کچھ عرصہ پہلے ہم دوست احباب علامہ اقبال کا آبائی گھر دیکھنے سیالکوٹ جا رہے تھے۔ دریائے چناب کا آدھے سے زیادہ پُل عبور کر چکے تو آگے ٹریفک جام تھی۔ حالات کا جائزہ لینے کے لئے گاڑی سے اترا۔ دیکھا کہ دس بارہ گاڑیاں ایک دوسرے میں سینگ پھنسائے کھڑی ہیں۔ صرف ایک بندے کی جلد بازی اور کوتاہی کی وجہ سے سارا مسئلہ بنا تھا۔ خیر دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ ادھر کوئی ٹریفک وارڈن نہیں تھا جو معاملات سلجھاتا۔ ایسے میں مجھ سمیت کئی انجان لوگوں نے مل کر ٹریفک رواں کرنے کے لئے ایک ٹیم فوری تشکیل دے لی۔ پھر اپنے تئیں کوشش کر کے گاڑیوں کی ترتیب سیدھی کروانے لگے۔ لوگوں کو سمجھایا، ترلے کئے مگر کمبخت بات سمجھنے کی بجائے الٹا آنکھیں نکالتے۔ ہر کسی کو ایسے لگتا تھا کہ وہ جگہ جو خالی ہوئی ہے، اگر ادھر گھس جائے تو جلدی پہنچ جائے گا، ویسے بھی ایک کے گھسنے سے بھلا کیا فرق پڑے گا؟ لیکن ان کی اسی سوچ اور جلد بازی کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔
شروع میں، گاڑی میں بیٹھے اپنے دوستوں کے پاس سے بھی گزرتا رہا اور انہوں نے مجھے کئی لوگوں سے بحث کرتے بھی دیکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد سارے پل پر اور اس سے پیچھے بھی دور دور تک گاڑیاں ”دھاڑ نے“ لگیں۔ اتنی زیادہ گاڑیوں کا ایک ساتھ پُل پر وزن اور اوپر سے بڑی گاڑیوں کی تھرتھراہٹ سے ایسا شک بھی پڑتا کہ کہیں پُل ہی نا گر جائے۔ خیر اتنے بڑے ہجوم میں ٹریفک رواں کرنے میں ایسا مگن تھا کہ اپنے دوستوں سے بچھڑ گیا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ پیچھے سے سارے دوست ایک دوسرے کو مذاق میں کہہ رہے تھے کہ بلال کا پتہ کرو۔ بڑا رضاکار بنا ہوا تھا، کہیں کسی نے پُل سے نیچے دریا میں نہ پھینک دیا ہو۔ 😀
بہرحال اس دن ہم نے جان توڑ کوشش کی۔ ایک راستہ صاف کروا کر ٹریفک چلانے لگتے تو کوئی نہ کوئی جلد باز آ ٹپکتا اور سارا معاملہ خراب کر دیتا۔ ایک طرف گاڑیوں کے شور اور اوپر سے لوگوں نے ہارنوں پر ایسے ہاتھ رکھے ہوئے تھے کہ جیسے مقابلۂ ”ہارن بازی“ میں آئے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں چیخ چیخ کر لوگوں سے بات کرنی پڑتی اور لوگ تھے کہ سمجھنے کی طرف آتے ہی نہیں تھے۔ بڑے جتن کیے، اور تو اور جو ایک دو ایمبولینسیں ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھیں، ان سے سائرن بجانے کی درخواست کی۔ ساتھ ساتھ ایک ایک بندے کے پاس جا کر کہتے کہ پیچھے ایمبولینسز بھی رکی ہوئی ہیں اور ان میں مریض بھی ہیں۔ سوچا کہ شاید اس عوام کو مریضوں پر ہی ترس آ جائے۔ خیر ہماری تو چھوڑیں، ایمبولینسیں بھی اپنے سائرن بجا بجا کر عاجز آ گئیں۔ اس دن صحیح معنوں میں اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک ”مردہ“ ہو چکا ہے اور اس ”ہارن باز“ ہجوم کو جگانے کے لئے کتنی ریاضت درکار ہے۔
شدید دھوپ اور گرمی میں سخت مشقت کرتے کرتے کافی وقت گزر گیا۔ مسلسل پسینہ بہتا گیا اور پھر وہ لمحات آ گئے کہ پانی کی کمی (Dehydration) ہونی لگی۔ دریا کے پُل پر کھڑے مگر پینے کا پانی نایاب تھا۔ پیاس سے گلا خشک ہو چکا تھا لیکن ٹریفک رواں کرنے کے لئے اپنے حصے کے کام میں لگا رہا۔ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے میری حالت یہ ہو گئی کہ لگتا تھا: اب گرا کہ اب۔ لوگوں کے رویوں کی بجائے اپنی حالت کی وجہ سے ہمت ہار رہا تھا۔ آخر کار قدم ڈگمگائے، میں لڑکھڑایا اور رک کر کسی گاڑی کے سہارے کھڑے رہنے کی کوشش کی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ ہر کوئی جلد بازی کی دنیا میں مگن تھا اور اب میں ان کی دنیا سے لاتعلق اک اجنبی دنیا میں تھا۔ ہجوم کے درمیان مگر تنہا ہو چکا تھا۔ تب تک کسی نے میری طرف توجہ دی نہ میں نے کسی کو مدد کے لئے پکارا۔ اس کے بعد آنکھیں بند ہوئیں اور گھٹنے زمین پر لگتے محسوس ہوئے۔ ساتھ ہی اک خیال آیا کہ یہ! شہ سوار میدانِ جنگ میں گر رہا ہے یا پھر طفل گھٹنوں کے بل ہو رہا ہے؟ حواس قابو میں رکھنے کے لئے گویا میں خود پر ہنسا۔
”جیتے رہو، اٹھو اور یہ لو“ کی ممتا بھری آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو پتہ چلا کہ گھٹنے زمین پر ٹیکے، ہاتھ گھٹنوں پر رکھے، ایک حساب سے بیٹھ کر رکوع کی حالت میں ہوں۔ خیر اردگرد نظر دوڑائی تو ساری دنیا کو جلد پہنچ جانے کی دوڑ میں پہلے جیسا ہی مصروف پایا جبکہ وہ آواز دینے والی ہی میری طرف متوجہ تھی۔ ہاتھ میں گلاس پکڑے وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ مجھے تو وہ کوئی فرشتہ ہی معلوم ہوئی۔ وہ بزرگ خاتون اپنی حالت سے کسی کھاتے پیتے گھر کی لگ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی ابھی کسی اے سی والی گاڑی سے نکل کر آئی ہیں۔ انہوں نے گلاس میری طرف بڑھایا۔ گو کہ اس میں پانی تھا لیکن اگر زہر بھی ہوتا تو چپکے سے میرے خلق میں اتر جاتا، کیونکہ اس وقت پیاس کی شدت ہی ایسی تھی۔ گلاس میں موجود ”چُلو بھر زندگی“ میں انسانیت سے محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ”زندگی“ سے سیراب ہونے کے بعد کھڑا ہوا اور خاتون کا شکریہ ادا کیا۔ وہ اپنی گاڑی کی طرف پلٹیں اور میں نے دیکھا کہ جوانوں کے ”بوڑھے ضمیروں“ سے اپنا پلو بچاتے ہوئے ”انسانیت“ جا رہی تھی۔ اک عجیب سی کیفیت تاری ہو گئی۔ دریا کے پانی سے ایک عکس ابھر کر آسمان کی طرف جانے لگا۔ وہ بار بار دہرا دہرا کر کہہ رہا تھا کہ معاشرے میں انسانیت ابھی بھی باقی ہے لیکن بیچاری ”بوڑھی“ ہو چکی ہے۔ جیسی بھی ہے مگر پھر بھی اپنی بقا کی خاطر اسے جانے سے روک لو۔۔۔
آپکا نیریٹو دن بدن نکھرتا جا رہا ہے۔ سیدھے سادے واقعے کو خوب افسانوی ٹچ دیا۔ ویری گڈ
اچھا مشاہدہ ہے اؔپ کا، بڑی دردمندی ہے دل میں، اؔس اور امید کا دامن تھام کر رکھیں اللہ کوشش اور محنت ضائع نہیں کرتے، ایک وقت ہوگا کہ اؔپ بھی کہیں گے کہ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ ساتھ اؔتے رہے اوور کارواں بنتا گیا۔
درست ہے کہ انسانیت ابھی باقی ہے ۔ میرا ذہن کہتا ہے جس دن انسانیت ختم ہو جائے گی اُس دن دنیا تباہ ہو جائے گی ۔ شاید وہی روزِ قیامت ہو گا ۔
میں بوڑھی انسانیت کی تلاش میں ایک ایک فقرہ بغور پڑھتا آگے بڑھ رہا تھا تو میرے ذہن مین ایک واقعہ فلم کی طرح چلنے لگا ۔ میں لبیا کے شہر طرابلس کے بیرونی علاقہ مین اپنی کار چلاتے جا رہا تھا ۔ دفاتر میں چھٹی ہو گئی تھی اور سڑکوں پر بہر زیادہ ٹریفک تھا ۔ ایک چوک پر جمگھٹا ہو گیا وہاں نہ ٹریفک لائیٹ تھی اور نہ ٹریفک پولیس کا آدمی ۔ ایک منٹ کے اند کئی گاڑیوں مین سے لوگ اُترے اور چوک میں پہچ کر جائزہ لیا ۔ پھر ایک سڑک کی طرف گئے اور سب سے آخر والی گاڑی کو پیچھے کرایا ۔ پھر اُس سے آگے والی کو اور اس طرح ایک سڑک پر راستہ بنوا کر دوسری طرف متوجہ ہوئے ۔ دوسری سڑک پر راستہ بنوا کر چوک پر آ گئے اور ٹریفک چلوایا ۔ 5 منٹ میں گاڑیاں چلنی شروع ہوئیں اور جمگھٹا ختم ہوا ۔ میری باری 10 منٹ بعد آئی ۔ میرا اندازہ ہے کہ 1000 کے قریب گاڑیاں تھیں جو وہاں پھنس گئی تھیں ۔
جب اس کا مقابلہ میں اپنے ہموطنوں کے رویئے سے کرتا ہوں تو مجھےاَن پڑھ لیبی عرب تعلیم یافتہ اور اپنے پڑھے لکھے ہموطن جاہل محسوس ہوتے ہیں ۔
کسی زمانہ میں (اگست 1994ء سے قبل) میں اسلام آباد سے واہ جاتے ہوئے 2 بار شاہراہ شیرشاہ سوری پر پھنسا تھا ۔ ایک بار 3 گھنٹے اور دوسری بار 5 گھنٹے ۔ خاص بات یہ کہ ایک سڑک جانے کی تھی اور 10 فٹ کے فاصلے پر دوسری آنے کی اور دونوں سڑکوں پر دونوں طرف سے گاڑیاں آ کر کھڑی ہو گئی تھیں ۔ میں نے اپنی کار سے نکل کر لوگوں کی بہت منت سماجت کی لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا تھا
یہ ہماری قوم کا المیہ ہے ، وہ قطار میں لگ کر ایک منٹ انتظار نہیں کریں گے اور ٹریفک میں پھنس کر ایک ایک گھنٹہ انتظار کرتے رہیں گے ،
Very Nice. This is true that in our society simple and straight man is know as fool. It is because of the their foolish thinking.
بلال بھائی۔ بہت اعلی، آپ چناب کے پل پر ٹریفک میں پھنس کر پریشان ہوگئے، مرا خیال ہے، اگر آپ کچھی کراچی کے ٹریفک میں پھنسے ہوں، تو آپ بھول جائینگے، ویسے بھی دریا ئے چناب سے بڑی لوک داستانیں مشہور ہیں۔ (مگر آپ کی داستاں ، اور بوڑھی انسانیت) نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ۔
ایک کتاب پڑھ رہا تھا، تاریخ کی، اسمیں سعودی عرب کے مرحوم فرماروا شاہ ٍیصل مرحوم کے والد شاہ سعود کا ایک واقعہ کوٹ تھا ، وہ یاد آگیا، ایک خباری رپوٹر انسے انٹرویو لینے پہنچا، اور ایک سوال کیا ، ہائینس آپ ان صحرائی خانہ بدوشوں پر حکومت کیسے کرتے ہیں، تو آپ نے سیدھے ہاتھ سے قرآن پاک کا نسخہ اُٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی تلور نکالی، اور فرمایا ۔ عقل والوں اور شعور والوں پر کتاب سے اور جاہل اور گنوار لوگوں پر تلوار سے۔
میرا چند دل قبل دبئی جانا ہوا، ہندرہ دن میں کسی جگہ بھی پولیس کی موبائیل یا شُرطےٰ نہیں دیکھے، جبکہ وہان آپ کسی بھی صورت میں ٹریفک قوانیں تو کیا ، کسی بیابان سڑک پر گاڑی سے یو ٹران نہیں لے سکتے۔ آپ بلاوجہ اور ٹیک نہیںکرسکتے۔ آپ کسی غیر آباد جگہ سے روڈ کراس نہین کرسکتے سوائے زیبراکراسنگ کے۔ آپ سڑک پر چلتے ہوئے سگریٹ نہیں پی سکتے، آپ پبلک پلیس پر سرعام کاغذ کی تھیلی نہیں پھینک سکتے ۔۔۔
وہان یہی میرے پاکستانی بھائی، انسانیت کی مثال ہوتے ہیں، قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ کیون اسکی وجہ یہ ہے، کہ انکا جوتا تگڑا ہے۔ ٹریفک قوانین، اور مجوزہ اسپیڈ سے زائد پر بھاری جرمانے ہیں۔ وہان وہ آئی پی کلچر نہیں ہے۔
دراصل ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اور آزاد قومیں ایسی ہی ہوتی ہین۔۔۔۔۔۔۔ مادر پدر آزاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی و مکرمی،
سلامت باشی،
انسانیت کبھی بوڑھی نہیں ہو سکتی۔
ؤاسلام۔
بہت خوبصورت واقعہ لکھا . .پڑھ کر یقین ہی نہیں آیا
اور پہلا خیال جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ کہ اُن خاتون کے ساتھ گاڑی میں کون ہوگا جس نے انھیں پانی لا کر پلانے کی اجازت دے دی۔
ورنہ یہ بھی ہوتا دیکھا ہے کہ بھلائی کرنے والے کو قدم اٹھانے سے روک دیا جاتا ہے۔
انہی اماں کا بیٹا کہہ دیتا : بیٹھی رہو ، اتنے رش میں جا کر کیا کرو گی تو بس انسانیت، بوڑھی سہی مگر حسرت زدہ بیٹھی رہ جاتی۔
ایسی تحریر لکھنے والوں کو لکھنی چاہیں . . . کہ آنکھوں اور کانوں کو یقین کرنے کی عادت تو رہے۔
بھلا ہو ، خوش رہیں۔۔
آج کل ایک آدمی کی وجہ بہت سے لوگ تنگ ہوتے ہیں ہمارا ہاں کوئ قانون نہیں ہے
بھت خوب بلال صاحب،
انسا نیت نھی- احساس مر گیا ھے ھمارا- ھم نے بھی کٌی بار اس طرح کیا ھے، مگر dehyderation تک بات کبھی نھی پھنچچی یار۔Good Sprit and keep it up
ماشاءاللہ اچھا لکھتے ہیں۔
اپ کی تحریر زبردست ہیں بلال بھائی