اس تحریر کے دو حصے ہیں۔ پہلا رسمی تقریب پر مشتمل ہے اور دوسرے میں ہماری غیر رسمی گپ شپ کے حالات ہیں۔
کچھ دن پہلے خرم ابن شبیر اور الف نظامی صاحب کا فون موصول ہوا۔ جس میں انہوں نے اردو ویب (اردو محفل) کی طرف سے القلم تاج نستعلیق کی تخلیق پر شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ میری نوے فیصد کوشش ہو گی کہ حاضری دوں۔ الف نظامی صاحب نے کہا کہ نہیں نہیں، کوشش نہیں بلکہ آپ نے اور غلام عباس نے ضرور شرکت کرنی ہے۔
یوں تو میری اور غلام عباس کی مکمل تیاری تھی مگر ہمیں گجرات سے نکلتے نکلتے کچھ تاخیر ہو گئی۔ 2 دسمبر 2012ء دن اڑھائی بجے کے قریب اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد پہنچے۔ مجھے یہ پریشانی تھی کہ دیر ہو گئی ہے۔ ابھی ہم اکادمی کی عمارت کی طرف جا رہے تھے کہ ایک بندہ موٹر سائیکل پر آتا نظر آیا۔ قریب آنے پر معلوم ہوا یہ تو جناب خرم صاحب ہیں۔ مہمانوں کو پریشانی تھی کہ کہیں دیر نہ ہو گئی ہو مگر یہاں تو ہمارا میزبان خود تاخیر کا شکار تھا۔ کانفرنس ہال میں پہنچے تو تقریب شروع ہو چکی تھی اور نعت پڑھی جا رہی تھی۔ گو کہ آگے کئی نشستیں خالی تھیں مگر ہم سب سے آخری قطار میں ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ خرم تصاویر بنانے لگا اور ہم لوگ اندازے لگانے لگے کہ فلاں کون ہے اور فلاں کون۔ خرم کی شادی پر اس سے ملاقات ہوئی تھی، اس کے علاوہ میں تقریب میں موجود کسی بندے کو پہلے نہیں ملا تھا۔ شاکرالقادری، افتخار اجمل بھوپال اور محمد سعد کی تصویریں دیکھی ہوئی تھیں تو انہیں پہچان گیا۔ محمد سعد ہم سے بہت آگے بیٹھا تھا اور بمشکل پتہ چل رہا تھا کہ یہ کوئی داڑھی والا نوجوان ہے۔ میں نے غلام عباس کو کہا کہ مجھے وہ بندہ محمد سعد لگتا ہے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ واقعی محمد سعد تھا۔
تقریب کے منتظم اور نقابت کے فرائض الف نظامی صاحب ادا کر رہے تھے۔ حمد اور نعت کے بعد جناب عبدالحمید (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان)، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور شاکرالقادری کو سٹیج پر مدعو کیا گیا۔ نستعلیق رسم الخط ایجاد ہونے کی تاریخ یعنی خواجہ میر علی تبریزی کی بے مثال رسم الخط ایجاد کرنے کے لئے دعائیں مانگنا، دعا کا قبول ہونا اور خوبصورت و بے مثال نستعلیق خط کے وجود آنے پر الف نظامی صاحب نے خوبصورت باتیں بتا کر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کو اظہار خیال کے لئے مائیک پر بلایا۔ ڈاکٹر صاحب نے مشینی نستعلیق (نوری نستعلیق) پر کچھ باتیں کیں اور ساتھ ہی شاکر القادری صاحب کے کارنامے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اجازت چاہی۔ اس کے بعد شاکرالقادری صاحب کو مائیک پر مدعو کیا گیا تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ شاکر صاحب نے 1980ء میں مرزا جمیل احمد کے پاکستان میں نوری نستعلیق کے ترسیمے بنانے سے بات شروع کی۔ پھر مشینی نستعلیق رسم الخط پر تاریخی حوالے سے بات چیت کی۔ اس سے ملتی جلتی باتیں آپ میری ان دو تحاریر ”موجودہ دور میں اردو زبان“میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ مثلاً نوری نستعلیق کے ترسیموں کی ہندوستان کو فروخت، ہندوستان کی سافٹ ویئر کمپنی کا ان پیج بنانا۔ پاکستان میں چوری شدہ ان پیج کا بڑے پیمانے پر استعمال۔ 2008ء میں علوی اور جمیل نوری نستعلیق کا بننا، اردو پبلشنگ پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے مختلف اداروں اور لوگوں کی امجد حسین علوی کو دھمکیاں۔ ایسے حالات میں اردو کمیونٹی کا اپنا اوپن سورس نستعلیق بنانے پر غور کرنا اور پھر شاکرالقادری اور ان کی ٹیم کا القلم تاج نستعلیق بنانا۔
