اپنے جناب ”ادب“ صاحب کی دو جوان ”اصنافِ نازک“ ہیں۔ دونوں ہی بہت خوبصورت ہیں اور اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ ہمارے لئے دونوں ہی نہایت قابلِ احترام ہیں۔ ویسے تو ہمیں دونوں سے ہی محبت ہے، لیکن بڑی سے تھوڑی دوستی بھی ہے۔ بڑی ذہین ہے اور ہر وقت کام کاج میں مصروف رہتی ہے۔ جب گفتگو کرے تو لمبی چوڑی باتوں سے کوئی خاص گریز نہیں کرتی۔ گو کہ اس میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن اتنی آسانی سے رومانوی نہیں ہوتی۔ خیر چھوٹی کے تو کیا ہی کہنے۔ وہ کوزے میں دریا تو بند کرتی ہے مگر عموماً ساتھ ابہام بھی بھر دیتی ہے۔ قدم بعد میں اٹھاتی ہے اور رومان کی دنیا پہلے بساتی ہے۔ پلو مار کر ایسے دیا بجھاتی ہے کہ اکثر اوقات اس کی باتیں نوجوان سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ خدا کی شان بیان کر رہی ہے یا اپنے عاشقوں کی۔ شاید انہیں مغالطوں کی وجہ سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اکثر لڑکے چھوٹی پر فدا ہو جاتے ہیں۔ اس میں نوجوانوں کا اتنا قصور بھی نہیں۔ وہ کیا ہے کہ ایک تو چھوٹی کی حرکتیں اور اوپر سے بھری جوانی۔ اس کی چال پر نظریں ٹھہر جائیں اور دل پر بجلیاں گریں۔ زلفیں بکھیرے تو گھٹائیں چھا جائیں۔ نینوں کے تیر اچھے اچھوں کا دل چیر دیں۔ اس کی مسکراہٹ سے چمن مہک اٹھے۔ بولے تو سُر بکھیرے اور چال ڈھال ایسی کہ نوجوان تو کیا بزرگ بھی فدا ہو جائیں۔ بلکہ نوجوانوں سے زیادہ تو بزرگ اس کے عاشق ہیں۔ جبھی تو بیچ چوراہے اس کا دامن تھام لیتے ہیں۔
جس طرح ہمارے معاشرے میں عموماً چھوٹی بیٹی ہی لاڈلی ہوتی ہے، بلکل ایسے ہی یہاں بھی چھوٹی ہی ادب صاحب کی چہیتی ٹھہری۔ اس کا جب اور جو دل چاہے وہ کر لیتی ہے۔ کئی دفعہ تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ چھوٹی ادب صاحب کے قابو میں ہی نہیں۔ خود اندازہ کریں کہ چھوٹی نے ہر وقت جام اپنے پہلو میں دھرا ہوتا ہے۔ شراب تو کیا، ساقی سے ہی یاری لگا رکھی ہے۔ چھوٹی کا حال تو یہ ہے کہ اس کا جو دل کرے وہ لفظ استعمال کرتی ہے اور جہاں چاہے بات ادھوری چھوڑ دے۔اس کے باوجود بھی چھوٹی کو سب معاف ہے۔ دنیا اسی کی عاشق ہے اور لوگ اس کی باتوں پر ”واہ واہ“ کرتے ہیں۔ دوسری طرف بڑی بات کرتے ہوئے، اگر شراب کا استعارہ یا تشبیہ بھی استعمال کرے تو لوگ باتیں بناتے ہیں۔ اگر دوٹوک اور درست الفاظ نہ بولے تو لوگوں کو الجھن ہونے لگتی ہے۔ بڑی پلو مار کر دیا نہیں بجھاتی بلکہ ہر بات کھول کھول کر بیان کرتی ہے۔ جب دل سے بولے تو ایسے لگتا ہے کہ موتی جھڑ رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ آج کل لوگ اسے کھل کر بولنے ہی نہیں دیتے۔
”ادب صاحب“ کی بڑی ”صنفِ نازک“ یعنی نثر کئی ایک کی پرورش کر رہی ہے، جیسے مضمون، کہانی، افسانہ، خاکہ اور ناول وغیرہ۔ اور چھوٹی ”صنف نازک“ شاعری نے نظم، غزل اور ہائیکو وغیرہ کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ چھوٹی اپنے دل کی بات ایک چھوٹے سے شعر میں کہہ کر چاہے آسمان سے جا ٹکرائے یا زمین پھاڑ دے، تب بھی کئی دفعہ اس کی غیر واضح باتوں کی وجہ سے بخشش کے راستے نکل آتے ہیں۔ اور تو اور عام بندہ جو کچھ سوچنے سے بھی ڈرتا ہے، وہی بات چھوٹی بڑی آسانی سے کہہ جاتی ہے اور تب بھی اس کی پکڑ آسانی سے نہیں ہوتی۔ کوزے میں دریا بند کرنے کا تو یہ حال ہے کہ اک مصرع میں سما جائے سارا جہاں۔ دوسری طرف نثر کی باتیں عموماً واضح ہوتی ہیں، اس لئے اگر نثر کچھ غلط کہہ جائے تو اس کے بچ نکلنے کے راستے بہت محدود ہوتے ہیں۔
عام لوگ بھی کافی عجیب ہیں۔ اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہو تو شاعری کو اپنا لیتے ہیں اور اگر کسی کے دماغ کا دہی بنانا ہو تو نثر کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ویسے اپنی یاری تو ادب صاحب کی بڑی صاحبزادی نثر سے ہے۔ وہ کیا ہے کہ سیدھی سادی ہے اور آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ ہمیں جب بھی کوئی کام ہوتا ہے تو بیچاری دوڑی چلی آتی ہے اور خود ہی سارے کام کر دیتی ہے۔ تابع دار تو بہت ہے، لیکن ہمیں اس سے کچھ شکوے بھی ہیں۔ وہ کیا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ زیادہ ”فری“ نہیں ہوتی۔ ذرا سی بات کیا کریں،اسے ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہم دل کی بھڑاس نکالنے کا سوچ رہے ہیں اور یہ فوراً شور مچا دیتی ہے۔ اپنے دکھ کیا سنائیں، یہ تو اسی وقت سب کے سامنے کہہ دیتی ہے کہ دیکھو! اپنے دل کے پھپھولے نہ پھوڑو۔ پتہ نہیں اسے کیا ہے؟ ہمارے ساتھ ذرا بھی رومانوی نہیں ہوتی۔ ہمارے سامنے تواکثر ڈرتی اور شرماتی ہی رہتی ہے۔ ذرا سی دل لگی کیا کریں، آگے سے فوراً کہتی ہے کہ کچھ خیال کرو، لوگ کیا کہیں گے۔ تھوڑا مان دعوی جتا کر کچھ کہہ بھی دیں تو یہ پورے شہر میں ڈھنڈورا پیٹ دیتی ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں معمولی سی بات کیا کریں، یہ تو منہ پر دے مارتی ہے کہ اب تم اپنی تعریف خود کر رہے ہو۔ لگتا ہے کہ یہ ہمیں انسان کی بجائے فرشتہ بنانے پر تُلی ہے۔ بہرحال کبھی نہ کبھی تو اسے سمجھ آ ہی جائے گی کہ ہم بھی انسان ہیں اور دل رکھتے ہیں۔ خیر جیسی بھی ہے لیکن اپنی تو فی الحال اسی سے یاری ہے۔ چلو مکمل نہ سہی مگر بین السطور اپنے دل کی بات کہہ ہی لیتے ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ آج کل ادب صاحب کی چھوٹی صاحبزادی شاعری سے ”آنکھ مٹکا“ بھی چلا رکھا ہے۔ اول تو سوچا کہ جب نثر کو اس بات کا علم ہو گا تو شاید پھر ہی ہم پر مہربان ہو جائے۔ دوسرا شاعری کے بڑے فائدہ ہیں۔ اس سے چاہے دل لگی کریں یا اس کے ذریعے دنیا سے شکوے، اپنی تعریف کریں یا دوسروں کو خوار، کسی بھی صورت میں یہ نثر کی طرح فوراً ہی عزت کا جنازہ نہیں نکالتی۔ بے شک شاعری آپ کا راز خواص کے کانوں میں چپکے سے بتا دے مگر بات شہرِ محبت سے باہر نہیں جاتی اور اگر جائے بھی تو شاعری سارا الزام اپنے سر لے لیتی ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ شاعری آسانی سے پلو تک چھونے نہیں دیتی لیکن ہمیں اس کے پلو سے غرض بھی نہیں۔ ہم تو اس کے اِدھر اُدھر گھومتے شعروں کے ذریعے ہی حالِ دل سنا لیتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہے لیکن ادب صاحب کی دونوں صاحبزادیاں، ہیں بڑی خوبصورت اور دونوں اپنا اپنا الگ ہی مقام رکھتی ہیں۔
بھائی کیا بات ہے ادب، نثر اور شاعری کو ایسے لکھا کہ شروع میں ایسا لگا کہ واقعی کوئی صنف نازک ہے لیکن آخر تک پہنچتے پہنچتے پتا چلا کہ بات یہاں کچھ اور ہے۔ ماشاء اللہ آپ کی تعریف کیا کی جائے لیکن پھر بھی اتنا ضرور کہیں گے کہ انشاء پردازی لاجواب ہے۔
آپ نے خوب لکھا۔۔ اور پھر لکھتے ہی چلے گئے ۔
اب ہر ایک کے لیے اتنی بھی خوبصورت اور جوان نہیں۔ یہ صرف نگاہ اور چاہ کا کمال ہے ۔ ورنہ اکثر لوگ تو ادب کو بےادبی کی حد تک
فارغ البال لوگوں کا مشغلہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک بات ہے کہ یہ نشہ ضرور ہے جو چاہنے یعنی پڑھنے سے شروع ہوتا ہے اور چاہے جانے ( لکھنے) کی انتہا کو چھونے کی خواہش کا اسیر ہو جاتا ہے ۔
لا جواب تحریر ، با کمال انداز تحریر ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
بلال بھائی، بہت خوب، آپکا بھی جواب نہیں، دل کہیں ، اور نظر کہیں، بھئی یہ کیسی دل لگی ہے ۔ ہم سمجھتے تھے، کہ آپ صرف بڑے صاحب کی بڑی پر فریفتہ ہیں، لیکن آپ تو رستم سے زیادہ رستم زمان نکلے۔ ۔ خیر ادب وہ آداب اپنی جگہ۔ لیکن آجکل چھوٹی ۔ ارے بھئی وہ شاعری کچھ زیادہ ہی آزاد خیال ہوگئی ہے۔ نہ اسے بڑے صاحب کی عزت کا خیال رہا ہے۔ اور نہ ہی اپنی بڑی بہن نثر کا لحاظ۔
حسب عادت ، اک چھوٹے سے مصرے مین بہت کچھ کھل کھلا کر کہہ گئی، اور ہم پریشان ہوگئے ، ایسی شاعری نہ پہلے کبھی سنی نہ دیکھی، پھر خیال آیا شاعری کے عشاق، یہیں نہیں پڑوسی ملک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ مصرہ آپ بھی سن لیں، ہم نے بھی ٹی وی پر سنا ۔ (ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ۔۔۔ جس کے بم میں ہے دم وہ روک کے دیکھائے۔۔۔۔۔ ورنہ جاکر اپنی بھینس چرائے ۔۔۔ شاعری مین بم اور بھینس کا استعمال بھی شروع ہوگیا ،،، بھئی کمال ہے۔۔۔۔ ادب صاحب سے کہیں کہ شاعری کو لگام دین۔ ابھی چھوٹی ہے سنبھل جائے گی۔ ورنہ ، وہ بھی منی کی طرح بدنام ہوجائینگے، اور نثر کے پلے بھی کہھ نہین رہے گا۔۔۔
بلال بھائی،،، ماشاء اللہ بہت خوب لکھا ، قابل تعریف، مبارکباد قبول فرمائیں،
کیا ہی عمدہ لکھا بلال بھائی آپ نے۔ بہت خوب بہت خوب۔۔۔۔۔ماشاءاللہ
میرا بس ایک خیال ہے کہ تیسرے پیراگراف کی آخری چار لائینیں دوسرے پیراگراف میں کی گئی بات کی تکرار ہیں۔ اس تکرار نے کچھ مزا ہلکا سا کرکرا کیا ہے۔۔۔۔۔لیکن ویسے کمال ہی کی تحریر ہے۔۔۔۔۔اگر یہ تکرار نہ ہوتی تو انشاء جی کی تحریر کے پلے ہے۔۔۔۔واقعی۔۔
عمدہ تحریر ہے۔
جوں جوں آگے بڑھتی گئی دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔۔۔
بہت خوبصورتی سے اردو ادب کے حوالے سے بات کی گئی۔
تو کب تک آپ کی شاعری منظرِ عام پر آرہی ہے ؟
اور آپ کے سافٹ وئیرز کی وجہ سے اِن دونوں پہ روپ آیا ۔ ورنہ بہت مشکل تھا اردہ لکھنا اور پڑھنا . . اس اعتبار سے آپ اِن دونوں کے مربّی ٹھہرے۔
بہت خوب لکھا ۔۔۔خوش رہیئے
نہایت عمدہ تحریر ۔
بہت ہی خوبصورتی سے اصنافَ سخن کو بیان کیا ہے اور میں درپیش مسائل کی نہایت ہی خوبصورتی سے نشاندہی کی ہے۔
آپ کی کاوشیں داد و تحسین کے قابل ہیں۔ دعا ہے کہ آپ زبانِ اردو کی بہتر سے بہترین ترویج کرنے مین اپنا حق بہ حسن و خونی ادا کریں۔اللہ آپ کو آپ کی کاوشوں کا بہترین ثمر عطا فرمائے۔آمین!
خوب است
بہت خوب