اکتوبر 27, 2011 - ایم بلال ایم
14 تبصر ے

ہمارے لئے اردو کیوں ضروری – خلاصہ

گزشتہ سے پیوستہ

ساری باتوں کا خلاصہ یہ کہ سب سے پہلے معاشرے کی ترقی کے لئے مناسب زبان کا انتخاب کرنا ہے۔ جب ہم پاکستان کے لئے مناسب زبان کا انتخاب کرنے نکلتے ہیں تو ہم پر صاف واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری ترقی کا سب سے پہلا راز ہماری قومی زبان اردو میں پوشیدہ ہے۔؟ ٹھیک ہے دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن ساری ترقی یافتہ دنیا اس گلوبل ویلیج میں شامل ہوتے ہوئے عام طور پر اپنی ہی زبان اپناتی ہے۔ اس کے بعد جس بندے نے جس سطح تک جانا ہوتا ہے پھر اس کے مطابق وہ دیگر کوئی زبان یا انگریزی سیکھتا ہے۔ ساری ترقی یافتہ دنیا کے عام لوگ انٹرنیٹ پر بھی اپنی ہی زبان اپنائے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اگر ابھی بھی ہمیں زیادہ تر انگریزی کا سہارا لینا پڑتا ہے تو اس میں قصور بھی ہمارا ہی ہے کیونکہ جتنا ہم اردو کو اپنائیں گے اتنی ہی انگریزی کی ضرورت دن بدن کم ہوتی جائے گی۔ جب ہم اردو اپنائیں گے تو ساری مشکلات آسان ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں کسی بیگانی زبان کی وجہ سے عام لوگوں پر تعلیم کے راستے بند نہیں کرنے ہوں گے اور ایک انگریزی کی وجہ سے عام لوگوں کو آگے آنے سے نہیں روکنا ہو گا۔ جو جس بھی زبان میں سوچ کر، لکھ کر یا بول کر اپنا مدعا بیان کر سکتا ہے اسے اس کی اجازت دینی ہو گی۔ ہمیں اچھے لوگ سامنے لانے ہیں نہ کہ انگریزی بولنے والے لوگوں کو بڑے عہدوں پر بیٹھانا ہے۔ اس کے بعد عام بندے کو اگر مواد کسی دوسری زبان کا چاہئے تو مترجم کا استعمال کرے اور اگر زیادہ ضرورت ہو تو پھر جس کی جو زبان ضرورت ہو وہ سیکھے۔ ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ کسی بھی معاشرے میں اپنی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان سیکھنے کی ضرورت بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے اس لئے ان تھوڑے لوگوں کو کوئی دوسری زبان سیکھانی چاہئے نہ کہ پوری کی پوری قوم پر بیگانی زبان ٹھونس کر ذہانت کا کباڑہ کر دیا جائے۔ ہمیں اس الٹی بہتی ہوئی گنگا کو سیدھا کرنا ہو گا اور ”انگریزیا“ کی بیماری سے بچنا ہو گا۔ ہم جغرافیائی لحاظ سے آزاد ہیں تو ہمیں اس ذہنی غلامی سے بھی آزادی حاصل کرنی ہو گی، تب کہیں جا کر اقوام عالم میں ہم بھی اپنی کوئی شناخت بنا پائیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر آنے والی زبانیں تو تبدیل ہوتی آئیں ہیں۔ پہلے عربی اور فارسی تھیں، اب انگریزی ہے تو کل کو کوئی اور ہو گی، اور وہ ”اردو“ بھی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ ”دیوانے کا خواب لگے“ لیکن خواب دیکھنے کی آزادی تو دیجئے حضور۔۔۔ خیر ہر غالب قوم کی زبان خودبخود بین الاقوامی سطح پر آ جاتی ہے، لیکن دیگر قوموں کی اپنی محنت و تاریخ تو صدیوں پر محیط ہوتی ہے تو کیا کل کو کوئی دوسری زبان بین الاقوامی سطح پر آئے گی تو ہم اس کی طرف دوڑ لگا دیں گے؟ اور تب تک کی ہوئی ساری محنت، سارا ادب، ساری تاریخ چھوڑ کر نئی زبان سیکھنے چل پڑیں گے؟ خدارا ہوش کے ناخن لو اور دیکھو کہ زبانوں کی سطح تبدیل ہونے پر قومیں اپنی زبانیں نہیں بدلتیں بلکہ اپنی زبان کو اپنائے رکھتی ہیں، اپنا قیمتی ورثہ سنبھالے ترقی کرتی رہتیں ہیں۔
یاد دہانی کے لئے بتا دوں کہ مجھے انگریزی سے یا کسی بھی دوسری زبان سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ میں نے وہ منطق آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لئے ترقی کا آسان ترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک دفعہ اردو کو وہ مقام دے کر تو دیکھو، جس کی یہ مستحق ہے، پھر دیکھنا یہ زبان آپ کو کیسے دنوں میں عروج دیتی ہے۔ ہمارے نوجوان بہت ذہین ہیں، ایک دفعہ بیگانی زبان کی پابندی اٹھاؤ تو سہی پھر دیکھنا یہ کیسے ملک و قوم کے دن بدلتے ہیں۔

