نمبردار يا چوہدری مقرر کئے تھے وہ مال اکٹھا کر کے مالدار ہو گئے اليکشن وہ ديہات سے جيتتے ہيں مگر رہائش بڑے شہروں ميں رکھتے ہيں بچے ان کے ولائتوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اپنی بجلی وہ فِٹ رکھتے ہيں اور اپنے ووٹروں کی قربانی ديتے ہيں

    آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ یہ نمبردار اور چوہدری تو ہمیں لے بیٹھے ہیں۔ جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو ہمارے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ لیکن جب مطلب نکل جاتا ہے تو پھر کبھی ادھر منہ نہیں کرتے۔ ویسے یہ بھی ہمارا ہی قصور ہے ہمارے لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آتی اور جب الیکشن ہوتے ہیں تو پھر انہیں ہی ووٹ دے دیتے ہیں۔
    یوں تو میں بھی چوہدری گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ لیکن میں ایسی چوہدرا اور نمبر داری پر لعنت بھیجتا ہوں جس میں عام عوام کی حق تلفی ہو۔

    اقتباس» عبداللہ نے لکھا: بالکل انسان ہیں بلکہ سچ پوچھیئے تو سب سے بڑھ کر انسان ہیں کہ آپ لوگوں کے دم سے ہی پاکستان کی رونقیں ہیں آپ جان مارتے ہیں تو پاکستانیوں کو غذا نصیب ہوتی ہے اور اس معاملے میں ہم آپکے ہم آواز اور ہم احتجاج ہیں اللہ ان ارباب اختیار کو ہدایت عطافرمائے:pray:

    عبداللہ بھائی آپ کا بہت شکریہ کہ آپ بھی ہمارے ہم احتجاج ہیں۔ ورنہ ہمارے معاشرے کا حال تو یہ ہے کہ گاؤں کے سادہ لوگوں کی باتوں کو مسالحے لگا لگا کر سواد لیا جاتا ہے جبکہ حقیقت کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان کے مسائل کی طرف کوئی توجہ دیتا ہے۔

    اقتباس» عین لام میم نے لکھا: ویسے جو لوڈ شیڈنگ کا حال ہے وہ شہروں میں بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔۔لیکن دیہات میں تو بتی ہوتی ہی نہیں ہے۔۔
    جب میں اسلام آباد سے لالہ موسیٰ آتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں۔۔۔۔۔وہاں صرف چار گھنٹے بجلی جاتی ہے اور وہ بھی اگر ذرا سی بارش ہو جائے تو دو گھنٹے پہ آ جاتی ہے۔۔۔۔ اور ہماری یونیورسٹی چک شہزاد یعنی اسلام آباد کے گاؤں میں ہے۔۔۔!:lol:

    بالکل ٹھیک کہا شہروں میں‌بھی لوڈ شیڈنگ ہے۔ پچھلے دنوں میں لاہور میں تھا وہاں ایک گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے جاتی اور پھر آ جاتی لیکن گاؤں میں نہ جانے کا پتہ نہ آنے کا پتہ۔ چلی جائے تو آنے کا نام نہیں لیتی اور آ جائے تو پھر بس ایسے جاتی ہے جیسا آئی صرف دیدار کروانے کے لئے تھی۔ یہاں اپنے ایک دوست کی بات یاد آ گئی۔ جب بجلی ایک دو گھنٹے مسلسل رہے تو وہ کہتے ہیں مانو یا نہ مانو یہ کمینے کسی بڑے چکر میں ہیں جو اتنی دیر ہو گئی بجلی نہیں لے کر گئے۔

    اقتباس» سعد نے لکھا: میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں کیونکہ میں خود دیہاتی ہوں۔:island:

    آپ کا بہت شکریہ۔ اگر آپ دیہاتی ہیں تو پھر یقینا آپ بھی ہماری طرح کی ذہنی کوفت کا شکار ہوں گے۔

    اقتباس» پھپھے کٹنی نے لکھا: ميں آپ کے غم ميں برابر کی شريک ہوں اور آپکے گاؤں کی بجلی کے ليے تو سب بلاگروں کو مشترکہ احتجاج کرنا چائيے بجلی نہيں آئے گی تو ہمارے بلاگ تو يکے بعد ديگرے بند ہی ہو جائيں گے، آپ سولر سسٹم کا کيوں نہيں سوچتے ؟

    اجی ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ آپ کے بلاگز کے سرور تھوڑا میرے گاؤں میں ہیں۔ باقی اگر آپ مشترکہ احتجاج کریں تو ہمیں خوشی ہو گی کہ ہمارے سارے پاکستانی ہمارے ساتھ ہیں۔ پھر چاہے بجلی نہ بھی ملے ہمارے لئے یہ خوشی سب سے بڑ کر ہو گی۔ دیہاتی تو وہ سادہ بندہ ہوتا ہے جو ساری زندگی ایک چھوٹی سی خوشی کے سہارے گزار دیتا ہے۔
    رہی بات سولر سسٹم کی تو کئی بار سوچا اور پتہ بھی کیا لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے اس لئے فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ اس کے علاوہ بائیو گیس کا بھی سوچا تھا اور مکمل تحقیق کی تھی لیکن اس پر بھی کافی اخراجات آتے ہیں۔ شاید آپ کو معلوم ہوں کہ سولر پینل سلیکان سے تیار ہوتا ہے اور سلیکان کو اس پوزیشن میں لانے کے لئے جو بھٹی ہوتی ہے اس کی اجازت بھی دنیا کے چند ملکوں کو ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں اور سولر سسٹم مہنگا ہے۔

  9. اجی صاحب یہ کیا کہہ دیا آپ نے ۔ خیر مجھے آپ کا محل وقوع تو نہیں پتہ مگر میرا آبائی گاؤں کوٹلہ ارب علی خان کے پاس “لنگڑیال” کے نام سے ہے ۔ ہم سنتے ہیں کہ وہاں کہیں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں ہی بجلی آ گئی تھی (شاید منگلا ڈیم قریب ہے اسلئے) ۔ اپنے بچپن میں معمولی بلب تک بند کر کے ایک پرانا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی چلانا پڑتا تھا (غالبا 1986/1987 کی بات ہے )۔ اب تو وہاں سے بھی اسی قسم کی شکایات آتی ہیں ۔ اور یہ علاقہ تو یوں بھی بارانی ہے بارش نہ ہوئی فصلیں نہ ہوئیں چھوڑ چھاڑ کر بیرون ملک و بڑے شہروں کو بھاگے۔ ساری زراعت باوجود زرخیز زمین کے برباد ہو گئی ۔ اب کے چچا نے ٹیوب ویل لگوایا ہے تو ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ڈھور ڈنگر باقی نہیں رہے لوگ ٹیٹرا پیک دودھ پر آ گئے ہیں اگر اس میں کچھ ڈالر ، یورو و ریالوں کا بھی کردار ہے مگر سچ یہی ہے کہ بجلی نہ ہونے سے ٹیوب ویل بھی نہیں لگوا سکتے ، نہریں نہ ہونے سے پانی کی سطح زمین میں انتہائی نیچے چلی گئی ہے ۔ کسی کو کچھ فکر نہیں ۔ اور جب یہی لوگ بحالت مجبوری شہروں کا رخ کرتے ہیں تو ان سے تعصب بھی برتا جاتا ہے ۔ :angry:
    وسلام

  10. اقتباس» دوست نے لکھا: بھائی جی دیہاتوں کو بجلی دینے کا نعرہ سیاہ ستدانوں نے لگایا تھا، آئی میرے گاؤں میں بجلی، کھمبے لگا کر وہ تو ووٹ لے گئے پیچھے سیاپا ڈال گئے۔ اب نہ شہروں کو پوری ہوتی ہے نہ دیہاتوں کو۔ شہریوں کا تو ہگنا بھی بجلی کے بغیر نہیں چلتا، واسا کے ٹیوب ویل بجلی سے ہی چلتے ہیں پاء جی ورنہ خشبوئیں ہوجائیں ہر پاسے۔ تو عرض یہ ہے کہ پہلے جہاں جہاں بجلی ہے اسے تو پورا کرلیں باقیوں کی باری تو بعد میں آئے گی۔
    آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ دیہوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا شہروں کا، لیکن شہروں میں روزی روٹی بھی بجلی سے ہی چلتی ہے، دیہوں میں اس کے بغیر بھی گزارا ہوجاتا ہے۔ بس یہ بات ہے۔ میں نے صرف بجلی کی بات کی ہے ہسپتال اور سکولوں کی نہیں، ان کو پیدا نہیں کرنا پڑتا، بجلی کو پیدا کرنا پڑتا ہے۔ اور چلتے چلتے گیس کی بات بھی کرتا چلوں۔ سیاہ ستدان اپنے آبائی حلقوں میں گیس کے کنکشن دھڑا دھڑ لگوا رہے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو لوگ لکڑی جلا لیتے ہیں، ہم کیا کریں؟ جو کئی سالوں سے گیس کے عادی ہیں فیصل آباد میں تو دور نیڑے سے لکڑی ملتی بھی نہیں۔ سائیں بات یہ ہے کہ کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اگلوں کو چیز پوری نہیں پڑتی اور نئے آتے جاتے ہیں۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ دیہوں کو یا چھوٹے شہروں کو سہولت نہ دیں۔ لیکن جن کو دی ہوئی ہے ان سے تو نہ چھینیں۔ لاہور جیسے شہر میں کئی علاقوں میں اگست سے گیس کا پریشر اتنا کم ہوجائے گا کہ روٹی بھی نہیں پکے گی، میرے گھر میں پچھلے سال سے سردیوں میں چراغ جتنی گیس آتی ہے صبح اور شام کو روٹی پکانے وقت، میری خالہ کے گھر جو ایک چھوٹے شہر میں ہے یہ لمبا شعلا نکلتا ہے، ان کے علاقے کے سیاہ ستدان نے تازہ تازہ گیس دلوائی ہے انھیں۔ چناچہ اسے خوش کرنے کے چکر میں ہماری مومیائی نکالی جارہی ہے۔

    تبصرے کا اتنی دیر سے جواب دینے پر معذرت چاہتا ہوں۔
    باقی میں آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق کرتا سوائے چند ایک کے۔ مزید آپ کے تبصرے/رائے ہمیشہ کمال کے ہوتے ہیں۔ یہاں تفصیل سے جواب اس لئے نہیں دے رہا کیونکہ میں اس پر ایک اور پوسٹ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین

    اقتباس» عثمان نے لکھا: :brheart::brheart::brheart::cry:

    ارے آپ کا دل کیوں ٹوٹ گیا۔ حضرت یہ بلاگنگ ہے اور یہاں اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اختلاف سے ہی تو ہم سیکھتے ہیں۔ بس اختلاف نظریاتی ہی رہنا چاہئے اور انا کا مسئلہ نہیں‌بننا چاہئے۔

    اقتباس» طالوت نے لکھا: اجی صاحب یہ کیا کہہ دیا آپ نے ۔ خیر مجھے آپ کا محل وقوع تو نہیں پتہ مگر میرا آبائی گاؤں کوٹلہ ارب علی خان کے پاس “لنگڑیال” کے نام سے ہے ۔ ہم سنتے ہیں کہ وہاں کہیں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں ہی بجلی آ گئی تھی (شاید منگلا ڈیم قریب ہے اسلئے) ۔ اپنے بچپن میںمعمولی بلبتک بند کر کے ایک پرانا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی چلانا پڑتا تھا (غالبا 1986/1987 کی بات ہے )۔ اب تو وہاں سے بھی اسی قسم کی شکایات آتی ہیں ۔ اور یہ علاقہ تو یوں بھی بارانی ہے بارش نہ ہوئی فصلیں نہ ہوئیں چھوڑ چھاڑ کر بیرون ملک و بڑے شہروں کو بھاگے۔ ساری زراعت باوجود زرخیز زمین کے برباد ہو گئی ۔ اب کے چچا نے ٹیوب ویل لگوایا ہے تو ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ڈھور ڈنگر باقی نہیں رہے لوگ ٹیٹرا پیک دودھ پر آ گئے ہیں اگر اس میں کچھ ڈالر ، یورو و ریالوں کا بھی کردار ہے مگر سچ یہی ہے کہ بجلی نہ ہونے سے ٹیوب ویل بھی نہیں لگوا سکتے ، نہریں نہ ہونے سےپانی کی سطح زمین میں انتہائی نیچے چلی گئی ہے ۔ کسی کو کچھ فکر نہیں ۔ اور جب یہی لوگ بحالت مجبوری شہروں کا رخ کرتے ہیں تو ان سے تعصب بھی برتا جاتا ہے ۔:angry:
    وسلام

    بہت خوب طالوت بھائی۔ آپ نے تو میری کہی باتوں کی بڑی زبردست تفصیل بیان کر دی۔ میں جلالپورجٹاں کے ساتھ ایک گاؤں میں‌رہتا ہوں۔
    واقعی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ بجلی جتنی شہروں کو ضروری ہے اتنی ہی گاؤں کے لئے بھی۔ دو دن ہوئے جب بھی بجلی آتی ہے ٹیوب ویل چلا دیتے ہیں لیکن ابھی تک ایک ایکڑ کو پانی نہیں دے پائے۔ ابھی تو دھان لگانی ہے تو یہ حال ہے آگے پتہ نہیں کیا ہو گا۔ سوچ رہے ہیں کہ اس بار صرف تھوڑی بہت دھان لگاتے ہیں جو صرف اپنے لئے ہو باقی رہنے دیتے ہیں۔ ان دوستوں کے لئے جو دھان کے بارے میں نہیں جانتے ان کو بتا دوں کہ دھان چاول کی فصل کو کہا جاتا ہے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *