زید: کمال ہے یار! حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اگر میں مر گیا تو تم میری خبر تک نہیں لو گے۔
بکر: تم بھی کمال کرتے ہو۔ تُو ایک دفعہ مر تو سہی، پھر دیکھ، میں خبر لیتا ہوں یا نہیں؟
زید: گویا اب تمہاری وفا یا بے وفائی ثابت کرنے کے لئے مجھے مرنا پڑے گا۔
بکر: کیا کروں یار! اس دنیا کا یہی دستور ہے، جیتے جی کوئی منہ نہیں لگاتا جبکہ مرنے کے بعد سر پر بیٹھایا جاتا ہے۔ وہی جو خود بھوکا مر گیا لیکن اس کے مرنے کے بعد، اسی کے نام پر خیرات کی جاتی ہے۔ یادگاریں بنائی جاتی ہیں، مقبرے تعمیر ہوتے ہیں۔ وہ جو خود آب آب کرتا مرتا ہے اسی کے نام پر پانی کی سبیل لگتی ہے۔ وہ جو خود ساری زندگی علاج اور بروقت ایمبولینس پہنچنے کو ترس گیا، اسی کے مرنے پر بڑی بڑی گاڑیاں ”بروقت“ دوڑائی جاتی ہیں۔ یہاں زندوں کی نہیں بلکہ مُردوں کی قدر ہوتی ہے۔ لہٰذا اے میرے دوست! اگر اپنی قدر کرانا چاہتا ہے تو تجھے مرنا پڑے گا اور یہی آج کی دنیا کا دستور ہے۔
زید: اگر یہی ”آج کی دنیا“ کا دستور ہے تو پھر میں اس دستور کو چیلنج کرتا ہوں اور ”کل کی خوبصورت دنیا“ آباد کروں گا۔
روزوشب کے میلے میں
غفلتوں کے مارے لوگ
شاید یہی سمجھتے ہیں
ہم نے جس کو دفنایا تھا
بس اُسی کو مرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی سی ہمت اور اخلاقی جرائت سے کام لیا جائے تو فضول اور غیر اسلامی رسومات سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ رب بھی راضی ہوتا۔ اور مرنے والے کو بھی اجر ملتا ہے۔
دیسی رسومات بجائے خود ایک شیطانی اور جعلی معیار ات زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔
لوگ عام طور پہ رشتے داروں ۔ برادری اور ارد گرد کے جاننے والوں کی وجہ سے فضول اور مہنگی رسومات پہ وقت اور پیسہ برباد کرتے ہیں۔ اور مرنے اور جینے کو مشکل بنا رکھا۔ اگر کوئی اس طرح کی رسومات کو توڑنا چاہے تو لوگوں کے اس خوف سے کہ ’‘ لوگ کیا کہیں گے‘ کی وجہ سے ایسی رسومات کو توڑ نے کی ہمت نہیں پاتا۔ لیکن جو لوگ اپنے اندر یہ ہمت پیدا کر لیں کہ غلط اور جعلی رسومات سے جان چھڑوانی ہے تو آئیندہ اسی طرح کے واقعات میں باقی برادری اور رشتے دار پہلے سے قائم کی گئی مثال کو اپناتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ فضول رسم کسی نے ختم کی اور فضول کی جھجنٹوں اور وقت و سرمایے کی بربادی سے جان چھوٹی۔
زندوں کے لئیے کچھ کرنا چاہئیے ۔ مرنے والوں کے ساتھ ان رسومات نے زندہ لوگوں کو بھی زندہ درگو کر دیا ہے
یوں اللہ بھی راضی ہوتا ہے۔ اسلئیے زندہ لوگوں کے لئیے کچھ کرنا چاہئیے ۔ مرنے کے بعد تو صرف مرنے والے کے ساتھ اسکے اعمال اور لواحقین کی طرف سے ایصال و ثواب ساتھ جاتا ہے۔ یادگاریں اور مقبروں کا نہ اس دنیا میں کوئی فائدہ نہ اگلی دنیا میں کوئی ثواب ہے
:|یہ زندگی کے میلے دنیا مین کم نہ ہونگے
افسوس ہم نہ ہونگے۔
ویستے ہمارے پاس تو یہ تصؤر ہے ہی( دین کا) بعد مرنیکے زندگی کا، اور شاید یہی وجہ ہے کسی کے مرنے کے بعد اسکی یادگار تعمیر کرنیکا ہمارے پاس بہت رواج ہے۔
عمل کی کمی ہے بھائی ۔۔۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔۔آمین
علم کی کمی سب سے بڑا گناہ ھے ، اللہ نے سب سے پہلے پڑھنے کا حکم دیا ۔ اگر ھم لوگ قرآن کریم کو ترجمعہ سے اپنی زبان میں پڑھیں تو کوئی مشکل ھی نہ ھو۔ ہر شخص زندوں کی قدر کرے۔
علم ہے مگر شعور نہیں ہم زہینی غلامی کا شکار ہیں جسمانی غلامی سے قید ہوتی ہے زہنی غلامی سے نسلییں برباد ہو جاتی ہںں