اردو ہماری قومی زبان ہے۔ گھر، بازار، دفتر اور ہر جگہ پر اس کا استعمال کرو۔ اپنی زبان کو اپناؤ اور خوشحال ہو جاؤ۔

— ختم شد —

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 14 تبصرے برائے تحریر ”ہمارے لئے اردو کیوں ضروری – خلاصہ

  1. یار غصے میں ساری اقساط ایک ہی دفعہ ٹھوک دیں۔ روز کی ایک قسط لگانی تھی نا۔ :eyeroll:
    اب کسی ویلے ٹائم بیٹھ کر تجزیہ پیش کروں گا۔ :think:

    1. وہ کیا ہے کہ ایک دوست کی فرمائش پر ساری اقساط ٹھوکنی پڑیں۔ :beatup:
      اجی ہم کہاں غصے میں ہیں۔ ایسی باتوں پر غصہ کرتے تو کب کے پتلی گلی سے نکل جاتے۔ ویسے ستارے سیارے یہی شہادت دے رہے ہیں کہ ہم خوش ہیں اور ہم پر اقساط شائع کرنے تک کوئی دباؤ نہیں تھا۔ :timeout:
      آپ کے تجزیوں کا انتظار رہے گا تاکہ ہم بھی کچھ سیکھ سکیں۔

  2. مولانا سچ بات یہ ہے کہ ایک قوم بننے کےلئے صرف مذہب کا ایک ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ زبان، معاشرتی اقدار و تمدن سب ساتھ میں ملکر قوم بناتا ہے، پاکستان کی مثال یورپین یونین جیسی ہے 1947 سے پہلے یہ ایک ملک نہ تھا نہ ہی کبھی تاریخ میں بطورواحد ریاست یہ خطہ سامنے آیا ہے، ترقی کرنے کےلئے علم کا حصول بہت ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق زبان بذات خود علم نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے رابطہ کا، علم کا ہونا ضروری ہے پھر دوسروں کو بتانے کے طریقے بہت، علم حاصل کرنے کا سب سے آسان واسطہ مادری زبان ہے۔ چاہے وہ اردو ہو، پنجابی ہو سندھی پشتو، بلوچی فارسی ، انگریزی، اسپرانتو یا پھر چائینی و عربی۔ ہمارے ملک کا المیہ زبان سے بڑھ کر نظام ہے یہاں پر تعلیم کا کوئی بھی ایک نظام مستقل لگا دو لوگ علم حاصل کریں اوراپنے کام کاج کریں، جس کو زبانوں سیکھنی ہیں‌سیکھے، جس کو سبزی بیچنی ہے وہ سبزی بیچے۔
    مگر سوال یہ ہے کہ اگر عوام علم والی ہو تو فیر ان پڑھ حکومت میں رہ سکیں گےــ نہیں ناں

    1. آپ کی بات دل کو لگی۔ مسئلہ سارا یہی ہے کہ اگر عوام یہ باتیں سمجھ جائے، تو پھر حکام کا کیا کام رہ جائے گا۔ وہی ہیں جو یہ نہیں چاہتے۔ :shame:

    2. محترم میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اگر غور کریں تو میں نے یہ سلسلہ اسی بات سے شروع کیا تھا کہ عوام کو شعور دینے کے لئے سب سے پہلے زبان کا انتخاب کرنا ہے۔ کیونکہ اسی عوام نے نظام میں تبدیلی لانی ہے ورنہ جو حکمران اور نظام ہم پر ٹھونسا جا چکا ہے اس کے تحت تعلیمی نظام بھی بے سود ہوتا جا رہا ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس تعلیمی نظام سے گزر کر ایک بندہ سی ایس ایس کرتا ہے یعنی وہ ہمارے معاشرے کے اچھے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا ہے لیکن پھر وہی اس نظام کے ساتھ مل جاتا ہے۔
      عوام کو شعور آئے گا تو نظام میں بہتری آئے گی اور پھر اسی بہتری میں نظام تعلیم بھی بہتری کی طرف چلے گا۔ بس یہ میری ایک رائے ہے کہ ہمیں کس ترتیب سے چلنا چاہیے۔

    1. بہت خوب جناب۔ آپ نے تو کمال کر دیا۔ کیا ہی اچھے طریقے سے وضاحت کی ہے۔ آپ کی مثال اتنی زبردست ہے کہ تعریف کے لئے الفاظ نہیں مل رہے۔
      اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین

    2. ابھی اس تحریر کو دیکھا تو سوچا کہ میرے فورم کے نئے ڈومین پر منتقل ہو جانے کے بعد شاید دلچسپی لینے والے لوگوں کو میری تحریر ڈھونڈنے میں پریشانی ہو تو نیا پتا بتا دوں۔ http://tajassus.pk/node/136
      💡

  3. محترم آپ نے اس قوم کو جگانے کی بہت اچھی کوشش کی ہے لیکن یہ لوگ بہت ضروری کام سے سو رہے ہیں۔ اور ہمیں اس سلسلے میں فوری طور پر کچھ اقدامات کرنے چاہیں جیسے کہ جہاں تک میں نے کہیں پڑھا ہے ہمارے بہت ہی قریبی دوست چین کی سرکار نے اپنے ملک میں چلنے والے تمام چینی ٹیلی ویژن چینلون کو پابند کیا ہے کہ ان کے کسی بھی چینی پروگرام میں انگریزی کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے اور اسی طرح دفاتر میں بھی یہ ہی قانون لاگو ہے اور میرے خیال سے ہمارے ذرائع ابلاغ کو اور سرکار کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ کہتے ہیں کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ہمارا بھی وہ ہی حال ہے ۔

  4. میں آپ تمام احباب سے متفق ہوں اور اب میری پہلی سعی یہی ہے کہ میں بھی اپنی زندگی میں ہر سطح پر اردو اپنا لوں جیسے کوئی شخص شادی کے بعد بیوی کو اپنا لیتا ہے۔۔۔!
    اور میں بلال صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ وہ اتنی تگ و دو سے اردو کی ترویج میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، اور ترقی کیلئے تو واقعی اردو اپنانا ہو گی اور وہ بھی ہر سطح پر، گھر ،سکول، دفتر اور خاص کر عدالتی نظام جو انگریزوں کے چلے جانے کے اتنے عرصے بعد بھی غلامانہ انداز میں انگریزی میں ہی ہے اور انگریزوں نے یہ نظام اس لیے تبدیل کیا تھا کو ان کے غلام ان کی باتوں کو نہ سمجھ سکیں اور وہ روش ابھی تک جاری ہے۔۔۔

  5. واہ بلال صاحب۔ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اور میری خوشی اس وقت دوبالا ہو گئی جب تبصرہ نستعلیق رسم الخط میں لکھا گیا۔ خوش رہیں۔ اور کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ فیس بک پہ نستعلیق خط لکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *