ہمیں سفر کرتے ہوئے تقریباً بارہ تیرہ گھنٹے گذر چکے تھے اور اب ہم سفر سے تھوڑے تھوڑے اکتا رہے تھے۔ مگر دائیں طرف موجود دریائے سندھ اور اس کے کنارے کنارے بل کھاتی قراقرم ہائی وے پر سفر کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ تھوڑا سا سفر کرتے تو کوئی نہ کوئی چشمہ، ندی یا نالہ دریائے سندھ میں گِر رہا ہوتا۔ جہاں پر دو پانیوں کا ملاپ ہوتا وہ منظر بہت ہی خوبصورت ہوتا۔ دودھیا اور مٹیالہ پانی گلے مل رہے ہوتے۔ چشمے، ندی یا نالے کا پانی تھا تو شفاف مگر زیادہ ڈھلوان کی وجہ سے پتھروں سے ٹکراتا، چھینٹے اڑاتا، بلبلے بناتا، دودھیا رنگت کا جھانسہ دیتے ہوئے دریا میں گِرتا۔ شاید دریائے سندھ دوسرے پانیوں کی رنگت سے متاثر ہو کر انہیں اپنے ساتھ ملا رہا تھا یا پھر یہ اس کا بڑا پن تھا، اب نیت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بہر حال جو بھی تھا، میں نے تو یہی دیکھا کہ دریابڑی گرمجوشی سے اپنے دونوں بازو کھولتا اور چشموں کو اپنی آغوش میں لے لیتا۔ چشمے بھی ہنسی خوشی دریا کی آغوش میں سما جاتے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے چشمے صدیوں سے دریا کی جدائی میں تھے اور انہیں ابھی ابھی دریا سے ملنے کا موقع ملا اور وہ اچھلتے، ناچتے، گاتے دریا سے ملنے اور اس کے مٹیالے پانی میں فنا ہونے کو دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ دو مختلف رنگ، نسل اور قبیلے کے پانیوں کو ملتا دیکھ کر میں سوچ میں ڈوب گیا کہ ہم انسان ان پانیوں کی مانند کیوں نہیں ہوتے۔ ہم رنگ، نسل اور قبیلے کی تفریق میں کیوں پڑے ہیں؟ یا پھر یہ پانی ہیں اور ہم انسان ہیں۔ ان پانیوں کے مزاج میں بغض، کینہ اور حسد نہیں۔ اگر یہ بھی انسانوں کی طرح ہوتے تو شاید کبھی ایک دوسرے سے نہ ملتے بلکہ ہر کوئی دھرتی کی میخوں (پہاڑوں) کو اکھاڑ کر اپنا اپنا الگ رستہ بناتا، یوں انسانوں کی طرح دھرتی کا حسن برباد کرتے اور خود کو خسارہ میں ڈالتے۔
ایک طرف دو قسم کے پانی آپس میں مل رہے تھے تو دوسری طرف دن بھی رات کو ملنے کے لئے بیتاب تھا۔ شام ہو رہی تھی اور ہمارا سفر جاری تھا۔ شاہراہ قراقرم بلندی سے نیچے آ گئی یا پھر یہاں پر دریائے سندھ ہی بلند ہو گیا۔ بہر حال جو بھی تھا مگر دریا سڑک کے کافی قریب تھا۔ میرے موبائل کا جی پی ایس سسٹم بتا رہا تھا کہ داسو شہر آنے والا ہے۔ گاڑی میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ سب کا خیال تھا کہ اب سورج ڈھل چکا ہے اور سفر کرتے ہوئے بھی چودہ گھنٹے ہو چکے ہیں لہٰذا ثمر نالہ کی بجائے داسو میں ہی رات گزاری جائے۔ مگر میرا ذرہ بھی دل نہیں تھا کہ ہم داسو میں رات رہیں۔ میرا مشورہ یہی تھا کہ سفر جاری رکھا جائے اور ثمر نالہ تک پہنچا جائے۔ داسو میں ہم نے ایک دفعہ پھر دریائے سندھ کو عبور کیا اور اب دریائے ہماری بائیں جانب سے نمودار ہو گیا۔
گاڑی رکوا لی گئی اور داسو میں رات رہنے کی بات چیت شروع ہو گئی۔ وہاں پر کیمپنگ کی کوئی مناسب جگہ نہیں تھی لہٰذا سلیم نے ہوٹلوں کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کر دی۔ وہیں پر ایک ہوٹل کے باہر ایک پولیس والے سے ملاقات ہوئی اور سلیم نے اس سے پوچھا کہ ہم ثمرنالہ تک جانا چاہتے ہیں کیا راستے میں ڈاکو وغیرہ کا کوئی خطرہ تو نہیں، اگر خطرہ ہے تو ہم یہیں پر رات گزار لیتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ہمارا ایک دوست اپنی کمپنی کی طرف سے آج کل ہنزہ میں ہے، اس نے سپیشل فون کر کے سختی سے رات کے وقت شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے سے منع کیا تھا۔ خیر پولیس والے نے سلیم کو جواب دیا کہ ثمر نالہ تک تو کوئی مسئلہ نہیں مگر اس سے آگے رات کے وقت سفر نہ کرنا اور ساتھ ہی کہا کہ یہاں داسو میں رات کو بھی گرمی ہو گی اور ساتھ ساتھ مچھر بھی ہو گا اور بجلی بھی جائے گی، اس لئے بہتر ہے کہ آپ ثمر نالہ ہی چلے جاؤ، ایک تو وہاں پر موسم بڑا خوشگوار ہو گا اور دوسرا وہاں پر بجلی بند نہیں ہوتی۔ ویسے میرے علاوہ سب دوستوں کا داسو میں ہی رہنے کا دل تھا مگر پولیس والے کی بات سن کر انہوں نے بھی ثمرنالہ جانے کا پروگرام بنا لیا، یوں چودہ گھنٹے سفر کرنے کے بعد بھی مزید سفر کے لئے گاڑی چل پڑی۔
رات ہو چکی تھی۔ ہمیں صرف سڑک ہی نظر آ رہی تھی۔ ہر طرف ویرانہ تھا۔ دن کے وقت جس دریا کی آواز سریلی لگ رہی تھی ابھی وہی آواز سانپ کی پھنکار جیسی معلوم ہونے لگی۔ سارا کھیل نفسیات کا ہے، کب رائی کا پہاڑ بن جائے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ثمر نالہ پہنچنے سے پہلے دوسری طرف سے آتے ہوئے ایک دو قافلے ملے۔ دراصل آج کل حالات کی وجہ سے شاہراہ قراقرم پر رات کو ٹریفک قافلوں کی صورت میں چلتی ہے۔ اس کے بعد ویرانہ تو جیسے ہماری جان لینے کے در پے تھا۔ موسم بھی خراب ہونا شروع ہو گیا۔ بادل گرجنے لگے اور ایک دو دفعہ بارش کی ہلکی سی پھوار بھی آئی۔ سونے پر سہاگہ کہ داسو سے آگے سڑک بھی ٹوٹی ہوئی تھی اور ثمر نالہ تھا کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
دو گھنٹے کی مسافت کے بعد اللہ اللہ کر کے تقریباً رات نو بجے ثمرنالہ یک دم نمودار ہو گیا۔ ابھی ایک لمحہ پہلے دور دور تک ثمر نالہ کے کوئی آثار نہیں تھے لیکن ایک چھوٹے سے موڑ کے بعد یک دم ہی پہاڑوں سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ ثمر نالہ نہ ہوا کوئی جن ہو گیا۔ سب نے سکون کا سانس لیا اور گاڑی سے اترے۔ ثمرنالہ میں کوئی آبادی نہیں بس ایک دو چھوٹے چھوٹے ہوٹل ہیں۔ ادھر سے جاتے ہوئے بائیں طرف دریائے سندھ ہے اور پہاڑوں سے بہتا ہوا ایک نالہ دریا میں گرتا ہے۔ یہ جگہ پہاڑوں کے دامن میں تھی اور ہوا کچھ اس طرح چل رہی تھی کہ وہ نالے کے ٹھنڈے پانی سے ٹکرا کر ہم تک پہنچتی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ قدرت نے کئی لاکھ ٹنوں کا اے سی چلا رکھا ہے۔ ویسے مزے کے کی بات ہے کہ ثمر نالہ سے تقریباً سو میٹر پیچھے اور آگے موڑ ہیں اور موڑ کی اس طرف گرمی ہے۔ گرمی کے اس تندور میں ثمر نالہ ایک چھوٹی سی پرسکون جگہ ہے۔ نالے کے پانی کی تیز رفتاری کی وجہ سے آواز اتنی تھی کہ ایک دوسرے سے باتیں کرنے کے لئے کافی اونچا بولنا پڑتا۔
خیر سلیم نے ہوٹل میں کمرے کا بندوبست کیا۔ ہم نے ضروری سامان کمرے میں رکھا۔ روٹیاں ہوٹل سے لیں اور سالن وہی نکالا جو گھر سے پکوا کر فریز کر کے لے گئے تھے۔ کھانا کھایا، کمرے میں پہنچے اور بیڈ پر بیٹھے کب نیند آئی کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ ساری رات ایک لمحہ کے لئے بھی ہوش نہ آیا وہ کیا ہے کہ پندرہ سولہ گھنٹے سفر جو کیا تھا۔ صبح اٹھا تو دیکھا کہ کمرے میں تو صرف میں، عباس اور سلیم ہی سو رہے تھے، باقیوں کا کھوج لگانے لگا تو کمرے کے باہر برآمدے میں سب سلیپنگ بیگ لے کر ”سوئے موئے“ پڑے تھے۔ ان کے اٹھنے پر پوچھا کہ آپ لوگ ادھر کیوں سوئے تھے تو کہنے لگے کہ باہر کمرے سے زیادہ خوشگوار موسم تھا۔ ویسے پچھلی رات میں اندھیرے کی وجہ سے ہمیں پتہ نہیں چلا تھا مگر ایک اہم چیز بدل چکی تھی، وہ یہ کہ پہاڑوں سے سبزہ غائب تھا اور پہاڑ ایک عجب منظر پیش کر رہے تھے۔
ثمرنالہ میں جس ہوٹل پر ہم ٹھہرے اس کی ایک دیوار سڑک کے کنارے تھی تو دوسری دیوار کی بنیاد نالے میں رکھی گئی تھی بلکہ ہوٹل کے نیچے سے پانی اتنی تیزی سے گزر رہا تھا کہ خوف آتا تھا۔ یہاں پر بجلی واپڈا یا کسی دوسرے محکمے کی نہیں تھی بلکہ مقامی لوگوں نے ڈینمو نالے کے پانی سے چلا رکھی تھی اور دن میں بھی بلب جل رہے تھے۔ جنہیں دیکھ کر مجھے ثمرنالے والوں پر رشک آ رہا تھا۔ ابھی ہم ہوٹل کے آس پاس ہی تھے کہ غلام عباس ثمرنالہ میں لگے ہوئے جنریٹر اور ان کی کارکردگی بھی چیک کر آیا۔
میں، سلیم، عباس اور عبدالستار تھوڑی دیر کے لئے دریائے سندھ کے کنارے بیٹھے اور گپ شپ کی۔ اتنے میں باقی دوست بھی تیار ہو گئے، پھر سب نے مل کر ناشتہ کیا۔ شروع میں آپ کو ایک بات بتانا بھول گیا تھا وہ یہ کہ ہمارے ساتھ ایک کچن کِٹ بھی تھی جو کہ سلیم نے تیار کی تھی۔ ثمر نالہ میں پہلی دفعہ ہم نے اس کا استعمال کیا۔ چائے خود بنائی اور یہ قربانی غلام عباس نے دی۔ خیر ناشتہ کیا، تھوڑی سی تصویریں بنائیں اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی مزید سفر شروع۔۔۔
اگلا حصہ:- تماشے، نخلستان اور چلاس – پربت کے دامن میں
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
عمدہ۔۔۔ بہت مزہ آرہا ہے آپ کا سفرنامہ پڑھ کر
اب اگلی قسط کا انتظار ہے۔۔ 🙂
وعلیکم السلام
سفرنامہ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ ان شاء اللہ جلد ہی اگلی اقساط بھی پیش کر دوں گا۔
بلال بھائی بہت عمدہ لکھا ہے آپ نے
یقین کریں کہ مزہ آگیا پڑھ کے اور اب مزید کا انتظاررہے گا
بہت شکریہ جناب۔ ان شاء اللہ جلد ہی اگلی اقساط بھی پیش کرتا ہوں۔
ماشاء اللہ بہت خوب لکھاہے۔
عرض ہے کہ میرا بھی تعلق شمالی علاقہ جات سے ہے آپ کا سفر نامہ پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ میں بھی آپ کا ہمسفر ہوں اور لطف سفر شمال سے محظوظ ہورہا ہوں۔
پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ جناب۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ میرا سفر نامہ پڑھ رہے ہیں۔
سلام بلال بھائی کیسے ہیں آپ اکیلے اکیلے سیریں ہو رہی ہیں چلیں کوئی گل نہیں یہ سفر نامہ لکھ کرآپ نے ہم کو بھی اپنا ہمسفر بنا لیا کیونکہ جیسے آپ تفصیل بیان کرتے ہیں لگتا ہے میں بھی آپ کے ساتھ ہوں اور یقین مانیں بھائی میں روز شام میں آپ کے سفر نامہ پڑنے کے لیے نیٹ پر آ رہا ہوں اگلی قسط کا انتظار رہے گا
وعلیکم السلام
اللہ کا بڑا کرم ہے۔ بھائی آپ سنائیں؟
بس یار کیا کرتے ان دنوں بجلی کی کچھ زیادہ ہی لوڈشیڈنگ تھی تو سوچا ادھر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ایک پرانا خواب پورا کر لیا جائے، تو بس نکل ہی پڑے۔ باقی سفر نامہ پسند کرنے اور اپنے قیمتی تبصرے سے نوازنے کا بہت بہت شکریہ۔