اسی دوران حاضرین میں موجود ایک صاحب رحمان حفیظ نے شاکرالقادری صاحب سے نوری نستعلیق مفت ہونے اور نہ ہونے کے متعلق چند سوالات کیے۔ جن کے جواب میں شاکرالقادری صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ ایک دفعہ ہم نے مرزا جمیل احمد سے نوری نستعلیق کو مفت کرنے کے متعلق رابطہ کیا تھا مگر کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔ مگر اب فاروق سرور خان صاحب کی وساطت سے پتہ چلا ہے کہ مرزا جمیل احمد نے نوری نستعلیق مفت کر دیا ہے اور اب اس کے مفت استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔ شاکر صاحب نے مزید بتایا کہ جب ہم اوپن سورس القلم تاج نستعلیق بنا رہے تھے تو اس دوران کئی لوگوں اور اداروں نے ہم سے رابطہ کیا اور سات آٹھ لاکھ روپے کے عوض القلم تاج نستعلیق فروخت کرنے کی آفر کی، مگر ہم نے سب کو انکار کر دیا اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ہم یہ فانٹ اردو والوں کے لئے بنا رہے ہیں اور مفت میں عوام کو دیں گے۔ شاکر صاحب نے کہا کہ اب آپ خود سوچئے کہ یہ لوگ القلم تاج نستعلیق کو مفت میں عوام تک کیوں پہنچنے نہیں دے رہے تھے؟ ویسے شاکر صاحب کے اس سوال کا جواب تو شاید ایک عام آدمی کے پاس بھی ہو اور وہ یہ ہے کہ سیدھی سی بات ہے، یہ ادارے اردو پر اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہوئے مال بنانا چاہتے ہیں۔
ان باتوں کے علاوہ شاکر صاحب نے القلم تاج نستعلیق میں اپنے معاون اشتیاق علی قادری کا ذکر کیا۔ مزید اردو کی خدمات پر امجد حسین علوی، نبیل حسن نقوی اور اردو محفل کی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنی بات چیت ختم کی۔ اس دوران ہم آخری قطار میں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ تبھی ایک صاحب نے آ کر کہا کہ تھوڑا اگلی نشستوں پر ہو جائیں تو پھر ہمیں مجبوری میں ایک دو قطار آگے جانا پڑا۔ گو کہ یہ بات خرم کافی دیر سے کہہ رہا تھا مگر میں نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا کہ ایسی تقاریب میں سب سے آخری قطار اور کسی کونے میں بیٹھ کر باتیں سننے میں جو مزہ ہوتا ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔ تقریب میں تیس کے قریب لوگ موجود تھے۔
تقریب اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھی اور اب صدارتی خطبے کے لئے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب عبدالحمید صاحب کو دعوت دی جا رہی تھی۔ اس دوران مجھے الف نظامی، خرم ابن شبیر اور اردو محفل کے کرتا دھرتا پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ اتنی زبردست تقریب منعقد کر لی مگر اردو محفل کی طرف سے کیا کوئی اظہارِخیال کرنے والا نہیں تھا۔ خیر عبدالحمید صاحب نے مائیک پر آتے ہی کہا، یہ زندگی میں پہلا اتفاق ہے کہ جس موضوع پر بولنے لگا ہوں اس کا مجھے خود نہیں پتہ۔ بس جو لکھ کر دیا گیا ہے وہ پڑھ دیتا ہوں۔ واقعی انہوں نے ایسے ہی پڑھا جیسے ایک بچہ استاد کو کتاب پڑھ کر سنا رہا ہوتا ہے۔ بہرحال آخر پر انہوں نے کہا، گو کہ مجھے ان سب چیزوں کا نہیں پتہ اور ادارۂ فروغِ قومی زبان (پرانا نام:-مقتدرہ قومی زبان) سے میرا براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر ہم اور وہ ایک ہی وزیر کے زیرنگرانی آتے ہیں، اگر اردو والوں کو یا شاکرالقادری صاحب کو ان سے کوئی کام نکلوانا ہو یا کچھ کہنا ہو تو میں سیکرٹری یا وزیر کو کہہ سکتا ہوں (میرے خیال میں یہ صرف اور صرف ایک سیاسی بیان تھا اور اللہ کرے میرا خیال غلط ہو)۔
چیئرمین کے بعد الف نظامی صاحب نے اعلان کیا کہ اب اردو محفل کے نبیل حسن نقوی کی طرف سے بھیجا گیا پیغام ساجد صاحب پڑھ کر سنائیں گے۔ پینٹ کوٹ میں پھنسا ہوا اور ٹائی کے پھندے سے لٹکتا ہوا ایک تیز طراز بندہ مائیک پر پہنچا۔ ابھی چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یا تو اس کی بیلٹ کافی ”ٹائیٹ“ ہے یا پھر یہ پیغام ابھی ابھی ان صاحب کے ہاتھ میں پکڑایا گیا ہے اور وہ براہ راست بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ دراصل وہ میری طرح اردو بول رہے تھے۔ وہ کیا ہے کہ میری مادری زبان پنجابی ہے، اوپر سے الحمد اللہ ہم پینڈو (دیہاتی) ہیں اس لئے میں اردو کے اکثر الفاظ بڑے ”چبا چبا“ کر بولتا ہوں۔ 🙂 بالکل ایسا ہی حال اس وقت اپنے ساجد صاحب کا تھا۔ پہلے ”ہیں“ کو ”ہے ے ے“ پڑھ جاتے اور ساتھ ہی درستگی کر لیتے۔وہ تو تقریب کے بعد جب ان سے غیر رسمی گفتگو ہوئی تو پتہ چلا کہ حضرت کافی اچھی اردو بولتے ہیں یہ تو بس فوراً ان کے ہاتھ میں خط تھما دیا گیا تھا کہ یہ پڑھ کر سنا دو کیونکہ وہ تقریب میں تھوڑی تاخیر سے پہنچے تھے جبھی صدارتی خطبے کے بعد ان کو مائیک پر بلایا گیا۔ لہٰذا انہوں نے نبیل حسن نقوی کا بھیجا گیا پیغام پڑھ کر سنایا۔
ان سب باتوں کے بعد چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے شاکرالقادری کو اردو محفل کی طرف سے اعزازی شیلڈ پیش کی۔ خوب جم کر فوٹو گرافی ہوئی کیونکہ تقریب میں اتنے سامعین نہیں تھے جتنے فوٹو گرافر تھے۔ خیر اس کے بعد چیئرمین نے اجازت چاہی اور ہم نے ہنسی خوشی اجازت دے دی۔ کیونکہ انہیں فوراً کہیں پہنچنا تھا، شاید ان کے گھر والے کسی تقریب میں تھے اور انہیں لینے جانا تھا۔ اڑھائی بجے سے شروع ہو کر تقریباً چار سوا چار تک تقریب کا رسمی حصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
رسمی تقریب یہاں پر ختم ہو گئی۔ اب کھلے ماحول کی کھلی باتوں کا وقت تھا۔ اس تقریب میں مجھے شکل سے صرف خرم جانتا تھا یا پھر میرے ساتھ گیا ہوا میرا دوست غلام عباس۔ خیر تقریب کا رسومات والا حصہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا اور میں کرسی سے اٹھتے ہی داڑھی والے نوجوان کی طرف بڑھا۔ سلام لیتے ہی میں نے پوچھا محمد سعد؟ جواب آیا جی محمد سعد۔ میں نے کہا، میں محمد بلال۔ ساتھ ہی ہم بڑی گرم جوشی سے گلے ملے۔ اس کے بعد افتخار اجمل بھوپال صاحب سے تعارف ہوا۔ اتنے میں شاکرالقادری ”وڈے لوکاں“ کو مل چکے تھے تو خاکسار نے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ شاکر صاحب سے گلے ملتے ہوئے بس رسمی سی گفتگو ہوئی۔ دراصل میں گاؤں کا تھوڑا ”کھلنڈرا منڈا“ ہوں، اس لئے کوشش ہوتی ہے کہ بزرگوں سے زیادہ فری نہ ہوں کہ کہیں کوئی گستاخی نہ ہو جائے۔ اس دوران الف نظامی صاحب سے تعارف ہوا۔ انتظامات اور اعلان کرتا دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ الف نظامی ہیں۔
اس کے بعد کسی سے کوئی خاص تعارف نہ ہوا بس خرم پکڑ پکڑ کر تصویروں میں دھر لیتا۔ کبھی چلو جی اردو محفل والے اکٹھے ہو جاؤ، کبھی لو جی، ان کے ساتھ تصویر بنوائیں۔ اف اتنی فوٹوگرافی کہ مجھے لگا کہ اردو والوں کے دماغ خراب ہو چکے ہیں۔ ہم جوان کبھی مقامِ فرش پر ہوتے تو کبھی بزرگوں کے سر پر مگر پیچھے کھڑے کر دیئے جاتے۔ الف نظامی صاحب بار بار اعلان کرتے کہ چلو ”ریفرشمنٹ“ کر لو، مگر کسی کی باتیں ختم نہیں ہو رہی تھیں تو کسی کے کیمرے نہیں رکتے تھے۔ خیر ہم نے پنجابی میں کہا کہ اللہ والو! باہر چلو اور چائے کے ساتھ ساتھ گپ شپ کر لینا۔ وہ کیا ہے کہ چائے تیار ہو اور یوں وقت ضائع ہو یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔
خیر سموسے، بسکٹ، گلاب جامن اور دیگر چیزیں کھاتے کھاتے، چائے پیتے پیتے تعارف اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران افتخار اجمل صاحب سے بات چیت ہو رہی تھی کہ ایک بزرگ نے مجھے بازوں سے پکڑا اور بولے کہ آپ کا نام کیا ہے۔ میں نے کہا جی محمد بلال۔ بزرگ نے کہا کہ محمد بلال، ایم بلال یعنی پاک اردو انسٹالر والے۔ اتنا کہتے ہی انہوں نے گلے لگا کر اتنی داد دی اور حوصلہ افزائی کی کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں انہیں کیا کہوں۔ پھر میں نے ان سے ان کا تعارف پوچھا تو انہوں نے اپنا نام محمد اصغر اور جب مزید بتایا تو میں حیران رہ گیا کیونکہ وہ اردو محفل والے تلمیذ تھے۔ میں آج تک سمجھ رہا تھا کہ تلمیذ کوئی لڑکا ہو گا مگر یہ تو بزرگ ہیں، مزید پتہ چلا کہ جناب تو ہمارے شہر گجرات کے ہیں۔ سب جان کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ ان سے خوب جم کر گپ شپ ہو رہی تھی کہ ایک خوبصورت، پتلا مگر لمبا جوان ہمارے پاس آیا۔ اس نے اصغر صاحب کو اپنا نام سعادت بتایا جبکہ مجھے ساجد کی سمجھ لگی۔ میں نے سوچا کہ اس ساجد کا نام پہلے کبھی نہیں سنا اس لئے بس رسمی سی سلام دعا ہی ہوئی۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ اس جوان کو کس نے بتایا مگر تھوڑی دیر بعد اسی جوان نے مجھے کہا کہ آپ ایم بلال ہی ہو؟ میرے ہاں پر انہوں نے کہا کہ میرا نام سعادت متین ہے۔ ابھی میں تھوڑا سوچ میں پڑا تھا کہ سعادت خود بول پڑے کہ الٹا سیدھا بلاگ والا سعادت۔ انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ہم گلے ملنے لگے۔ مجھے سعادت سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی، یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔ سعادت بھائی سے تھوڑی ہی دیر میں فری ہو چکا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا میں نے کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔ میں نے کہا بھائی آج اتوار ہے اور بھلا اتوار والے دن جوان بندے کو کیا کام ہو سکتا ہے؟ میرے سوال کے مذاق کو فوراً سمجھ گئے اور بولے نہیں نہیں مجھے اپنے سسرال جانا ہے۔
خیر سعادت بھائی چلے گئے اور کیمرہ مین خرم دبا کے تصاویر بناتا رہا۔ اسی دوران ایک بزرگ سید زبیر سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی نہایت شفیق تھے۔ بزرگوں کی خاکسار سے اتنی محبت دیکھ کر مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہیں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔ اِدھر ہی علوی نستعلیق کے امجد حسین علوی سے ملاقات ہوئی۔ محترم غالباً نہایت ہی کم گو ہیں۔ ان کے منہ سے تو ایک لفظ سننے کو ترس گئے۔ مگر جناب چپ چاپ ایک طرف کھڑے رہے۔ اسی دوران شاکرالقادری صاحب پر نظر پڑی تو میں ان کی طرف چل دیا۔ ایک دفعہ پھر سلام کیا اور گلے ملا۔ حال چال پوچھا، مبارکباد دی اور دعا کی درخواست کی ہی تھی کہ حضرت نے اپنے بیٹے فیضان کو آواز دی اور اسے کہا کہ میری کتاب جمالیات کے جتنے نسخے باقی بچے ہیں وہ فلاں، فلاں اور فلاں کو ایک ایک دے دو۔ شاکر صاحب جس جس کی طرف اشارہ کرتے میں مڑ کر ادھر دیکھتا اور سوچتا کہ اگلا نام میرا ہی ہو گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ ابھی میں ان کے پاس ہی کھڑا تھا کہ وہ کتابوں کا کہنے کے بعد کسی اور جانب متوجہ ہو گئے۔ مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ انٹرنیٹ کی دنیا میں جس پہلے شخص کو میں ملنا چاہتا تھا وہ شاکرالقادری صاحب ہی تھے مگر آج ملاقات ہوئی تو گپ شپ نہ ہو سکی۔ اسی دوران اردو محفل کے دیگر دوست فوٹوشوٹو بنوا رہے تھے تو خرم مجھے پکڑ کر ادھر لے گیا، بلکہ ایک تصویر تو میں نے پورے کارٹون کے انداز میں بنوائی۔ شاکر صاحب سب کو مل کر جانے لگے تو مجھے پتہ چلا، میں تیزی سے باہر نکلتے ہوئے شاکرالقادری صاحب کی طرف بڑھا اور الوداعی سلام کیا۔
شاکر صاحب چلے گئے۔ ہم لوگ بھی اکادمی کی عمارت سے باہر نکل آئے۔ محمد سعد جانے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا۔ ارے بھائی، اوئے مولوی لینکس کدھر کو جاتے ہو، ابھی ہم گئے نہیں تو آپ کیوں جاؤ۔ خیر محمد سعد بھی ہمارے ساتھ گاڑی کی طرف چل دیا۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر محمد سعد ادھر ادھر دیکھنے لگا تو میں نے کہا کہ کیا بات ہے بھائی۔ جواب ملا، مُلا کی دوڑ مسجد تک۔ آپ لوگ ٹھہرو میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ محمد سعد نماز پڑھنے چلا گیا۔ میں، خرم اور غلام عباس گپ شپ کرنے لگ پڑے۔ غلام عباس بولا یہ محمد سعد جتنا تیز نظر آ رہا ہے دیکھ لینا بڑی تیزی سے نماز پڑھ کر آئے گا اور واقعی ایسا ہوا۔ پلک جھپکتے ہی محمد سعد نماز پڑھ کر آ گیا۔ میں نے خرم کو کہا کہ بھائی اب ہمیں جانے دے مگر وہ بضد تھا کہ کھانا کھا کر جانا ہے۔ خیر اس کے بعد خرم بولا اردو محفل والے کچھ دوست ادھر ساتھ ہی ایک کیفے ٹیریا پر گئے ہیں، چلو ادھر چلتے ہیں۔ میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی گرم ٹوپی اور چادر اوپر لے لی کیونکہ مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ اکادمی کے ساتھ ہی ایک کیفے ٹیریا پر پہنچے تو میں نے خرم کو کہا کہ یار ان لوگوں سے ہماری کوئی خاص جان پہچان نہیں اور وہ یہاں آ کر علیحدہ بیٹھے ہیں تو میرے خیال میں ہمیں انہیں تنگ نہیں کرنا چاہئے۔ خرم بولا کہ جیسا تم سوچ رہے ہو ایسا کچھ نہیں، چلو چلو گاڑی سے اترو۔ ابھی تم سے بڑی گپ شپ کرنی ہے۔
خیر گاڑی سے اتر کر دوستوں کے پاس پہنچے تو سب سے سلام دعا ہوئی۔ سب نے اپنا اپنا تعارف کروایا اور میرا تعارف خرم نے یوں کروایا کہ یہ ایم بلال ایم ڈاٹ کام اور پاک اردو انسٹالر والے بلال صاحب ہیں۔ پھر جی کسی طرف سے تجسس بھرا اچھا اچھا آیا تو کسی نے کہا اچھا تو یہ وہ بلال صاحب ہیں۔ وہ کیا ہے کہ کچھ ہم نے کالی چادر لے رکھی تھی تو کچھ سارے رستے ٹوپی پہن رکھنے کی وجہ سے بال کافی بیٹھے ہوئے اور ایک دو لٹ ماتھے پر آئی ہوئی تھیں۔ 🙂 خیر ساجد بھائی بولے کہ ہم تو سمجھتے تھے کوئی سوکھا اور عینک والا جوان ہو گا مگر آپ تو پہلوان آدمی ہو۔ میں نے کہا، اجی جٹ قسم کا کسان بندہ ہوں، یہ تو آپ لوگوں کی محبت نے پکڑ کر اردو پر لگا دیا ہے۔ خیر خوب گپ شپ ہوئی۔ کبھی مذاق تو کبھی سنجیدہ موضوع زیربحث آ جاتا۔ زیادہ تر باتیں اردو اور بلاگنگ کے گرد ہی گھومتی رہیں۔ اپنے ”تبدیلی“ والے الف نظامی (نعیم اختر) کو فیس بک اور اِدھر اُدھر پودے لگانے پر میں نے خوب مذاق کیا کہ اللہ والو یہ دیکھو کتنے پودے لگے ہوئے ہیں اور آپ پھر بھی کہتے ہو کہ ”بوٹے لاؤ، بوٹے لاؤ“ (پودے لگاؤ، پودے لگاؤ)۔ بتاؤ جی اور کتنے پودے لگائیں؟ بہت ہی نرم طبیعت اور ایک زبردست الف نظامی نے مذاق کو مذاق ہی سمجھا اور ذرہ برابر محسوس نہ کیا۔ اس محفل میں ساجد، عاطف بٹ، ذوالقرنین سرور عرف نیرنگ خیال، فراز عرف بابا جی، سید زبیر، الف نظامی، محمد سعد، غلام عباس، خرم ابن شبیر اور مزید ایک دو بندے شامل تھے جن کے نام یاد نہیں۔ ویسے یہ فراز صاحب مجھے اردو بلاگر جعفر لگ رہے تھے کیونکہ میں نے جعفر کی جو تصویر دیکھ رکھی ہے اس سے یہی لگتا تھا۔ ایک دفعہ تو میرا شک پکا ہو گیا کیونکہ یہ صاحب شروع میں تصویر ”بنانے“ میں تو پیش پیش تھے مگر بہانے بہانے سے ”بنوانے“ کی طرف نہیں آ رہے تھے اور غالباً اپنے جعفر بھائی بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ 🙂 ایک دفعہ تو میں نے غلام عباس سے بھی اپنے شک کا اظہار کیا تو اس نے مذاق میں کہا اگر یہ جعفر ہے تو پھر وہ ساتھ والا یقیناً ڈفر ہو گا۔ خیر بعد میں پتہ چلا کہ میرا شک غلط تھا۔
اکادمی کے نزدیک بسم اللہ کیفے ٹیریا پر بیٹھ کر ہم نے خوب گپ شپ کی۔ اردو محفل کے نئے اراکین کو میں نے اور ساجد بھائی نے کچھ پرانی باتیں بتائیں۔ سب نے مل کر بلکہ خاص طور پر ساجد بھائی اور میں نے کچھ خرابیاں اور مسائل پر بات چیت کی۔ جن پر عموماً الف نظامی صاحب بس اپنی گواہی یا رائے پیش کر دیتے۔ اردو محفل کے کئی معاملات پر پوسٹ حذف کرنے کی بات ہو رہی تھی تو ساجد بھائی بار بار کہہ رہے تھے کہ ”مراسلہ حذف“ ہوا تو ایسا ہوا، ویسا ہوا۔ مجھے مذاق سوجھا تو میں نے کہا حضرت یہ کیا وکی پیڈیائی اردو بول رہے ہو۔ برائے مہربانی آسان اردو میں بات کرو، ایسی اردو انٹرنیٹ پر ہی اچھی لگتی ہے کہ ”میں نے شمارکنندہ چالو کرتے ہی جالبین سے رابطہ استوار کر کے مدونہ کھولا۔“ اس پر سب نے قہقے لگائے۔ ویسے محمد سعد نے یہی فقرہ ایس ایم ایس پر مانگا تاکہ بچوں کو ڈرانے کے کام آئے۔ 🙂 خیر کچھ ہلہ گلہ کیا اور کچھ موضوعات پر خوب کھل کھلا کر بات چیت ہوئی۔ کچھ مذاق کیے اور کچھ ایسی باتیں تھیں جو اس کیفے ٹیریا کے کھلے میدان میں ہی ختم ہو جانی چاہئے اس لئے یہاں نہیں لکھ رہا۔ رات گئی بات گئی۔ ویسے جب ہم ایسی کوئی رازونیاز کی باتیں کرتے تو محمد سعد کہتا کرو کرو ایسی باتیں ابھی ہیڈکواٹر اطلاع کرتا ہوں اور فوراً موبائل کان کو لگا کر کسی جاسوس کی طرح فون کرنے لگتا۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں رہتے ہوئے مجھے ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ محمد سعد اتنا زبردست بندہ ہے۔ میں نے گرم چادر لے رکھی تھی اور اس کا کچھ حصہ خرم کے اوپر تھا مگر باقی سب کھلے آسمان تلے سردی سے ٹھر رہے تھے۔ کسی کا اٹھنے کو دل نہیں کر رہا تھا مگر مجبوری میں اٹھنا ہی پڑا۔ جاتے جاتے بھی ہماری باتیں ختم نہیں ہو رہی تھیں۔ دل کرتا تھا کہ ہم سب بیٹھیں رہیں اور آف لائن یہ اردو محفل سجی رہی۔ میری کوشش یہی رہی کہ سب تکلفات سے نکل کر سکون سے گپ شپ کریں تاکہ دوستیاں بڑھیں۔
خیر پھر ملنے، ایک دوسری کی طرف آنے کی دعوت اور نمبروں کی لین دین کرتے ہوئے ساڑھے چھے سات بجے کے قریب جدا ہوئے۔ پھر غلام عباس، الف نظامی اور میں خرم کے گھر گئے۔ نہایت لذیذ کھانا کھایا اور خرم کو الوداع کہہ کر واپس گجرات کو چل دیئے۔ جدھر سے ہم نے جانا تھا ادھر ہی راستے میں الف نظامی صاحب کا گھر آتا تھا تو انہیں ساتھ لے لیا۔ راستہ میں کچھ اہم معاملات زیر بحث آئے ہی تھے کہ نظامی صاحب کا گھر آ گیا۔ انہیں اتارا، الوداع کہا، میں اور غلام عباس گجرات کو چل دیئے۔ رات کے تقریباً ساڑھے بارہ ہم گجرات پہنچے۔
اس تقریب میں بزرگوں اور دوستوں کی شفقت، محبت اور اپنے پن سے مجھے پہلی بار اس معیار کا اندازہ ہوا کہ ہمیں کوئی خطرہ یا غم نہیں ہونا چاہئے۔ جن کے لئے اتنی دعائیں اور محبت ہو انہیں بھلا اور کیا چاہئے۔ تمام لوگ ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور یہ ایک یادگار تقریب تھی۔ اس تقریب کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ بغیر کسی لالچ کے تمام اردو والے، ایک اردو والے (شاکرالقادری) کو خراج تحسین پیش کرنے آئے تھے اور ایک دوسرے سے اتنی محبت سے ملے کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ باقی تقریب میں موجود تمام بزرگوں اور دوستوں سے درخواست ہے کہ مجھ سے جانے انجانے میں کوئی غلطی گستاخی ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ آپ سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور آپ سب نے ثابت کر دیا کہ جب اردو والے ملتے ہیں تو محبتیں ہی محبتیں بکھیرتے ہیں
الف نظامی صاحب نے اردو محفل کی طرف سے شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں ایک نہایت ہی شاندار تقریب کا انتظام کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجر دے۔۔۔آمین
جو لوگ تقریب کی تصاویر دیکھنا چاہیں وہ فیس بک پر خرم کی فوٹو البم یا اردو محفل پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں۔ مزید اس سے بھی زیادہ تصاویر منظر عام پر آنی ہیں۔
جزاک اللہ جی ۔ہمیں بھی آپ نے اتنی اچھی محفل کی سیر کرادی
بہت خوب بلال بھائی۔ زندہ باد۔ چھا گئے ہو جی 🙂
واہ جی موجاں کرکے آگئے۔
ہم خیال دوستوں سے کچھ اچھا وقت واقعی اچھا گذرتا ہے
بہت خوب۔ ویسے ہم بھی گجرات کے ساتھ جو چھوٹا سا قصبہ لالہ موسی ہے ادھر کے ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ گجرات میں رہتے ہیں۔ ہمارے کچھ عزیز و اقارب گجرات میں ہیں اور جب بھی پاکستان کا چکر لگے گجرات کا چکر ضرور لگتا ہے۔
تصویری سیر تو پہلے کر لی تھی اب آپ کی زبانی محفل کی روداد بھی معلوم ہوگئی ۔ 😉
بھائی آپ نے تو ساری جی کو جلانے والی باتیں لکھ ڈالیں۔ خیر اب وقت گزر چکا ہے۔
بلال بیٹا ! آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔آپ کا کام ،آپ کی شخصیت نے بہت متاثر کیا ۔اللہ تعالیٰ اپ کو کامیبیوں اور خوشییوں سے بھرپور طویل زندی عطا کر (آمین)
بہت شکریہ برادرم بلال!
آپ نے تقریب کا احوال بہت عمدہ انداز میں لکھا۔ ایک ایک لمحے کی عکاسی الفاظ میں ڈھال دی۔ یوں لگتا ہے کہ ہم ابھی تک اسی محفل میں موجود ہوں۔
میری کم گوئی قدرتی ہے۔ میں بچپن سے ایسا ہی ہوں۔ میں آپ کو ہر محفل میں اسی طرح خاموش نظر آوں گا۔ بہت سے لوگ میرے کام کو دیکھ کر میری شخصیت اور گفتار کے بارے میں بلند توقعات رکھتے ہیں لیکن جب مجھ سے ملتے ہیں تو انہیں مایوسی ہوتی ہے۔بہت کوشش کر دیکھی لیکن میں اپنے اس انداز کو بدل نہیں پایا۔
میرا خیال ہے کہ آپ جنہیں ساجد کہہ رہے ہیں اُن کا نام ثاقب ہے ۔ ساجد صاحب تصویر میں میرے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں ۔ میرے بائیں ہاتھ سیّد شاکرالقادری صاحب اور اُن کے بائیں ہاتھ ثاقب صاحب بیٹھے ہیں
محمد سعد کے متعلق آپ نے سچ کہا ۔ مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔ جتنی اس کی داڑھی لمبی ہے اتنا ہی اندر سے گہرا ہے ۔ جب مجھ سے ملے یا بات کرے خود کچھ بولتا نہیں مجھ سے باتیں اُگلواتا رہتا ہے ۔ اورشاید اپنے سر میں لگی ہارڈ ڈسک میں محفوظ کرتا جاتا ہے
نہیں انکل جی وہ جس ساجد کی بات کر رہے ہیں وہ اردو محفل میں ہوتے ہیں
بہت خوب! 🙂
آپ کے نام کے بارے میں تصدیق مَیں نے خرم سے کی تھی۔
جی ہاں مجھے یاد ہے آپ نے مجھ سے ہی کنفرم کیا تھا
بہت اچھی تحریر لکھی۔ بہت خوب!!
خوب رُوداد لکھی ہے آپ نے بلال صاحب
السلام علیکم،
تقریب کے بارے میں آپ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے ، پڑھ کر لُطف ّگیا۔ تمام احباب سے مل کر بہت خوشی ہوئی لیکن آپ سے ملنا میرے لئے بےحد زیادہ مسرت کا باعث تھا کیونکہ اردو کے حوالے سے آپ کے کئے ہوئے کام کی وجہ سے میں آپ کی خدمات کا بہت معترف تھا (بلکہ ہوں)۔آپ کے بارے میں جس پڑھاکو اور ‘معنک’ قسم کی شخصیت کا تصور تھا، ایک ٹھیٹ پنجابی جوان کو اپنے سامنے پا کر وہ پاش پاش ہوگیا۔ زندہ باد!
تقریب کےبعد والی نشست سے محرومی کا افسوس ہے کیوں کہ مجھے کسی کام کے سلسلے میں پنڈی جانا تھا۔ لیکن ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا کیونکہ آپ کی تحریر کے مطابق یہ جوانوں کی محفل تھی جو ہماری موجودگی میں شاید اتنی بے تکلف نہ ہو پاتی۔
بہر حال بڑی دیر بعد ایک اچھی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔
ماشاء اللہ ، اللہ تعالی آپ لوگوں کو اور اردو کو مزید ترقی دے
بہت خوب، تقریب کے احوال پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ شاکر صاحب کو میری طرف سے طرف سے مبارکباد۔
بہت شکریہ بلال۔ مزا آ گیا پڑھ کر۔
اللہ تعالی آپ سب دوستوں کی محبت کو یونہی قائم رکھے اور اس میں اضافہ کرتا رہے، آمین۔
بلال بھائی تقریب میں “ڈفر” کی کمی محسوس نہٰیں ہوئی کیا؟
یار چھوٹے لوگوں کی بات کرو گے تو کمی کی بجائے ”زیادتی“ موضوع بحث بن جائے گی۔ چینج دا ٹاپک
“دراصل میں گاؤں کا تھوڑا ”کھلنڈرا منڈا“ ہوں” واقعی؟
ویسے اچھا لکھا ہے۔ میں گواہ ہوں بالکل یہ ہی کچھ ہوا تھا، اور اسی ترتیب کے ساتھ۔ 😀
تصویروں کے بعد تقریب میں بھی شرکت ہو گئی ، شکریہ۔
میرا ذکر ہو کہیں اور میں وہاںپایا نہ جاوں؟ ناممکن 😉
اطلاعا عرض ہے کہ وہ میں ہی تھا۔۔ اور ڈفر ساب بھی موجود تھے۔ اب یہ آپکا کام ہے کہ انہیں ان تصویروں میں ڈھونڈیں۔
ویسے مجھے یقین ہے کہ اس تقریب میں سب سے زیادہ کام خرم بھائی نے کیا ہے 🙂 ۔ کیونکہ مسلسل تصویریں بناتے رہنا بہت مشکل کام ہے ۔
السلام علیکم،
جناب بہت خوب اور دل-کش انداز_ بیاں ہے. اللہ ہر اردو محب کی تحریر کو شگفتگی اور دل آویزی عطا فرماۓ. آمین.
م بلال م پر تقریبا روز ہی آنا ہوتاہے کیوںکہ محبوب تحریریں محبت کی پیاس کو جو بجھاتی ہیں!
فی الحال دو باتیں ہیں اگر دل پہ نہ لیں تو…
۱: کافی عرصے سے جب بھی آپ “آپ” لکھتے ہیں تو جملے کےاختتام پر “ہو” لے آتے ہیں حالانکہ یہاں “ہیں” آنا چاہیے. مثلا (اوپرآپ نے لکھا ہے): آپ پھر بھی کہتے ہو.
۲: کمپیوٹر کا اردو”حسابیہ” ہے. شمارکنندہ یا شمارکار “کیلکولیٹر” کے لیے استعمال ہوتے ہیں. اس پر ماہنامہ گلوبل سائنس میں بحث ہوئ ہے. (پھر بھی اس میں اختلاف ممکن ہوسکتا ہے)
مجھے تو یہ سب تفصیل پڑھ کر جلن ہورہی ہے آپ سب نے مل کر اتنے مزہ کئے اتنے سارے باتیں کئے اور ہم باقی بلاگرز ؟ خیر کوئی بات نہیں ہمارے اس بھائی نے اتنی تفصیل سے تقریب کا حال احوال لکھ کر ایک طرح سے ہمیں بھی شامل کرلیا ، شکریہ بلال بھائی بے حد آپ کا اس تحریر کے لئے ۔۔۔۔
السلام عليكم
آپ كى عنايت كے آپ نے ملن كو اتنے اہتمام سے لكه كر هم تك پہنچايا
جزاك الله خير
آپ كو ايميل دو بار ارسال كر چكا ہوں مگر محسوس ہوتا ہے كہ آپ تك پہنچ نہيں پايا. از راه كرم بتلائيں تاكہ سه بار ارسال كردوں
والسلام
بھائی مجھے بلاگنگ کا زیادہ پتہ نہیں لیکن آپ کا بلاگ دیکھ کر اور آپ کے مضامین پڑھ کر مجھ میں بھی ہمت آئی ہے کہ کچھ سیکھو آپ سے،اسی لئے کوشش کی ہے۔آپ کی راہنمائی کا خواہش مند ہوں
زبردست۔کمال کی رپورٹ لکھی ہے آپ نے ۔آپ کی تحریر پڑھ کر یوں لگا جیسے ہم بذات خود محفل میں موجود تھے۔
بھائی میں اُردو انسٹالر کے ذریعے ،،خط نستعلیق ،، میں کیسے لکھ سکتا ہوں جیسے اس وقت یہاں لکھ رہا ہوں۔اپ کا کہنا ہے کہ انسٹالر کے انسٹال ہوتے ہی نستعلیق بھی ساتھ ہی انسٹال ہو جاتا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوتا ہے ! اگر نستعلیق ساتھ ہی انسٹال ہو جاتا ہے تو پھر اُسے استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔شکریہ۔
اقبال حسن خان